مہمان، بچوں کی ماں اور ادھ جلا سگار


اس روزدوپہر کے کھانے پر دونوں کم سن بچے حیران ہو کراس اچانک وارد ہو جانے والے اجنبی مہمان کو دیکھتے رہے۔ کبھی کبھی وہ سوالیہ انداز سے اپنی ماں کی طرف بھی دیکھتے تھے کیوں کہ آج ان کا باپ انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر کے اس نئے مہمان کے ساتھ مصروف گفتگو تھا۔ عمران کھانے کی میز پر بھی بے تکان بولے چلا جا رہا تھا۔ کالج کے دنوں کے قصوں سے لے کے کرکٹ میچ کی ہار تک، مشترکہ دوستوں کی غیبت سے لے کر اپنی پسندیدہ اداکارہ کے تازہ اسکینڈل تک، اور ملکی معیشت کی ڈوبتی نیا سے لے کر سیاست کی بھول بھلیوں تک وہ کسی گھربند نہیں تھا۔ ہرموضوع پر اس کی معلومات مکمل اور تازہ ترین تھیں۔ قیصر زیادہ تر سامع کا کردار نبھا رہا تھا کیونکہ عمران اسے زیادہ بولنے ہی نہیں دیتا تھا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد جب قیصر کی مخملیں آواز عالیہ کے کانوں میں پڑتی تو وہ ایک دم چونک کراس کی طرف دیکھتی مگر اسے مکمل طور پرعمران کی طرف متوجہ پا کرنظریں واپس ہٹا لیتی تھی۔ عالیہ کو اندازہ ہو چکا تھا کہ عمران کے برعکس قیصر لفظ گن کر بولنے کا عادی تھا۔ البتہ اس کی مسکراہٹ خوب تھی جو لمحے بھرکو بھی اس کے ہونٹوں سے جدا نہ ہوتی تھی۔ عالیہ کو خیال آیا کہ قیصر کے ہونٹوں پر بس لپ اسٹک کی کمی تھی۔ اس خیال کے آتے ہی وہ بے اختیار مسکرا پڑی مگر فورا ہی اس نے اپنی مسکراہٹ پر قابو پایا کہ وہ کہیں اس کے چہرے پر لو نہ دینے لگے۔

اگلی صبح ناشتے کے بعد عمران قیصر اور بچوں کو لے کر فارم ہاوس کے دورے پر نکل گیا۔ عالیہ اپنا چائے کا مگ لے کر برآمدے میں پڑی بید کی کرسی پر آ بیٹھی اور صبح کی خوشگوار دھوپ کا مزہ لینے لگی۔ فارم ہاوس کا زراعت اور باغبانی والا حصہ گھر کے رہائشی حصے کے سامنے خاصے بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ عالیہ آرام کرسی پر بیٹھ کراپنے شوہر مہمان اور بچوں کو سبزیوں کے کھیتوں میں گھومتے اور پھل دار درختوں کا معائنہ کرتے ہوئے دیکھتی رہی۔ عمران ہاتھوں کے اشاروں کے ساتھ قیصر کو ایک ایک درخت اور پودے کے بارے میں بتارہا تھا۔ قیصر نے آج کھلتا ہوا نیلا رنگ پہن رکھا تھا جو اس ماحول میں خوب نظروں میں کھب رہا تھا۔ پھر یہ لوگ ڈیری فارم کے اندر چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ عالیہ کی چائے کب کی ختم ہوچکی تھی۔ وہ بھی اٹھ کر اندر چلی گئی۔

اس روز دوپہر کے کھانے پر عمران قیصر کو تفصیلا بتاتا رہا کہ اپنی کامیاب قانونی پریکٹس کے بیچوں بیچ اسے یہ فارم ہاوس بنانے کا خیال کیوں کر آیا تھا اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں اسے کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حسب دستور قیصر ہمہ تن گوش عمران کی تقریر سن رہا تھا اور بیچ میں کہیں کہیں مختصر تبصرے بھی کرتا جا رہا تھا۔

ا ’ف توبہ کتنا بور شخص ہے یہ عمران۔ ‘ عالیہ نے خود سے کہا۔ ’بس خود ہی بولے جاتا ہے دوسرے کو تو موقع ہی نہیں دیتا بولنے کا۔ ‘

کھانے کے دوران عالیہ خود ہی کبھی سالن کا ڈونگا اور کبھی چاولوں کی قاب کھسکا کر قیصر کی جانب بڑھاتی رہی ورنہ شاید وہ بھوکا ہی اٹھ جاتا دسترخوان سے۔ مانگنے کی اسے عادت ہی نہیں تھی۔ ’عجیب سیر چشم آدمی ہے یہ قیصر بھی۔ ‘ عالیہ حیران تھی۔

پھر ایک معمول سا بندھ گیا۔ ناشتے کے بعد عمران فارم ہاوس کی طرف نکل جاتا۔ بچوں کو عالیہ گھیر گھار کر ہوم ورک کرنے پر لگا دیتی اورقیصر برآمدے میں رکھی گئی لکھنے کی میزپر براجمان ہو جاتا۔ عالیہ وقفے وقفے سے کچن کا چکر لگاتی اوراس کی جالی دار کھڑکی کے پیچھے سے باہر برآمدے میں جھانک کر قیصر کو دیکھتی۔ اس کے سامنے میز پر کتابوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر ہوتا اورساتھ سفید کاغذوں کا ایک پلندہ۔ کچھ نفاست سے تراشی ہوئی پنسلیں بھی ساتھ رکھی ہوتیں۔ کبھی وہ کوئی کتاب پڑھنے میں منہمک ہوتا تو کبھی مسلسل تیزتیز کچھ لکھتا رہتا۔ لیکن کسی کسی وقت وہ محض کرسی کی پشت سے سر ٹکائے ہوئے سگار منہ میں لیے نیلے آسمان کی وسعتوں میں کچھ تلاش کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ البتہ اس کی وہ موہوم سی مسکراہٹ کبھی اس کا ساتھ نہ چھوڑتی تھی۔ اس نے تو کچھ طلب کرنا نہیں ہوتا تھا اس لئے عالیہ خود ہی نوکر کے ہاتھ اس کے لیے کبھی چائے کبھی جوس تو کبھی کافی بھجواتی رہتی تھی جسے وہ اپنے مخصوص بے نیازانہ انداز میں قبول کر لیتا تھا۔ یونہی ایک روز جب عالیہ شرارت کر کے بھاگتے ہوئے بچوں کے تعاقب میں برآمدے میں آ نکلی تو قیصر جو کہ ایک کیف کے عالم میں اپنی کرسی پر نیم دراز سگار کے دھویں کے مرغولے فضا میں اڑا رہا تھا ایک دم ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا اور سگار کو یوں اپنے پیچھے چھپانے لگا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔ عالیہ کی ہنسی چھوٹتے چھوٹتے رہ گئی۔ قیصر کے چہرے کے تاثرات دیکھنے والے تھے۔

رات کے کھانے پر جب حسب دستور تقریبا یک طرفہ گفتگو کا سیشن جاری تھا تو عالیہ سوچ رہی تھی کہ عمران کے بقول یہ بندہ امریکہ سے لٹریچر پڑھا ہوا ہے۔ وہاں کا مشہور رائٹر ہے۔ کئی کتابیں چھپ چکی ہیں اس کی۔ آدھی دنیا گھوما ہوا ہے۔ تو کیا اس کے پاس سنانے کو ایک قصہ بھی نہیں۔ کوئی افسانہ، کوئی نظم، کوئی غزل، کوئی شعر۔ کچھ بھی نہیں۔ اورعمران کو دیکھو۔ ایویں ڈینگیں ماری جاتا ہے۔ کہیں کہیں تولمبی چھوڑتا ہے۔ اور قیصر کتنے غور سے سنتا ہے اورایسے سر ہلاتا ہے جیسے کوئی بڑی اہم گفتگو ہو رہی ہو۔ عجیب گوتم بدھو آدمی ہے یہ قیصر بھی۔ ’

’ گوتم بدھو‘ عالیہ کو اپنی یہ اچانک ایجاد ہو جانے والی اصطلاح بڑی اچھی لگی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ قیصر کو اسی نام سے پکارے اور اس کا رد عمل دیکھے لیکن اس کی زبان نے حرکت نہ کی۔

’ تو پھر کب واپس جا رہا ہے آپ کا یہ دوست؟ ‘ کچھ روزبعد عالیہ نے عمران سے پوچھا۔ وہ ابھی نہا کر نکلا تھا اور تولیے سے بال خشک کر رہا تھا۔

’ کیوں بھئی خیریت تو ہے؟ کیا ہوا؟ ‘ عمران نے حیرانی سے پوچھا۔ ’قیصر نے کچھ کہا کیا تم سے؟ ‘

’ جی کچھ کہے بھی تو سہی وہ‘ عالیہ بولی۔

’بھئی برا نا مانیں تو بہت ہی بورنگ شخص ہے آپ کا یہ دوست قیصر ملک۔ کچھ بولتا ہی نہیں۔ رہنے کا کمرہ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ کھانا اچھا تھا کہ نہیں؟ کچھ چاہیے؟ کوئی مسئلہ ہے؟ کچھ نہیں بتاتا۔ بس سمائل کیے جاتا ہے ہر وقت۔ ‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4