نئے میدان کے لیے نئے گھوڑوں کی ضرورت


بھارتی میڈیا بیک چینل رابطوں کی کہانیوں سے بھرا ہواتھا۔ کہا رہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے دوطرفہ تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے کسی قسم کی ثالثی کی ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں اگست 2019 ء میں اس وقت تلخی آگئی جب بی جے پی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا۔ یہ آرٹیکل کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا۔ اس پر دونوں حکومتیں مہر بلب ہیں۔ تعلقات میں بہتری کے کچھ آثار البتہ ہویدا ہیں، جیسا کہ ہائی کمشنرز کی اپنے دفاتر میں واپسی، تجارت اور ویزہ سہولت کی بحالی اور دیرینہ حل طلب ”اہم مسائل“ پر بات چیت کا امکان۔ گزشتہ ایک دو ہفتوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے ان امور پر پاکستانی میڈیا میں بھی کچھ ہلچل دکھائی دیتی ہے۔ یہ تجزیہ کس حد تک قابل اعتماد یا حقیقت پسندانہ ہے؟

ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ فوجی افسران کے درمیان پس پردہ ہونے والی گفت و شنید کی وجہ سے پچیس فروری کو لائن آف کنٹرول پر تزویراتی فائربندی کا اچانک معاہدہ ہو گیا۔ یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب آزاد کشمیر کے علاقے بالا کوٹ پر بھارت کے ”جارحانہ حملے“ اور پاکستان کی طرف سے منہ توڑ جواب کے دوسال پورے ہونے میں دو دن باقی تھے۔ درحقیقت حالیہ مہینوں کے دوران لائن آف کنٹرول پر بدترین گولہ باری ہوتی رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں بہت زیادہ جانی نقصان بھی ہوا تھا۔

واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے بات چیت کے لیے ساز گار ماحول بننے کا تاثر قائم ہونے لگا۔ گزشتہ ماہ حکومت پاکستان کی نیشنل سکیورٹی ڈویژن نے چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ کو پلیٹ فورم مہیا کردیا۔ اُنہوں نے بھارت کے حوالے سے قومی سلامتی کے امور کا رخ تبدیل کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ اُن کا کہنا تھا، ”ہم محسوس کرتے ہیں کہ ماضی کو دفن کر آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے، لیکن قیام امن کے عمل یا بامعنی مذکرات کے لیے ہمارے ہمسائے کو خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں سازگار ماحول قائم کرنا ہو گا۔ “ ماضی کو دفن کرنے کا مطلب ”تقسیم کے ادھورے ایجنڈے“ کو بھولنا ہے؟ گویا کشمیر کے اہم ایشو کو سرد خانے میں ڈالنا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں ساز گار ماحول کا مطلب آرٹیکل 370 کی بحالی یا مقبوضہ وادی سے بھارتی فوج کا انخلا، یا انسانی حقوق کی پامالی کا خاتمہ ہے۔

گزشتہ ہفتے تک جب کہ مندرجہ بالا کسی سوال کا جواب سامنے نہیں آیا تھا، پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم اچانک خیر سگالی اور نیک خواہشات کے خطوط کا تبادلہ کرتے دکھائی دیے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ان کے درمیانی تلخ بیانات کا تبادلہ ایک معمول تھا۔ حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس بیان سے تجارتی اور سفارتی تعلقات اور عوامی رابطوں کی بحالی کا عندیہ ملا۔ لیکن عین اس وقت پاکستان میں جنگجو عناصر (ہاک) نے تیور دکھائے اور تحریک انصاف کی حکومت کو پچھلے قدموں پر جانے پر مجبور کردیا۔

چونکہ یہ پاکستان تھا جس نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارت سے تمام تعلقات توڑ لیے تھے، اور یہ پاکستان ہی تھا جس نے ”حالات ساز گار نہیں ہیں“ کی رٹ لگائی ہوئی تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کون سے حالات ساز گار ہوگئے ہیں؟ خاص طور پر جب آرٹیکل 370 کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ وضاحت سے قاصر تحریک انصاف کی حکومت نے کپاس درآمد کرنے کے فیصلے پر فوراً یوٹرن لیا۔ وزیر اعظم کے احکامات کی تعمیل کرنے والے وزیر کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور ایک بار پھر آرٹیکل 370 کی بحالی تک تعلقات معمول پر نہ لانے کی نعرہ بازی شروع ہو گئی۔ اس دوران پاکستان کے جن سول اور فوجی افسران نے لائن آف کنٹرول پر فائربندی کے لیے مذاکرات کیے تھے یا آرمی چیف کے حالات میں تبدیلی لانے کے بیان کی تائید کی تھی یا جب حکومت نے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا بیان د یا اور پھر اس پر یوٹرن لے لیا، تو وہ افسران بالکل خاموش رہے۔ ان کی طرف سے کوئی بیان نہ آیا۔

کچھ جوابات کے لیے ہمیں چھے اگست 2019 ء کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ آرمی چیف کی قیادت میں کور کمانڈروں نے بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر پاکستان کا ردعمل پیش کیا۔ آئی ایس پی آر کا بیان سامنے آیا کہ ”کئی عشرے قبل بنائے گئے آرٹیکلز 370 یا 35A، جنہیں اب منسوخ کر دیا گیا ہے، کے ذریعے جموں اور کشمیر پر قبضے کو قانونی قرار دینے کی بھارت کی نام نہاد کوششوں کو پاکستان نے کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔۔۔ ہم اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں (کشمیری عوام سے) کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔“ دوسرے الفاظ میں بھارت کے فعل کا ہمارے موقف پر کوئی اثر نہیں ہوا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی قانونی بنیاد پر کھڑا ہے۔ ہم اسی ذریعے اس بنیادی تنازع کا حل چاہتے ہیں۔ یہ ایک عمدہ اور دانش مندانہ بیان تھا۔ آرٹیکلز کی منسوخی پر احتجاج کرتے ہوئے بھی تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا گیا تھا۔ لیکن سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں وزیر اعظم عمران خان نے فوراً ہی بھارت کے ساتھ تمام تجارت اور سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر ڈالا، بھارتی وزیر اعظم پر ذاتی حملے کرتے ہوئے اُنہیں ”فسطائی مودی“ کہا اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے آرٹیکل 370 کی بحالی کو بنیادی مطالبہ قرار دیا۔ اب حقائق کا سامنا ہونے پر احساس ہوا کہ تناؤ میں کمی اور حالات معمول پر لانے کا دباؤ بڑھ رہا ہے جس کا اشارہ جنرل باجوہ نے علاقائی امن کے حوالے سے کیا تھا۔ تاہم آرٹیکل ختم کرنے کی شرط پوری ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اس طرح وزیر اعظم پاکستان ایک اور دباؤ کا شکار ہوگئے۔ امکان تھا کہ وہ اپنے بیان پر قائم رہتے ہوئے سوتی کپڑے کی مصنوعات کی برآمد کو سہولت دینے کے لیے بھارت سے کپاس درآمد کریں گے، اور بھارت چینی کی دآمد کی وجہ سے عام آدمی کے لیے رمضان کے دوران چینی کی قیمت کم ہوجائے گی۔ اسی لیے اُنہوں نے حماد اظہر کو گرین لائٹ دی تھی۔ بدقسمتی سے اُنہوں نے نہ کسی سے مشورہ کیا،نہ سول ملٹری سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا، اور نہ ہی اپنی کابینہ میں شامل جنگ پسند عناصر اور میڈیا کے خدشات رفع کیے، اس لیے وہ شدید دباؤ کا شکار ہوکر یوٹرین لیتے دکھائی دیے۔

اس دوران کسی پس پردہ معاہدہ سے پہلے تعلقات کے معمول کی طرف بڑھنے کی رفتار سے بھارتی سکیورٹی اسٹبلشمنٹ بھی ابہام کا شکار ہے۔ اس وجہ سے اس طرف سے خاموشی ہے، گرچہ بھارتی اسٹبلشمنٹ چاہتی ہے کہ پاکستان اپنے سابق فیصلوں سے قدم پیچھے ہٹا لے۔ لیکن وہ کشمیر پر پاکستان کو تو کجا، کشمیریوں کو بھی کوئی فوری رعایت نہیں دینے جا رہی۔

لائن آف کنٹرول اور ایل اے سی پر کشمکش بھارت، پاکستان اور چین، تینوں کو زک پہنچا رہی ہے۔ ان تینوں ممالک کی قومی سلامتی کی اسٹبلشمنٹس نے بنیادی تنازعات پر اپنے موقف کو ترک کیے بغیر مشترکہ طور پر اپنی سرحدوں پر استحکام لانے کے لیے مذاکرات کیے۔ لیکن یہ صرف پاکستان کی حکومت تھی جس نے تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے کو مشروط کردیا۔

قمر جاوید باجوہ کی ”تزویراتی تبدیلی“ کے لیے مضبوط اور مقبول سیاسی کندھے درکار ہیں جو ماضی کو دفن کرنے کا سیاسی بوجھ اُٹھا سکیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے اپنے ادوار میں اس کی کوشش کی تھی لیکن اُس وقت کے جنرلوں نے وہ کوششیں ناکام بنا دیں۔ چونکہ عمران خان نہ تو عوامی مقبولیت رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ استقامت کے ساتھ دباؤ کے سامنے کھڑے ہوسکتے ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ جنرل باجوہ کو گھوڑے بدلنے کا مشورہ دیا گیا ہو۔

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments