لال بھکاری معیشت کے اصول


اکلان فلپائن کے اکیاسی صوبوں میں سے ایک ہے۔ لاہور جتنے رقبے پے پھیلے ہوئے اس صوبے میں پانچ لاکھ لوگ آباد ہیں جو کہ پورے ملک کی آبادی اور رقبے کا ایک فیصد بھی نہیں۔ روزانہ بتیس ہزار سیاحوں کو یہاں آنے کی اجازت ہے۔ موسم اچھا ہے، اردگرد سفید ریت والے نیلگوں ساحلوں کی بانہوں میں گھرے کئی جزیرے ہیں۔ لیکن خاص بات یہاں کے مقامی لوگوں کا رویہ ہے۔ بلا کے مہمان نواز ہیں۔ دھوکہ فراڈ اور لچر پن شاید ناپید ہے۔ امریکی لہجے میں روانی سے انگریزی بولتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ان کی اصل زبان مسکراہٹ ہے۔ ادھر ادھر کہیں بھی چلے جائیں ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ ہر چہرے پے پھیلی نظر آئے گی۔

دیگر کھانوں کے علاوہ مگرمچھ کے سٹیک، سانپ کے کباب، کچھوے کا سوپ، پورک اور حلال گوشت کی تمام ورائٹیز چوبیس گھنٹے دستیاب ہیں۔ دنیا بھر کی شرابوں کے ساتھ مختلف انواع کے فروٹ جوسسز ہر گلی، موڑ اور نکڑ پے کھلی دکانوں پے سجے ہیں۔ جس کا جو دل کرے کھا لے پی لے۔ تربوز کی تازگی سے گمان ہوتا تھا کہ جیسے موسم کا پھل ہے۔ اس سال محکمہ سیاحت کا اندازہ ہے کہ صرف اکلان کے بوراکئے نامی جزیرے پے بارہ لاکھ غیر ملکی سیاح آئیں گے کیونکہ پہلے کوارٹر میں چار لاکھ لوگ آ چکے ہیں۔

عزیز ہم وطنو بوراکئے ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جس کا سائز ڈی ایچ اے کے ایک سیکٹر سے بھی کم ہے اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد بارہ لاکھ سالانہ ہے۔ اس کے برعکس ورلڈ اکانامک فورم کی سیاحت کے بارے میں رپورٹ برائے 2017 کے مطابق تقریباً نو لاکھ مربع کلو میٹر پے پھیلے پاکستان میں ایک سال میں کل ملا کر نو لاکھ پینسٹھ ہزار سیاح آئے۔ بقول برٹش فارن ٹریول ایڈوائزری کے ان میں سے بھی دو لاکھ ستر ہزار برطانوی شہری ہیں جن میں اکثریت ممکنہ طور تارکین وطن کی ہو سکتی ہے۔

آج دوپہر میں ناچیز فلپائن کے محکمہ سیاحت کے منیلا ہیڈکواٹر میں بیٹھا تک رہا تھا کہ چودہ دسمبر 2018 تک فلپائن میں ستر لاکھ کے قریب غیر ملکی سیاح آ چکے ہیں جن میں چار ہزار کے قریب پاکستانی بھی ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی پاکستانی مل جائے تو ضرور پوچھیں۔ نہ ان کی پولیس ہم سے اچھی ہے، نہ سفارت خانے بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ کرپشن وہاں بھی ہے، جرنیل ان کے بھی گوڈوں اور گٹوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور نا ہی کوئی کے ٹو اور راکی پوشی وہاں سر نکالے کھڑیں ہیں، نا کشمیر جیسی وادیاں ہیں، نا نلتر جیسی جھیلیں ہیں، نا تھر جیسا صحرا ہے، نا سوات جیسا حسن ہے، نا کیلاش جیسے لوگ ہیں، نا دیوسائی جیسا میدان ہے، نا ٹھٹھ جیسا قبرستان ہے، نا ناران ہے، نا گلگست بلتستان ہے، نا صدیوں پرانی ہڑپہ اور موہنجو دڑو کی تہذیبیں ہیں۔

شاید پانی اور برساتی جنگلات کے علاوہ ان کے پاس بہت کچھ نہیں ہے دکھانے کے لئے۔ پھر بھی اتنے سیاح آئے ہیں۔ انہیں کوئی غرض نہیں یہ ملک کتنا کرپٹ ہے، اس ملک میں کتنی غربت ہے۔ فوج کیوں سیاست میں مداخلت کرتی ہے، منڈاناؤ میں دہشت گردی کی کیا صورت حال ہے۔ فلپائن کا ماضی کیا ہے، مستقبل کیا ہو گا۔ بس انہیں پتا ہے ملک کے چند سیاحتی مقامات پے سیکورٹی ننانوے فیصد ہے اور پورے ملک میں کھانے پینے کی آزادی سو فیصد ہے۔ وہاں اگر آپ کا ضمیر اجازت دیتا ہے تو سگریٹ پینے کا علاوہ تمام کاموں کی کھلم کھلا اجازت ہے۔ کھانے پینے کا سب سامان ہے۔ شرط یہ ہے کہ آپ کی جیب میں حسب ضرورت پیسے ہوں۔

چلیں یہ سب چھوڑیں۔ آپ کو کچھ اور بتاتے ہیں۔ پچھلے سال انڈونیشیا میں بلین ڈالر قیمت والی ملٹی نیشنل ریٹیل چین سٹور کمپنی سیون الیون نے اپنا سارا کاروبار اچانک ختم کر دیا۔ آٹھ سال کمپنی کا کاروبار خوب چلتا رہا، ہزاروں لوگوں کو روزگار ملا۔ پھر ایک دن عوام کے خون نے جوش مارا۔ چند علاقوں میں الکوحل کی فروخت پے پابندی لگوا دی۔ ایک سال میں کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔ یاد رہے سیون الیون گھریلو استعمال کی تمام چیزیں نسبتاً ارزاں نرخوں پے بیچتی ہے۔ اب اگرچہ پابندی کے نفاذ پے نہ ہونے کے برابر عمل درآمد ہے لیکن سیون الیون جا چکی ہے۔

وطن عزیز میں شراب کی خرید و فروخت پہلے ہی اتنی محدود ہے کہ ہر سال خام شراب پینے سے درجنوں لوگوں کی موت واقع ہوتی ہے۔ فائیو سٹار ہوٹلز میں بیرونی مہمانوں کی تصرف کے لئے جو بکتی ہے اس کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ اگر اس سال فیس بک کیمپین چلا کر شراب کی فروخت پے مکمل پابندی لگوا دیں تو ملک میں چند بچ جانے والے چند فائیو سٹار ہوٹلز بھی پتلی گلی سے نکلتے بنیں گے اور دو لاکھ ستر ہزار برطانوی تارکین وطن کے علاوہ شاید دو ایک لاکھ مزید غیر ملکی انتہائی مجبوری کے تحت نئے پاکستان میں آ پائیں اور معروف غیر ملکی کمپنیوں میں سے صرف ایساف، نیٹو اور سی آئی اے ہی رہ جائیں۔

یہ چند کمپنیوں اور الکوحل کی بات نہیں ہے۔ غیرملکی کمپنیاں ایک دوسرے کے پیچھے چلتی ہیں۔ ہمارے مذہب میں کافی تو حرام نہیں ہے، لیکن سٹار بکس اور ٹم ہورٹن پاکستان نہیں آنا چاہتی۔ پے پال اور ایمازن ایف بی اے کی سروسز سے بھی ہم محروم ہیں کیونکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری قوموں کا رویہ بھی دیکھتی ہے۔ آج ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہے کیونکہ نا برآمدات خسارہ پورہ کرنے کے قابل ہیں اور نہ بیرونی سرمایہ کاری حوصلہ افزا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم نہیں چاہتے کہ غیر ملکی کمپنیاں اور سیاح یہاں آئیں، سرمایہ کاری کریں، روزگار ملے، ہماری بھیک سے جان چھوٹ جائے۔

یہ سب بھی چھوڑ دیں۔ ہماری اکثریت میں اس کرہ ارض سے شراب ختم کرنے کا جذبہ اتم قابل تحسین ہے۔ لیکن لاکھوں لیٹر یوریا ملے دوودھ کے بارے میں کیا خیال ہے جسے روزانہ قوم کے شیر خوار، بیماراور بوڑھے پیتے ہیں۔ اور اس جراثیم اور کیمکلز سے آلودہ پانی کی بھی خیر ہے جسے کروڑوں لوگ پیتے ہیں کیونکہ ملاوٹ شدہ زہریلا دودھ اور آلائشوں سے بھر پور پانی بہر حال حلال تو ہیں۔ شراب کی خرید و فروخت سے آنے والے ٹیکس حرام ہیں جبکہ آئی ایم ایف سے مانگی گئی بھیک اور اس پے ادا کیا گیا سود تو حلال ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).