ایک دن نیب کے قید خانے میں


پچھلے کئی ماہ سے نیب کا ادارہ لائم لائٹ میں ہے۔ روز کسی پیشی یا گرفتاری کی وجہ سے نیب کا ذکر ٹی وی اور اخبارات میں آرہا ہے۔ کچھ دن قبل ڈاکٹر مجاہد کامران کو نیب نے حراست میں لیا بعد ازاں انہوں نے میڈیا میں نیب کے حوالات سے گلے شکوے کیے اسی طرح احتساب عدالت میں اپنی پہلی پیشی پر خواجہ سعدد رفیق نے نیب کے حوالات کے واش رومز میں لگے کیمروں پر سوالات اٹھائے۔ عام تاثر یہی ہے کہ نیب کے حوالات میں بد ترین انتظام ہیں یاشاید وہاں پر گرفتار لوگوں کے ساتھ نیب کی جانب سے برا سلوک کیا جارہا ہے۔

یہ سب بیانات اور اعتراضات ہی ہمارا نیب کے حوالات میں جانے کا باعث بنے۔ چئیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ہدایت پر لاہور سے چند صحافیوں کو نیب لاہور آفس کا دورہ کروایا گیا نیب لاہور کے حوالات میں ہی سابق وزیر اعلی شہباز شریف، احد چیمہ، فواد حسن فواد کو رکھا گیا تھا ان دنوں وہاں خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، سابق چیف ٹریفک افسر لاہور رائے اعجاز سمیت کئی اہم شخصیات نیب کی حراست میں ہیں۔ اس دورہ میں ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم سے ہماری نیب آفس کے لان میں پونے گھنٹے پر محیط نشست رہی، ڈی جی نیب کی کرسی کے گرد صحافیوں کی کرسیاں ایک گول دائرے میں لگی تھیں اس نشست میں احباب نے نرم گرم، تلخ وشیریں ہر طرح کے سوال کیے جن سب کا جواب ڈی جی نیب لاہور نے خندہ پیشانی سے دیا۔

نشست کے آغاز میں چائے لوازمات کے ساتھ پیش کی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ نیب جن لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے آفس بلاتا ہے ان سب کو یہی چائے لوازمات کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ مارچ 2017 میں ڈی جی نیب لاہور کی ذمہ داری سنبھالنے والے شہزاد سلیم اس سے پہلے ڈی جی نیب پشاور بھی رہ چکے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں ڈی جی نیب کے طور انہوں نے تین سالوں میں ساڑھے چودہ ارب روپے کی ریکوری کی اور 366 اہم لوگ گرفتار کیے۔ جبکہ ان سے پہلے چودہ برسوں میں صرف 1 ارب 35 کروڑ کی ریکوری اور 424 افراد گرفتار کیے۔

یعنی ان کی تین سالوں کی پرفارمنس چودہ سالوں پر بھاری رہی۔ شہزاد سلیم کی بطور ڈی جی نیب لاہور تعیناتی کے ان دو سالوں میں نیب لاہور نے 304 اہم کیسز پر انکوائریاں شروع کیں، نیب لاہور نے دو سالوں میں 6 ارب 62 کروڑکی ریکوری کرکے قومی خزانے میں جمع کروائے اس وقت 550 سے زائداہم کیسز پر تحقیقات جاری ہیں یہ مجموعی طور پر 50 ارب روپے کی کرپشن سے متعلق ہیں۔ ڈی جی نیب لاہور کی کارکردگی تو سب کے سامنے ہے مگر اہم ترین لوگوں کے کیسز کی وجہ سے دباؤ شاید ہمیں نظر نہیں آتا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اس بات سے کون واقف نہیں۔

اس سسٹم میں با اثر افراد پر ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہے مگر شہزاد سلیم یہ مشکل کام کر رہے ہیں۔ اس نشست کے بعد نیب کے حوالات کا دورہ کروایا گیا حوالات کے داخلی دروازے سے پہلے لان میں تین صفیں بچھیں ہوئیں تھیں۔ بتایا گیا حوالات میں موجود افراد کے لیے پانچ وقت کی باجماعت نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے لیے 3 عدد کرسیاں بھی رکھی گئی ہیں۔

دروازے سے اندر داخل ہوں ایک تنگ گلی ہے جس کے دونوں اطراف میں حوالات ہیں۔ مجموعی طور 14 کمرے (حوالات) ہیں۔ ہم جب اندر داخل ہوئے تو کچھ قیدی کمبل اوڑھے سورہے تھے، کچھ ہمیں دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ صحافیوں نے چند قیدیوں سے بات چیت کی تو انہوں نے نیب کی جانب سے حوالات کے اندر کیے گئے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ حوالات میں میٹرس اور کمبل فراہم کیے گئے ہیں کئی سیلز میں مجھے جائے نماز بھی نظر آئے۔ سردی کی شدت کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک ہیٹر ز کا بندوبست بھی کیا گیا تھا۔

واش رومز کا بطور خاص ہمیں دورہ کروایا گیا کہا گیا دیکھ لیں یہاں کوئی کیمرے نہیں لگے۔ باتھ روم کے دروازے پر ویلڈنگ کے نشان موجود تھے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ ان کے احتجاج کے بعد باتھ رومز کو چٹخنیاں لگائی گئیں۔ میں نے واپسی پر سابق صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق سے پوچھا آپ کوئی کتاب لکھنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ باقاعدہ نوٹس لے رہے ہیں، حوالات میں باہر سے آنے والی سرگوشیاں، ٹریفک کی آواز تک پر غور کرتے ہیں یہاں کے معمول اور سب واقعات پر وہ یاداشتیں ترتیب دے رہے ہیں۔ خواجہ سلمان رفیق میٹرس پر کمبل اوڑھے آرام کر رہے تھے صحافیوں کو دیکھ کر وہ کھڑے ہوئے اور مصافحہ کیا انہوں نے کہا نیب کے لوگوں کا رویہ ٹھیک ہے انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔

سابق وزیر اعلی شہباز شریف کا سیل بھی دکھایا گیا یہاں پر اب سابق سی ٹی او کو رکھا گیا ہے۔ حوالات میں کیمرے نصب ہیں، زمین پر میٹرس بچھائے گئے ہیں جبکہ مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھردانی کا بندوبست بھی موجود ہے۔ ہمیں واپسی پر میڈیکل افسر سے بھی ملوایا گیا جو حوالات میں موجود قیدیوں کا باقاعدگی سے چیک اپ کرتے ہیں۔ نیب کے قید خانے سے باہر نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا کاش اقتدار میں رہتے ہوئے حکمران جیلوں اور قید خانوں کو یہی سوچ کر ٹھیک کروادیتے کہ کل کو انہیں بھی ان قید خانوں میں رہنا پڑ سکتا ہے۔ کل کے حکمران آج ان حوالات کے مکین ہیں اور انہیں یہ حوالات بالکل اچھے نہیں لگتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).