اورگلگت بلتستان صوبہ نہ بن سکا؟


گلگت بلتستان کی رائے عامہ اور سیاستدان غم وغصے سے لال پیلے ہورہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں دغا دیا۔پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا لولی پاپ دیا ۔عین وقت پر د م دبا کر بھاگ گئی۔

گزشتہ روز گلگت بلتستان اسمبلی میں دھواں دھار تقریریں ہوئیں۔ کشمیری لیڈرشپ کو خوب بے نقط سنائیں۔ وزیرتعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال نے فرمایا: کشمیریوں کے حق میں کسی نے ریلی نکالی تو اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے؟ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں کشمیریوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہوگاورنہ وہ بعض نہیں آئیں گے۔

پیپلزپارٹی کے گلگت بلتستان کے لیڈروں نے بھی خوب ہرزہ سرائی کی۔ ہر کوئی کشمیریوں کو کوس رہاہے کہ وہ گلگت بلتستان کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت سے ستر سال پہلے گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول وفاقی حکومت نے سنبھال لیا تھا اس کے بعد کسی بھی کشمیری لیڈر یا حکومت کا وہاں کے معاملات میں کوئی عمل دخل ہی نہیں۔ گلگت بلتستان والوں کو جو ملا وہ بھی اسلام آباد کی عطا تھی اور جو نہیں ملا اس کا خطاکار بھی اسلا م آباد اور اس کے بعض اداروں کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیاں ہیں۔

پچاس کی دہائی سے وفاقی حکومت ا س مخمصے کا شکار رہی کہ وہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ بنا دے۔ وزیراعظم عمران خا ن کی طرح کئی ایک حکمرانوں نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی ۔ بعدازاں سرکار نے ٹھنڈے دل ودماغ سے اس فیصلے کے نتائج وعواقب پر غور کیا تو چپ سادھ لی۔

گلگت بلتستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر حکومتی حلقوں میں ایک موثر لابی ہے جو گلگت بلتستان اور ریاست جموں وکشمیر میں کوئی انتظامی یا آئینی تعلق کار پیدا کرنے کے سخت خلاف ہے۔

محدود ذہن کے ان عناصر نے گلگت بلتستان والوں کی توقعات کو ساتویں آسمان پر پہنچایا۔انہیں صوبے کے نام پر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا۔ صوبے سے کم پر راضی نہ ہونے پر اکسایا حتیٰ کہ صوبے کا قیام گلگت بلتستان کا سب سے مقبول نعرہ ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے دونوں حصوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو گلگت بلتستان والوں کو حقوق دینے کے مطالبہ سے اتفاق نہ کرتاہو بلکہ تمام سیاسی اور سماجی تنظیمیں کہتی ہیں کہ انہیں آزادکشمیر سے بھی زیادہ حقوق دیں۔

لیکن وفاقی حکومت کوئی فیصلہ کر ہی نہیں پاتی۔ وہ دوکشتیوں کی سوار ہے۔ حکومت پاکستان یہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ تین جنگیں لڑنے اور عشروں کی کشیدگی اور محاذ آرائی کی قیمت ادا کرنے کے باوجود اچانک ایک شام وہ اپنا راستہ بدل دے اور کشمیریوں سے بدعہدی کی مرتکب کہلائے۔

سرکارنے اقوام متحدہ اور ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ وعدہ کررکھا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کے بعداپنا مستقبل پاکستان سے اپنی مرضی کے مطابق وابستہ کرنے میں آزاد ہیں۔پاکستان کے آئین کی دفعہ 257 اس وعدے کو آئینی تحفظ دیتی ہے: جب ریاست جموں وکشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں،تو پاکستان او رمذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے۔

علاوہ ازیں آئین پاکستان کشمیریوں کی مرضی اور خواہشات کو زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے پر فوقیت دیتاہے ۔ سینئر صحافی افتخار گیلانی کے بقول پاکستان کشمیر کو شہ رگ کہتاہے تو اس کے ساتھ ایک رومانوی تعلق استوار کرتاہے جو کشمیریوں کو بے حد متاثر کرتاہے۔

آئین میں واضح کردیا گیا کہ جموںوکشمیر کے مستقبل کافیصلہ ریاست کے عوام اپنی آزادانہ مرضی سے کریں گے نہ کہ حکومت پاکستان ۔ علاوہ ازیں 1957میں مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی نے الحاق بھارت کی توثیق کرنا چاہی تو اقوام متحدہ نے باقاعدہ ایک قراردادکے ذریعے اسے روکاٹوکا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کوئی بھی مقامی اسمبلی نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی طاقت اس کی حیثیت میں تبدیلی کی مجاز ہے۔

حکومت پاکستان ایک نہیں درجنوں مرتبہ گلگت بلتستان کو ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تسلیم کرچکی ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی معاہدے میں بھی گلگت بلتستان کو ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قراردیا گیا ۔عالمی فورمز پر بھی اسی موقف کا اظہار کیاجاتارہا۔حکومت پاکستان کے پاس اپنے موقف سے دستبردار ہونے کا کوئی راستہ نہیں۔

اگر وہ ایسا کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں ستر برس کی محنت اور جدوجہد ضائع ہوجائے گی جو کشمیرکی تحریک کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور دنیا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کی گئی ۔پاکستان کا موقف نہ صرف کمزور ہو گا بلکہ وہ دنیا میں کہیں بھی مقدمہ کشمیر پیش کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔کشمیری لیڈرشپ اور عوام بھی اس فیصلہ کو قبول نہیں کریں گے بلکہ اسے ان کی پیٹھ میں چھراگھونپنے کے مترادف قراردیتے ہیں۔

کشمیری رائے عامہ کی بھاری اکثریت کواس بات کا ادراک ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئے اور تلخ حقائق نے جنم لیا ہے جن کا سامنا کیے بغیر چارہ نہیں۔ ان میں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان الگ شناخت چاہتاہے۔ جموں اور لداخ کے علاقے بھی بھارتی یونین کا حصہ بننے کی طرف مائل ہیں۔ ریاست کی وحدت محض علامتی باقی رہ گئی ہے ۔لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ریاست کی وحدت کے خاتمے کا اعلان اسلام آباد کرے۔

اس طرح نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کشمیریوں پر ملبہ ڈالنے کے بجائے تحریک انصاف کی حکومت اور سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کو حقائق سے آگاہ کریں کہ وہ صوبہ کیوں نہیں بن سکتے۔سابق وزیراعظم شاید خاقان عباسی نے گلگت بلتستان کی قیادت سے متعدد ملاقاتیں کیں اور انہیں باور کرایاکہ پاکستان انہیں صوبہ نہیں بنا سکتاالبتہ بااختیار بناسکتاہے۔چنانچہ ایک آئینی پیکج بھی دیا گیاجو ایک بڑی پیش رفت تھی۔

وفاقی حکومت کے اختیارات میں معتدبہ کمی کی گئی اور گلگت بلتستان کو زیادہ بااختیار بنایاگیا لیکن سراب کا تعاقب کرنے والے کہاں باز آتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے سوموٹو لے لیا ۔چنانچہ یہ پیکج منصفوں کے ہاں زیر بحث ہے۔

پاکستان کی مجبوریاں ہماری اجتماعی اور قومی ذمہ داریاں ہیں۔ کشمیریوں نے بے پناہ قرنیاں دی ہیں۔ آزادکشمیر والے بھی ستر برسوں سے پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی ہے نہ سینٹ میں۔ مقدمہ کشمیر کی خاطرپاکستان نے بہت قربانی دی۔ کشمیریوں کی تو نسلیں کٹ مریں۔ گلگت بلتستان والوں کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔غالباً اس وقت تک جب تک کہ کشمیر کا کوئی فیصلہ نہیں ہوجاتا۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood