سانحہ پشاور، ہم نہیں بھول سکتے


سولہ دسمبر 2014 ء کا سورج طلوع ہوا تو اپنے ساتھ ان گنت غم لے کر آیا۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ یہ دن ملک کی تاریخ میں ایک اور دلخراش سانحے کے طور پر لکھا جائے گا۔ یہ سورج طلوع ہوا تو اپنے ساتھ رنج اور دکھ لے کر آیا۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشتگردوں نے پشاور کے حساس دلوں، پھول جیسے بچوں کو خون میں رنگ دیا تھا۔ ہر صاحبِ دل اس واقعے کو سوچ کر اشکبار ہوتا ہے۔ دہشتگردوں نے سکول میں گھس کر معصوم بچوں کو ایک ایک کر کے گولی ماری۔ یہ سفاکی کی انتہا تھی۔ ہر ایک ذہن اس سوچ میں مبتلا تھا کہ انسان اس حد تک بھی درندہ ہو سکتا ہے؟

کسی بھی باغ کی رونق وہاں کے مہکتے پھولوں کے دم سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ باغ کی رونق کو برقرار رکھنے کے لئے ہی مالی ان مہکتے پھولوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی پتھر دل انسان ان پھولوں کو توڑ کر مسل دے تو باغ کی رونق کے ساتھ ساتھ پھولوں کی مہک بھی دم توڑ جاتی ہے اور گلستان تباہ حال قبرستان کا سا منظر پیش کرتا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے شہید بچے بھی اس گلستان کے وہ غنچے تھے کہ جو ابھی کھلے بھی نہیں تھے۔ ابھی تو ان غنچوں کی مہک محسوس کرنے کے لئے ان کی نشوونما ہو رہی تھی۔ لیکن کچھ سفاک درندوں نے ان کو مسل کر گلستان کی مہک کو تہہ خاک ملا دیا۔ یہ وہی دن تھا کہ جب پھولوں کے جنازے اٹھے تھے۔

آج چار سال گزر جانے کے بعد بھی قوم سوگ میں ڈوبی، آنسوؤں سے روتی ہوئی نظر آتی ہے۔ قوم یہ سوال کرتی ہے کہ آخر ان معصوم بچوں سے کیا غلطی سرزد ہوئی تھی جو ان کے نازک جسموں میں بے دردی اور بے رحمی سے بارود اتار دیا گیا۔ ان ننھے فرشتوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا کہ اڑنے سے پہلے ہی ان کے پر کاٹ دیے گئے؟ یہ ایسا دکھ کہ شاید اس کا مداوا ناممکن ہے۔ میں تو کیا کوئی بھی احساس رکھنے والا انسان اس سانحے کو نہیں بھول سکتا۔ ہم نے اپنے پشاور کو روتے اور بلکتے دیکھا ہے۔ وہ لمحات یاد آتے ہیں تو لفظ آنسوؤں میں ڈھل جاتے ہیں۔

وہ تمام مناظر دیکھ کر دل آج بھی خون کے آنسو روتا ہے اور خاموش ہونا بھول جاتا ہے۔ ہم نے اپنی عظیم دولت اپنے بچوں کو کھویا ہے۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو خون میں لت پت دیکھا ہے۔ جو مائیں اپنے بچوں کی وردیوں پر سیاہی کا داغ نہیں لگنے دیتیں۔ انہوں نے اپنے جگر گوشوں کی وردیوں کو خون آلود دیکھا ہے۔ مائیں آج بھی اپنے ان بچوں کے لئے ٹفن میں گرم کھانا رکھتی ہیں۔ ان کے چمکتے ہوئے جوتے تیار رکھتی ہیں اور چھٹی کے وقت دروازے پر کھڑے ہوکر ان کی راہ تکتی ہیں جو اب کبھی بھی گھر نہیں لوٹیں گے۔

یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ آخر ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا؟ ہمارا اسلام تو کافروں کے بچوں کو بھی مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اس دن پوری دنیا نے ننھے جسموں کے جنازے دیکھے جن کو بے رحمی سے شہید کیا گیا۔ یہ ہماری بے بسی کہ ہم آج بھی اس سانحے کے غم سے نہیں نکل پائے۔ لیکن دوسری طرف ان شہید بچوں نے اپنے خون سے علم کی شمع کو روشن کر کے تمام علم دشمن قوتوں کو ناکام بنا دیا۔ یاد رکھیے کہ قومیں ہمیشہ عظیم قربانیاں دے کر ہی زندہ رہتی ہیں۔

شہدائے آرمی پبلک سکول کی عظیم اور لازوال قربانی نے پوری قوم کو یکجا اور متحد کیا۔ شہداء نے یہ پیغام دیا کہ ہم بندوق کی بجائے قلم کو اپنا ہتھیار بنا کر ملک دشمن عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت نے اس قوم کو جینا سکھایا۔ انہوں نے اپنے لہو سے بہادری کا جو دیپ جلایا ہے، قوم نے اس نور کی مدد سے دہشتگردی جیسے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ ان شہید بچوں نے قوم میں ایک نئی اور تازہ روح پھونکی۔

اس سانحے نے یہ واضح پیغام دیا کہ متحد رہ کر انصاف کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اور انصاف کے بغیر کوئی بھی ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ حضرت علی کا قول ہے : ”معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے، بے انصافی کے ساتھ نہیں۔ “ اب ضرورت اس امر کی ہے سانحہ آرمی پبلک سکول جیسے اور واقعات رونما ہونے سے بچنے کے لئے آپس میں یکجہتی پیدا کرنا ہوگی تاکہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہوسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).