کمیشن سازی ماحولیات کے لیے نقصان دہ ہے!


سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کا سقوطِ ڈھاکہ ہو کہ 16 دسمبر دو ہزار چودہ کا آرمی پبلک سکول قتلِ عام، دونوں پر تحقیقاتی کمیشن بنے۔ ایک کی رپورٹ 47 برس ہو چکے مگر باضابطہ طور پر ریاست پاکستان کی طرف سے منظرِ عام پر نہیں آئی۔ دوسرے سانحے کی رپورٹ سنا ہے مرتب ہو رہی ہے۔

حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے بارے میں بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ قوم کو اس سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو سکے اور آئندہ ایسا سانحہ رونما نہ ہو۔

آرمی پبلک سکول قتلِ عام کے بارے میں بھی وفاق اور صوبے کی سطح پر تحقیقات کی نوید سنائی گئی۔ تحقیقات اگر ہوئیں بھی تو مرنے والے بچوں اور اساتذہ کے لواحقین ان کے نتائج سے اب تک بے خبر ہیں۔

ان بچوں کے والدین پر پچھلے چار برس سے دوہرا بوجھ ہے۔ اپنے بچوں کا سوگ اور سانحے کے ذمہ داروں کے تعین اور غفلت کے اسباب کی کھوج لگانے کے لیے دھرنے، ریلیاں اور یہاں وہاں عرض داشتیں پیش کرنا۔ بہرحال ریاست نے بادلِ نخواستہ جو تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا ہے جب تک واقعی اس کی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی تب تک کسی کی کسی بھی یقین دہانی پر یقین ممکن نہیں۔

یہ محاورہ کہ دودھ کا جلا چاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، اہلِ پاکستان پر صادق نہیں آتا۔ یہ لوگ دودھ کے نہیں چاچھ کے جلے ہیں۔ یہاں کمیشن لینے کا چلن تو ہے لیکن کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کا زیادہ رواج نہیں۔ بھلے وہ ایبٹ آباد کمیشن ہو کہ جبری گمشدگیوں کے اسباب و ذمہ داروں کا تعین کرنے کا کمیشن۔

ان حالات میں یہ توقع نری عیاشی ہے کہ کسی کمیشن کی رپورٹ اگر شائع ہو بھی جائے تو اس کی سفارشات پر من و عن نہ سہی جزوی عمل درآمد ہی ہو سکے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کمیشن نے سانحہ کوئٹہ میں پچاس سے زیادہ وکلا کی خود کش حملے میں ہلاکت کے بعد غفلتوں اور ذمہ داروں کا کھل کر تذکرہ کیا۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے پوری توانائی خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے میں لگا دی۔

ایئرمارشل ذوالفقار علی خان کمیشن نے انٹیلیجنس ایجنسیوں کے دائرہ کار اور مینڈیٹ کے تعین کے لیے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی فرمائش پر مفصل رپورٹ مرتب کی۔ اب تک تو اسے دیمک چار بار چٹ کر گئی ہوگی۔

سانحہ اوجڑی کیمپ کے بارے میں اندازے ہیں کہ لگ بھگ سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو نے اس سانحے کے لیے فوری تحقیقاتی کمیٹی قائم کی اور اس کمیٹی نے کچھ ہی عرصے میں رپورٹ مرتب کر کے حکومت کے حوالے کر دی۔ اس سے پہلے کہ رپورٹ شائع ہوتی جونیجو حکومت ہی اڑا دی گئی۔ اوجڑی کیمپ رپورٹ کہاں ہے؟ کوئی بتانے کے لیے تیار نہیں۔

ضیا الحق کے طیارے کے حادثے کے بارے میں رپورٹ کہاں ہے؟ کسی سے بھی پوچھ لیں۔ جواب میں اچکتے کندھے ہی ملیں گے۔

بات یہ ہے کہ چھ چھ ہزار صفحات کی رپورٹیں تیار کرنے سے کیا حاصل جب ان کی سمری تک سورج کی روشنی نہیں دیکھ پاتی۔ کاغذ درخت کے گودے سے بنتا ہے۔ اگر ایسی لاحاصل رپورٹیں نہ بنیں تو کاغذ کی بچت ہو گی۔ کاغذ کی بچت ہو گی تو درخت کم کٹیں گے، درخت کم کٹیں گے تو درجہِ حرارت میں کمی ہوگی۔لہذا ماحولیات پر رحم کھاتے ہوئے آئندہ ایسا کوئی کمیشن نہ بنایا جائے کہ جس کی رپورٹ شائع کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ ویسے بھی پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آئے دس چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).