مہمان، بچوں کی ماں اور ادھ جلا سگار


عمران عالیہ کی یہ بات سن کر بے تحاشا ہنس پڑا۔

’آپ ہنس رہے ہیں؟ میں مذاق تو نہیں کر رہی عمران‘ عالیہ نے تیوری چڑھائی۔

’ ارے عالیہ بیگم درویش بندہ ہے میرا دوست اور کالج کے دنوں سے ہی ایسا ہے۔ کلاس فیلو لڑکیوں کو بھی اس سے یہی شکایت رہتی تھی۔ اس بندے کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ‘

’ توبہ ہے۔ ‘ عالیہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ ’پتہ نہیں کیسے گذارا کرتی ہو گی اس کی بیوی اتنے بورنگ آدمی کے ساتھ۔ ‘

عمران کا قہقہہ پھر بلند ہوا۔ ’ارے کوئی بیوی ہو گی تو بور ہو گی نا۔ موصوف نے یہ اعزاز آج تک کسی کو بخشا ہی نہیں۔ حضرت بیچلر ہیں ابھی تک‘

’ چلو اچھا ہی کیا۔ کم از کم ایک زندگی تو خراب ہونے سے بچ گئی۔ ‘ عالیہ نے ناک چڑھائی۔

عمران یہ سن کر پھر ہنسا۔ ’ارے عالیہ بی بی۔ قیصر تخلیقی آدمی ہے۔ سارے تخلیقی لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اپنی دھن میں رہنے والے۔ مست مولا ٹائپ۔ ‘

’ خیر۔ اب آپ اپنے مست مولا صاحب سے کہئے کہ کافی خاطر مدارات ہو چکی۔ اب اپنے گھر تشریف لے جائیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔ ‘

’ ارے تم بھی کمال کرتی ہو عالیہ۔ گھر آئے مہمان سے کوئی ایسے کہتا ہے کیاَ؟ کچھ دن اور صبر کر لو پھر خود ہی چلا جائے گا۔ ‘ عمران نے کہا اور وارڈروب میں سے اپنے کپڑے نکالنے لگا۔

اس روز صبح ہی صبح عمران قیصر اور بچوں کو جیپ پر آس پاس کا علاقہ گھمانے لے گیا۔ شام تک واپس آنے کا کہہ گیا تھا۔ اتوار ہونے کی وجہ سے آج ملازمین بھی چھٹی منا رہے تھے۔ عالیہ گھر میں بالکل اکیلی تھی۔ وہ گھر کے خالی کمروں میں بلا مقصد ادھر ادھر گھومنے لگی۔ اس کا ذہن ایک عجیب سی الجھن میں پھنسا ہوا تھا۔ اس قسم کا احساس اسے آج سے پہلے زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ جتنا خود کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کرتی اتنی ہی زیادہ شدت سے یہ کیفیت اسے اپنی گرفت میں لیتی جاتی تھی۔ اسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اس کیفیت کو وہ کیا نام دے۔ یونہی گھومتے گھومتے وہ عمران کی سٹڈی میں آ نکلی جہاں آجکل دونوں دوست رات گئے تک بیٹھک کیا کرتے تھے۔ آج عالیہ کا کافی دنوں بعد اس کمرے میں آنا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ کمرہ مکمل بے ترتیبی کی حالت میں تھا۔ کوک کی بوتلیں، کتابیں، رسالے، سی ڈیز اور اخباریں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔ صوفے کے کشن جن کو تکیے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ابھی تک نیچے قالین پر پڑے تھے۔ عالیہ نے چیزیں اٹھا اٹھا کر ترتیب سے رکھنی شروع کر دیں۔ نیچے صوفے کے پائے کے ساتھ فرش پر ایش ٹرے بھی دھری تھی جو سگریٹوں سے بھری ہوئی تھی۔ سب سے اوپر وہ ادھ جلا سگار پڑا تھا جو قیصر پیا کرتا تھا۔ سگار کو دیکھ کر عالیہ ٹھٹکی لمحے بھر کو جھجھکی اور پھر اسے اٹھا لیا۔ یہ ایک قیمتی غیر ملکی سگار تھا۔ بھورے کاغذ پر چھپا ہوا مینوفیکچرر کا سرخ لوگو نمایاں تھا۔ عالیہ سگار کو انگلیوں میں گھماتی رہی پھر اسے اپنی ناک کے قریب لے گئی اور اس کی مہک کو اپنے نتھنوں میں کھینچا۔ عالیہ تمباکو کی سخت مخالف تھی اور عمران کے سگریٹ نہ چھوڑنے پر کئی بار اس سے لڑائی کر چکی تھی۔ لیکن آج جانے کیا بات تھی کہ اسے اس سگار کی کڑوی بو بہت فرحت انگیز لگی۔ اس نے دوبارہ اس کو اپنی ناک سے لگایا۔ ایک بارگی اس کے دل میں ایک دیوانی خواہش ابھری۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اس سگار کو جلائے اور اس کا ایک بھر پور کش لگائے۔ ٹھیک وہیں سے جہاں قیصر کے ہونٹوں نے سگار کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔

پھر ایک دم سے جیسے وہ ہوش کی دنیا میں واپس آ گئی۔ ’ربش‘ اس نے خود کو ڈانٹ دیا۔ سگار کو واپس راکھ دان میں رکھا اور کمرے سے چلی گئی۔

عمران قیصر اور بچے سورج ڈھلنے سے ذرا پہلے بخیریت واپس آ گئے تھے لیکن وہ پوری رات عالیہ ٹھیک سے نہ سو سکی۔ اس سے اگلے دن بھی وہ متواتر یہی سوچتی رہی کہ اسے اس طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ کئی بار اس خلجان سے تنگ آ کر اس کا دل چاہا کہ خود جا کے قیصر سے کہہ دے کہ وہ یہاں سے چلا جائے۔ لیکن وہ ایسا کرنے کی ہمت بھی اپنے اندر پیدا نہ کر سکی۔

آج عالیہ کو احساس ہو رہا تھا کہ زندگی میں کچھ لڑائیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو انسان کو تنہا ہی لڑنا پڑتی ہیں۔ کوئی دوسرا مدد نہیں کر سکتا۔ اس رات جب عالیہ سونے کے لیے اپنے بستر پر دراز ہوئی تو اس کا بدن تھکاوٹ سے چور تھا حالانکہ اس نے دن بھر کوئی مشقت نہ کی تھی۔

اس سے اگلے روز عمران نے درد سر کی شکایت کی اور سکون آور دوا لے کر سر شام ہی سو رہا۔ عالیہ دیر تک اس کے پہلو میں لیٹی کروٹیں بدلتی رہی لیکن اسے نیند نہ آنی تھی نہ آئی۔ ایک دو بار وہ بستر سے اٹھی اور ساتھ کے کمرے میں جا کر بچوں کا جائزہ لے کر آئی جو مست سوئے پڑے تھے۔ واپس آ کر وہ پھر سے بستر پر لیٹی اور سونے کی کوشش کی مگر بے سود۔ آخر آدھی رات کے قریب وہ بستر سے اٹھی اور گھر سے باہر نکل آ ئی۔

یہ پورے چاند کی رات تھی۔ فضا صاف اور قدرے خنک تھی۔ دودھیا چاندنی نے رات کے اندھیرے کو گہری نیلی گھلاوٹ میں بدل کر حد درجہ دلکش اور حسین بنا دیا تھا۔ عالیہ بوجھل قدموں سے چلتی ہوئی آئی اور برآمدے کے سامنے بنے ہوئے گھاس کے قطعے میں نصب شدہ آہنی بنچ پر بیٹھ گئی۔ ۔ سامنے اس کے گھر کی سفید عمارت نیلی روشنی میں آنکھیں موندے سوئی پڑی تھی۔ اس نے ایک نظر زمین و آسمان پر ڈالی۔ سکون ہی سکون تھا۔ ماحول پر مکمل سناٹا طاری تھا۔ بس کبھی کبھی قریبی درختوں کے پتوں میں سرسراہٹ ہوتی اور ہوا کا کوئی شریر جھونکا عالیہ کی زلفوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرتا ہوا گزر جاتا۔

عالیہ کو لگا کہ ساری کائنات عالم خواب میں تھی بس ایک وہی جاگ رہی تھی۔ لیکن نہیں۔ گھر کی بالائی منزل کے ایک کمرے سے مدھم سی روشنی جھانک رہی تھی۔

وہاں بھی کوئی بیدار تھا اب تک۔

عالیہ کو اس خواب آگیں ماحول کا حصہ بنے نامعلوم کتنا وقت گزر گیا تھا جب سامنے برآمدے کا دروازہ کھلا اور ایک سایہ سوئی ہوئی عمارت سے نکل کر اس کی سمت بڑھا۔ عالیہ کا دل ایک بار بہت زور سے دھڑکا۔ جیسے اسے علم ہو کہ یہ سایہ کس ہو سکتا ہے۔ وہ سایہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتا ہوا عالیہ کے قریب آ کر رک گیا۔ کچھ ثانیے خاموشی رہی۔ پھر قیصر کی ریشمیں آواز عالیہ کے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4