مزدورکے مسائل میں اضافہ کرنے کا ذمہ دار کون؟


خیال رہے کہ ملازمت پیشہ افراد کی کثیر تعداد ہے جو اس مسئلے سے دوچار ہے اور نئی نسل بھی ملازمتوں کے حصول میں کوشاں ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو سوچ ہی یہی ہے کہ ایک متوسط خاندان کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ پڑھ لکھ کر اچھی ملازمت حاصل کرلے۔ اگر آپ تجزیہ کرلیں تو آپ کو یقینا حیرت ہوگی کہ سکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباؤ طالبات کی اکثریت مستقبل میں ملازمت کی خواہاں ہے۔ ایسے میں جہاں ایسی حکومتی پالیسیاں بننی چاہئیں جس سے مزدور کو تحفظ ملے وہاں ایسی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جس سے عام آدمی کے لئے ملازمت کا حصول یقینا ایک خواب سے کم نہیں ہو گا۔ ایسے میں کم پڑھے لکھے لوگوں کے لئے ملازمت کا حصول بہت مشکل بنا دیا گیا ہے، جس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک ہسپتال میں ”آیا“ کی ملازمت کے لئے ایف اے پاس کی شرط کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ یہ درجہ چہارم کی ملازمت ہے۔

اگر موجودہ حکومت کی مزدوروں کے حوالے سے 100 دنوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے موجودہ حکومت نے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے۔ یہ ضرور ہے کہ ملک بھر میں تجاوزات آپریشن کے ذریعے حکومتی اراضی کو تو واگزار کرا لیا گیا لیکن اُن دوکانوں کو گرانے سے جتنے عام لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر بے روز گار ہوئے ہیں اُ س کے لئے حکومت نے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے۔

جس کا برملا اظہار اُنہوں نے احتجاج کر کے میڈیا کے ذریعے کیا۔ اُنہوں نے کوئی لیبر پالیسی میں اصلاحات لانے کی بات نہیں کی اور نہ ہی ایسا کوئی عندیہ دیا کہ ٹھیکداری نظام یا نجکاری کو روکنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کریں گے۔ بلکہ اس حکومت نے تو ڈیلی ویجز ملازمین کی تنخواہیں روک کر مزدور دوست حکومت کا تاثر ہی ختم کر دیا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ جب مختلف ٹی وی چینلز نے ملک بھر میں عام مزدوروں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں سے گفتگو کی تو اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ حکومتی جماعت کے بیشتر ووٹر اس پر کف افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ اُنہوں نے موجودہ حکومت کو ووٹ کیوں دیا؟

آپ شوگر ملوں کے مزدوروں اور کاشتکاروں کی صورتحال دیکھ لیں تو علم ہو گا کہ کس طرح اُن کو خوا ر کیا جا رہا ہے اور تاحال حکومت اُن کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کر سکی جبکہ اس شعبے سے جڑے لاکھوں مزدوروں کی پریشانی میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کا اندازہ ٹی وی چینلوں پر چلنے والے شو گر ملوں ایسوسی ایشن کے اشتہار کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اب حکومت تو اپنی سو روزہ حکومت کی کارکردگی میں سب اچھا ہے کی گردان الاپ رہی ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں اس کو ماننے سے یکسر قاصر ہیں اور مسلم لیگ (ن )کی طرف سے جو وائٹ پیپر شائع کیا گیا ہے اس میں وہ حکومتی کاکردگی کو صفر قرار دیا ہے۔ اور موجودہ دنوں میں روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے مزدور طبقے میں ایک مرتبہ پھر سراسمیگی کی لہر دوڑ گئی ہے اور یقینا اُن کی پریشانی بنتی ہے کیونکہ ڈالر بڑھنے سے اور پاکستانی روپے کی قدر کم ہونے سے جو مہنگائی کے اثرات مرتب ہوں گے اُس کا اثر یقینا عام آدمی اور خصوصاً مزدور طبقے پر ہی پڑے گا۔

گو کہ یہ تمام صورتحال موجودہ حکومت کے دور میں پیدا نہیں ہوئی لیکن اب چونکہ پاکستان تحریک انصاف ہی حکومت میں ہے تو اب گلہ بھی ان ہی سے بنتا ہے۔ اور ان مسائل کے حل کے لئے بھی ان ہی کو مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں یہ مزدوروں کے لئے کسی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں جن سے مزدور کو صحیح معنوں میں اُن کا حق مل سکے، اُن کو بھی وہی اُجرت مل سکے جو عالمی سطح کے مزدور کو مل رہی ہے، اُس کے لئے بھی وہی اوقات کار متعین ہوں جن کو عالمی سطح پر حکومت مان چکی ہے، اُن کو بھی ہفتہ میں چھٹی کا حق ملنا چاہیے اور اُن کو بھی مزدور ہونے کا احترا م ملنا چاہیے جس کا عالمی ادارہ محنت اُنہیں یقین دلاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2