اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو


میں ایک قلم کار ہوں۔ میں جو محسوس کرتا ہوں وہ لکھ دیتا ہوں۔ لکھنے والا حساس ہوتا ہے۔ وہ ایک عام انسان کی نسبت کسی بھی واقعے کو گہرائی میں دیکھتا اور سوچتا ہے۔ یہ حساسیت بعض اوقات عذاب بن جاتی ہے۔

میں نے جب لکھنا شروع کیا تھا تو محسوس کیا تھا کہ لوگ عموماً دکھی ہیں۔ ہمارے ملک میں گذشتہ کچھ عرصہ سے دکھوں نے راستہ بنا لیا ہے اور جب جی چاہے منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں۔ چناچہ میری کوشش ہوتی ہے کہ ہلکی پھلکی تحریر لکھوں۔ لوگ میری تحریر پڑھ کر مسکرائیں اور بجائے ذہن پر بوجھ محسوس کرنے کے لطف محسوس کریں۔ میں بھی مگر اسی ملک میں رہتا ہوں۔ اس ملک کے دکھ میرے بھی دکھ ہیں۔ میں ان دکھوں کو فصیلِ جاں میں چھپائے رکھتا ہوں۔ مگر ہر سال سولہ دسمبر کو ایک عظیم دکھ میری تمام دفاعی فصیلیں عبورکرکے جارحانہ انداز میں باہر نکل آتاہے اور اک حشر اٹھا دیتا ہے۔

سولہ دسمبر 2014 کا دن پاکستان پر قہر بن کر نازل ہوا اور ایک قیامت اپنے پیچھے چھوڑ گیا۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آئے 132 بچے بے رحمی سے قتل کر دیے گئے۔ بچوں کو مار ڈالنے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ یہ افواجِ پاکستان کے جانبازوں کے بچے ہیں اور چونکہ پاکستانی فوج دہشت گردوں کی سرکوبی کے نام پر مسلمانوں کو مار رہی ہے لہٰذا بدلے کے طور پر ان کے بچوں کو مارنا عین جائز ہے۔ یوں معلوم انسانی تاریخ کی بھیانک ترین وارداتوں میں سے ایک کا جواز پیدا کیا گیا۔

ہماری قوم ایک جذباتی قوم ہے۔ ایسے سانحے کے بعد اس قوم کا غم وغصے میں مبتلا ہو جانا قدرتی امر تھا۔ پورے ملک میں چند دن تک سوگ کی سی کیفیت رہی۔ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو خشک نہ ہوتے تھے۔ خوش نما کلیوں کے مرجھا جانے کا درد ہر کوئی محسوس کر رہا تھا۔

اور دوسری طرف المیہ یہ تھا کہ اسی ملک میں سے کچھ لوگ جو کچھ نہ کچھ حلقہ اثر رکھتے ہیں، وہ اس واردات کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہوئے ایک طرف دبے دبے الفاظ میں قاتلوں کی طرف داری کرہے تھے تو دوسری طرف محتاط الفاظ میں ریاست پاکستان کے خلاف سوالات اٹھا رہے تھے۔ کوسنے والے حسب عادت اور حسب معمول سیاست دانوں اور فوج کو کوس رہے تھے۔ خاص طور پر فوج کی جانب انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں۔ سیکیورٹی کی کمزوری کی دہائی کی آڑ میں جسد قومی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے آستین کے سانپ پھن پھیلائے جھوم رہے تھے۔

مجھ جیسے خوش گمانوں کو مگریہ امید تھی کہ اس سانحے کے بعد قوم متحد ہو گی اور ایک آواز ہو کر دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہو جائے گی۔ ایسی خوش گمانیاں لیکن محض کاغذات کا پیٹ بھرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ زمینی حقائق یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ اور زمینی حقائق ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ اپنی ترکیب میں خاص یہ سفاک قوم ایسی قیمتی ترین قربانیوں کی بھی پروا نہیں کرتی۔ ہمارے ملک میں انسانوں کی وقعت محض کیڑے مکوڑوں جتنی رہ گئی ہے۔ بلکہ شاید اس سے بھی کم۔

کسی بھی زندہ معاشرے میں ایسے المناک سانحات ہو جائیں تو زندہ قومیں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر مشکل وقت سے نکل آتی ہیں۔ جبکہ کمزور لوگوں یا قوموں کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی اپنا قصور تسلیم نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ اپنا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ ہم کیسی قوم ہیں؟ بلکہ کہنا چاہیے کہ کیا ہم واقعی قوم ہیں؟ ہمارے ساتھ سانحہ ہو جائے تو ہم ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ ہمیں ہر دوسرا شخص غدار لگنے لگتا ہے۔ ہم اپنی اپنی ذات کے دائروں میں بٹے ہوئے مختلف ہجوم ہیں جو ایک خطہ زمین پر باہم رہنے کو مجبور ہیں۔

ہم ”بڑا دشمن بنا پھرتا ہے“ اور ”مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے“ جیسے بہترین نغمے سنتے ہیں اور پھر ان کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ بجائے حوصلہ پیدا کرنے کے انتہا درجے کی مایوسی پھیلاتے ہیں۔ ہماری زبانیں تیز دھار خنجر بن چکی ہیں۔ ہمارے افعال مسلسل زحمت بن کر ہمارے اپنے سروں پر ہتھوڑوں کی طرح برس رہے ہیں۔ ہم نے اپنی قربانیوں کو شیلف میں سجا کر سر بازار پیش کر دیا ہے اور ان کو بیچے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ستر ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوجانے کی مارکیٹینگ ہم دنیا بھر میں کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ دنیا ہمیں ان شہیدوں کے خون کی قیمت ادا کرے گی۔ اورپھر ہم وہ خون پئیں گے۔

ڈریکولا ایک فرضی کردار تھا جس کو اپنی بقا کے لیے دوسروں کے خون پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ ہم مگر حقیقی ڈریکولا بن چکے ہیں۔ ہم اپنا ہی خون پی رہے ہیں۔ جب ہماری بقا کا سوال پیدا ہوتا ہے ہمارے نوکیلے دانت نمودار ہو جاتے ہیں اور پھر ہم وہ دانت اپنے ہی جسم کے کسی حصے میں گاڑ دیتے ہیں۔ جب تک ہم اچھی طرح اپنا خون نہیں چوس لیتے ہماری پیاس نہیں بجھتی۔ آپ تسلی رکھیں۔ ہمارے جسد قومی میں خون کی کمی نہیں ہے۔ اورہماری پیاس بھی مٹنے والی نہیں ہے۔

میں اس کالم میں سولہ دسمبر کے شہیدوں کا نوحہ لکھنا چاہتا تھا۔ میں اس بدترین واقعے میں سے امید ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ میں یہ لکھنا چاہتا تھا کہ ہمارے گلدستے کے خوبصورت ترین پھول اپنے لہو سے اس ملک میں غیرت کی آبیاری کر گئے ہیں۔ مگر افسوس۔ ہائے افسوس۔ میں صرف اور صرف اپنی قوم کے فکری زوال کا ماتم کرنے پر مجبور ہوں۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad