سندر بن کے جنگلات، عید اور میں


یہ دسمبر 1969 کا رمضان ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی بندہے۔ رقیہ ہال میں بشمول میرے خال خال لڑکیاں رہ گئی ہیں۔ کچن کی بوڑھی دادیوں کو میری سحری افطاری کا بڑا فکر رہتا ہے۔ اُنہیں میری عید کی بڑی فکر ہے۔ یہ جاننے پر کہ میں عید منانے اپنی دوست کے ساتھ باریسال سے بیس میل دور صاحب رائے گاؤں جارہی ہوں اُن کے چہروں پر طمانیت بھری مسکراہٹ پھیل گئی ہے۔ یہ ممتا سے بھری بوڑھیاں جنہیں بنگالی، بہاری، پنجابی کی سیاست سے کچھ سروکار نہیں۔ بس محبت میں لُتھڑی انسانیت کے ماتھے کا جھومر کیسے اس وقت بے طرح یاد آرہی ہیں۔

اس بوڑھے ڈرل ماسٹر کی یاد نے بھی آنکھیں بھگو دی ہیں۔ عصر سے افطاری تک آڈیٹوریم کے چکنے فرش پر میری دھواں دھار قسم کی اسکیٹنگ اُسے مضطرب کیے رکھتی۔ ”بس کرو۔ روزہ ہے تمہارا اور ہاں عید کرنے گھر جاؤ گی۔ “ نہیں تو۔ اپنے گھر ہی تو عیدیں کرتے کرتے اتنی بڑی ہوئی ہوں۔ اس بار تو پوربو دیس میں عید ہوگی۔ ”میری بات پر وہ کھل اٹھتا ہے۔ لفٹ مین نورالزماں، گیٹ کے دربان نومی اور مونو، دھوبی، موچی جن سب سے میری محبتیں تھیں۔ میری پوربو پاکستان میں عید منانے کو مسرت بھرے جذبوں سے سراہ رہے ہیں۔ شوق وارفتگی کے جذبات میرے بھی انگ انگ سے پھوٹ رہے ہیں۔

ساری رات راکٹ کا سفر کچھ سوتے کچھ جاگتے میں گزارنا بھی زندگی کا ایک حسین تجربہ تھا۔ صبح اپنے تما م تر حُسن کے ساتھ پدما کی لہروں پر اتر آئی تھی۔ اونچے اونچے مٹیالے بادبانوں کی کشتیاں سُبک روی سے تیر رہی تھیں۔ نواحی علاقوں کے ماہی گیر چلتی کشتیوں میں کھڑے وزنی جالوں کو پورے زور سے پانی میں پھینک رہے تھے۔ یہ بھاٹیا مارا گھاٹ کا نواحی علاقہ تھا۔ دریا کا دہانہ کہیں کم اور کہیں زیادہ چوڑا تھا۔ چند عورتیں راکھ سے برتن مانجھ رہی تھیں، ہری، پیلی، سرخ ساڑھیوں والی۔ کچھ ایک طرف غسل کر رہی تھیں، کہیں کہیں اِکا دُکا مرد لوگ بھی نہاتے نظر آرہے تھے۔

اور راکٹ اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ تاڑ اور سپاری کے قد آور درخت جھومتے تھے۔ ہر سو آنکھوں کو تازگی دینے والا سبزہ تھا۔ دور سورج طلوع ہو رہا تھا۔ لالی پانی میں گھلتی جا رہی تھی۔ چمکتی کرنیں مختلف راستوں سے دریا میں اترتی آر ہی تھیں۔ ”اللہ! یہ بنگال کی صبح ہے! اتنی حسین! “ میں بے اختیار خود سے بولی تھی۔

۔ ”فضول میں ہی لوگوں نے صبح بنارس کا محاورہ بنا رکھا ہے۔ میرے خیال میں تو صبح بنگال سے زیادہ حسین صبح برصغیر کے کسی شہر کی نہیں ہو سکتی۔ “

باریسال کے ساحل پر کشتیوں، سٹیمرز، لانچوں، بحیروں اور دخانی جہازوں کی اتنی ہی کثرت تھی جتنی ڈھاکہ کے صدر گھاٹ پر۔ لانچیں اور راکٹ مختلف جگہوں سے آ جار ہے تھے۔ لکڑی کے تختے بچھائے گئے اور ان پر ٹھپ ٹھپ کرتے ہم سب باہر آگئے۔

تب دو رویہ درختوں سے گھرے ٹین کی چھتوں والے گھر میں داخل ہوئے۔ یہ ذکیہ کے چچا زاد بھائیوں کا گھر تھا۔ دو دن یہاں قیام کے بعد ہمیں صاحب رائے جانا تھا۔ کچے صحن میں سفیدے کا درخت پَر پھیلائے کھڑا تھا۔ دو منزلہ مکان سارا لکڑی اور ٹین سے بنا تھا۔ انگنائی میں مرغیاں کٹ کٹ کرتی پھر رہی تھیں۔ اس گھر کی لڑکیاں بھی کچھ مرغیوں کی طرح بے شمار تھیں جو گننے میں نہیں آر ہی تھیں۔ ذکیہ نے اپنی بھاوجوں اور چچی کے قدم چھوئے اور اُن سبھوں نے مجھے محبت سے مسکرا کر دیکھا۔

ہریالی میں نہاتے صاف ستھرے خوب صورت شہر باریسال میں گھومتے زیر تعمیر میڈیکل کالج کو دیکھتے ہوئے واپسی کی۔

دوپہر کا کھانا پُر تکلف تھا۔ کوئی، سنگی اور ٹھینگرا مچھلیوں کو نہایت عمدگی سے پکایا گیا تھا۔ مرغ روسٹ تھا۔ مگر بریانی میں پیاز اور کشمش کا استعمال کچھ زیادہ ہی کیا گیا تھا۔ کھانا کھاتے ہوئے دفعتاً میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ دستر خوان پر عین میرے سامنے بیٹھے ذکیہ کے بوڑو بھائی اپنے منہ سے کانچ کے بنٹے جتنی گولی نکال کر پلیٹ میں رکھ رہے تھے۔ پلیٹ کے کنارے پر تین ایسی ہی گولیاں پہلے بھی پڑی تھیں۔ یہ کیسی جادوگری ہے؟ کھایا ماچھ بھات جا رہا ہے اور اندر سے بنٹے نکل رہے ہیں۔ میں نے سوچا۔ ذکیہ نے یقیناً میری آنکھوں سے ٹپکتی حیرت اور نگاہوں کا ان گولیوں پر جماؤ محسوس کر لیا تھا۔ ہنسی اور بولی۔

” ارے! یہ مچھلی کے کانٹے ہیں جنہیں اکثر لوگ منہ ہی منہ میں اکٹھا کر لیتے ہیں۔ “ یہ کس قدر دلچسپ اور انوکھا انکشاف تھا۔

پھر یوں ہوا کہ اس وقت جب میں گھونٹ گھونٹ ڈاب پی رہی تھی، اس لڑکے نے جو ذکیہ کا رشتے میں بھتیجا تھا اور جس کا نام منصور الحق تھا، نے اُن سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ”کہ وہ اس ویسٹ پاکستانی مہمان لڑکی کو کھلنا نیوز پیپر مِل دکھانا اور سندر بن کے جنگلات کی سیر کروانا چاہتے ہیں۔

میں تو جیسے کُنگ سی ہوگئی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی اولڈ ڈھاکہ میں مشہور آرٹسٹ زین العابدین سے ملنے گئی تھی۔ پیچ در پیچ گلیوں میں چلنا اور اس عظیم فنکارکے ایک چھوٹے سے گھر کی بیٹھک میں بیٹھنا میرے لیے بڑا مسرور کن تھا۔ اس کمرے کی ایک دیوار پر آرٹسٹ کی ایک پینٹنگ آویزاں تھی۔ سندری درختوں سے گھری کھپریل کی ایک جھونپڑی، جس کے پس منظر میں ایک نحیف و نزار بوڑھا کشتی کی مرمت میں جتا ہوا تھا۔ سبک خرامی سے بہتا ہوا دریا، ایک گھاٹ اور بانس کی جیٹی، بھاگتے ہرن اور ان کے بچوں کی ڈاریں۔ منظرجیسے میری آنکھوں میں منجمد ہو گیا تھا۔

منحنی سے بدن والے دھوتی اور بٹنوں والی چھوٹی سی قمیض پہنے زین العابدین نے میرے جذب کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ سندر بن کا سین ہے۔ اب کوئی مجھے وہی منظر دکھانے کی پیشکش کر رہا تھا۔ میں نے منصور الحق کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

”آپ چہرہ شناسی کے ماہر لگتے ہیں۔ یقیناً آپ نے میرے چہرے پر سندر بن دیکھنے کی خواہش کے کسی عکس کو دوڑتے پھرتے دیکھ لیا ہوگا۔ میں آپ کی بہت شکر گزا ر ہوں۔ “
اور صرف آدھ گھنٹہ بعد میں اور ذکیہ سٹیمر میں بیٹھی منصور الحق کی بیوی سے پروگرام کی تفصیل سن رہی تھی۔
بگھیرگھاٹ سے کھلنا تک کا سفر سڑک سے۔ پیپر مِل میں منصور کے مینجردوست کی میزبانی۔ صبح چالنا تک لانچ اور پھر وہاں سے کشتی میں سندر بن کے جنگلات کی سیر۔

سٹیمر کی تیز رفتاری لہروں سے گتھم گتھا ہو کر انہیں پٹخ پٹخ کر پھینک رہی تھی۔ بگھیر گھاٹ سٹیمر کا پہلا پڑاؤ تھا۔ گھاٹ پر انہیں ڈاب پینے کا کہہ کر منصور الحق گاڑی کا بندوبست کرنے چلا گیا۔ خوبصورت پانیوں کے سفر کے بعد بگھیر گھاٹ سے کھلنا تک زمینی سفر کا ایک اپنا حُسن تھا۔ پختہ سڑک جس کے دونوں جانب ناریل اور سپاری کے درختوں کی بہتات تھی، پان کی بیلوں کی کثرت بھی دیکھنے کو ملی۔ بیس پچیس میل کا یہ سفر پل جھپکتے میں ہی طے ہوگیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2