اڑیں گے پرزے: ویلنے میں بانہہ!


گنے کے کاشتکار، اپنا کام کاج چھوڑ کے لاہور کی سڑکوں پہ ٹریکٹر لیے کھڑے ہیں اور ہمارے ایک دانشور دوست، فیس بک پہ سٹیٹس لگا رہے ہیں ’سٹک ان اے موب فیلنگ ہراسڈودمرزا غالب اینڈ فورٹی نائن ادرز‘۔ یہ صاحب، علمی محفلوں میں اچھل اچھل کر ’جس کی محنت، اس کا حاصل‘ کے آؤٹ آف ووگ نعرے پہ سپیچیں دیتے پائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں چینی کی صنعت، کپڑا سازی کی صنعت کے بعد دوسرے نمبر پہ ہے۔ بہت سے لوگوں کو وہ دن بھی یاد ہوں گے جب پاکستان میں چینی کا بحران تھا۔ چینی راشن کارڈ پہ ملتی تھی۔ لوگ باگ خوشی خوشی، قطاروں میں لگ کے چینی حاصل کرتے تھے اور یہ چینی، مرتبانوں اور تام چینی کی وولٹوہیوں میں بھر کے مہمانوں کے لیے مخصوص کر دی جاتی تھی۔

چونکہ مطالعہ پاکستان میں ، مطالبہ پاکستان کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی تھی کہ انگریز، ہمارے خام مال سے، اپنے کارخانوں میں مال تیار کر کے ہمیں ایک منڈی کی طرح استعمال کرتے تھے۔ اس لیے، ہم نے آزادی کے بعد فٹ یہ ترتیب بدلی۔ اب ہم اپنے خام مال سے، اپنی صنعتوں میں مال تیار کر کے خود کو ایک منڈی کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔

تھوڑی سی جدت یہ پیدا کی گئی کہ ہم اپنا خام مال تیار کرنے والے کاشتکاروں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو ایک دیسی، دوسرے دیسی سے کرتا ہے۔ کپاس اور گنے دونوں فصلوں کے کاشکاروں کے ساتھ، خریداری اور ادائیگی میں تو جو بے قاعدگیاں روا رکھی جاتی ہیں سو ہیں۔ ان بے چاروں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ اس بار کارخانہ دار ان کا مال خریدیں گے بھی یا نہیں۔

ہندوستان کی کپاس، آلو اور پیاز کسی بھی وقت سرحد پار کر آتے ہیں اور ایٹم بم سے زیادہ نقصان کر جاتے ہیں لیکن شکر ہے کہ نظریاتی سرحدیں بالکل محفوظ رہتی ہیں۔

جس وقت چینی کے بحران کو دور کرنے کے لیے پاکستان میں چینی کے کارخانوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت محسوس کی گئی اس وقت کچھ منفی سوچ رکھنے والے لوگوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ گنے کی فصل زمین کی زرخیزی کو بہت متاثر کرتی ہے اس لیے، دساور سے خام چینی منگوا کر یہاں فقط اسے صاف کر لیا جائے۔

چونکہ منفی سوچ رکھنے والوں کو کسی بھی دور میں در خور اعتنا نہیں جانا جاتا، لہذٰا اس غدار سوچ اور پاکستان کی سالمیت کی طرف اٹھنے والی انگلی کو توڑ کے پرے پھینکا گیا اور ہزاروں ایکڑ رقبے پہ گنا کاشت کرنے کی سفارشات مرتب کر لی گئیں۔

گنے

ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایک اعشاریہ دو ملین ایکڑ پہ گنا کاشت کیا جا رہا ہے۔ کاشتکار ایک تو ہوتے بھولے ہیں دوسرے انھوں نے یک مشت پیسہ بہت کم دیکھا ہوتا ہے۔ ابتدائی پیش کش خوش کن تھی۔ کاشکاروں میں اتحاد بھی نہیں اور ان میں جانے پیش بینی کی صلاحیت اتنی کم کیوں پائی جاتی ہے؟

خیر، کین مینجرز نے مطلوبہ خام مال حاصل کر ہی لیا۔ اس دوران، کین ٹریفک نے کس قدر حادثات کو جنم دیا، سڑکوں کو کیا نقصان پہنچا، زمین کی زرخیزی کتنی متاثر ہوئی، لوگوں کو کین ایریا میں سفر کرتے ہوئے کس قدر تکلیف پہنچی اس پہ بات کرنا کسی نے بھی گوارا نہ کیا۔ بات تھی مٹھاس کی۔ مل مالکان اور کاشتکار سب شیر و شکر ہوئے رہے۔

خیر، یہ میٹھے سال، گزرتے رہے۔ کاشتکار، اگاتے اور کھاتے رہے۔ کارخانہ دار، چینی بیچتے رہے، گنے کے پھوک سے سستی بجلی بنا کے نوٹ چھاپتے رہے اور دس بیس سالوں میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ آج سے بیس بائیس سال پہلے، گنے کے کاشتکاروں اور مل مالکان کے درمیان بد مزگیوں کی ابتدا ہوئی اور اب نوبت اس جگہ آن پہنچی ہے کہ دسمبر کا دوسرا ہفتہ آ لگا ہے اور کرشنگ سیزن کا آغاز نہیں ہوا۔

پندرہ نومبر کے بعد گندم کی کاشت کا مطلب، جھاڑ میں 20 کلو فی ایکڑ کمی ہے۔ گندم کا مطلب سال بھر کے دانے یعنی روٹی ہے۔ مل مالکان سیانے ہیں اور اپنے مطالبات منوانے کا طریقہ بھی جانتے ہیں اور مالی طور پہ مستحکم بھی ہیں۔ گنے کے کاشتکار مالی طور پہ وہیں کھڑے ہیں جہاں اس زریں دور کے آغاز میں کھڑے تھے۔

حکومت نے گنے کی فی من قیمت ایک سو پچھتہر روپے مقرر کی ہے، لیکن مبینہ طور پہ، آڑھتیوں اور ایجنٹس کے ذریعے 145 روپے فی من گنا خریدا جا رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نو ملین لوگ کسی نہ کسی طرح گنے کی کاشت میں شریک ہیں۔

زمین کا رس چوس کے کاشت کیا گیا گنا سینہ تانے کھڑا ہے، بیلنے اور کڑہاؤ نہیں چل رہے لیکن لگتا ہے کاشتکاروں کی ‘ویلنے میں بانہہ آ گئی’ ہے۔

حکومت جہاں، دیسی مرغ، انڈے اور کٹے کی مائیکرو مینجمنٹ کر رہی ہے، وہیں اس مسئلے کی طرف بھی توجہ دے۔ وہ ایسا ہے کہ اگر گندم کاشت نہ کی جا سکی تو دیسی مرغے کے شوربے میں کیا بھگو کر کھائیں گے، کیک؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).