علی اعجاز: چلو چلو منہ کلیئر کرو


مزاح کیا ہے! دیکھنے اور سننے والے کو ایک مسرور کن اور پرلطف کیفیت کا احساس دلانا۔ اسے بیزاری، کوفت اور اداسی جیسی ناخوشگوار حالتوں سے باہر لانا۔ ذہنی الجھاؤ اور اعصابی تناؤ سے وقتی طور پر ہی سہی، نجات دلا کر ایک آسودگی کا احساس دلانا مزاح ہے۔ (بقول شخصے اس صورتحال سے نجات حاصل کرنے کے لیے واحد راستہ دوسری شادی ضروری ہے ) لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ ذہنی آسودگی کے لیے ہلکا پھلکا مزاح ہر انسان کی بنیادی نہ سہی خلقی ضرورت تو ہے ہی۔

اسی لیے ڈرامہ، فلم، کہانی، اشتہارات یہاں تک کہ نصاب میں بھی مزاح کی گنجائش آرام سے نکل آتی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ ان میں سے کوئی چیز بھی مزاح کے بغیر مکمل نہیں۔ کوئی انسان کتنا بھی سنجیدہ کیوں نہ ہو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے خصوصاً دوستوں کے ساتھ مزاح اس کی زندگی میں ضرور شامل ہوتا ہے۔ عام طور پر مزاح ہر انسان کو ہمیشہ اس کی مادری زبان میں زیادہ پسند آتا ہے۔ کوئی کتنا بھی ماڈرن ہو جائے اور کیسا بھی مصنوعی طرزِ زندگی اپنا لے لیکن جب وہ اس مُلمّع کاری سے تنگ آ جاتا ہے اور تھک جاتا ہے تو سستانے کے لیے اپنی رہتل، اپنی مٹی اور اس سے جڑی ہوئی چیزوں کی طرف ضرور لوٹتا ہے۔

اور پلٹ کر آنے والا ایسا تھکا ماندہ مسافر عموماً آسودگی و طمانیت حاصل کرنے کے لیے مزاح کا سہارا بھی ضرور لیتا ہے۔ اپنی ماں بولی، اپنی مٹی میں گندھے ہوئے مزاح کا اپنا الگ ہی چسکا ہے جو کبھی دھیان سے محو نہیں ہوتا۔

علی اعجاز جو کل اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ایسے فنکار تھے جنہوں نے پاکستان فلم اور ڈرامہ انڈسٹری میں عروج کا دور بھی دیکھا اور پھر رنگوں روشنیوں کی اس دنیا سے مکمل طور پر کنارہ کشی تو اختیار نہیں کی البتہ رفتہ رفتہ کسی حد تک الگ ہوتے چلے گئے اور کبھی کبھار ہی ان کا کوئی نیا کام سامنے آتا۔

لیکن اس کے باوجود یہ اپنی عمدہ اداکاری اور منفرد قسم کے انداز کی وجہ سے بے شمار ذہنوں اور دلوں میں ایک مسرور کن احساس کی طرح جاگزیں رہے اور مدتوں رہیں گے۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ علی اعجاز اوور ایکٹنگ کرتے تھے تو ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مزاح دراصل اسی کا نام ہے۔ نارمل حالت سے ایب نارمل حالت میں آئے بغیر نہ تو مزاح پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔

مزاح سے بھرپور طور پر لطف انداز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عمومی رکھ رکھاؤ اور تکلف کو وقتی طور پر ایک طرف رکھ دیا جائے۔ علی اعجاز نے سو سے زاید فلموں اور بے شمار ڈراموں میں کام کیا جس میں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں اور کئی طرح کے کرداروں کے ساتھ بھرپور انصاف کیا۔ علی اعجاز ایک خود دار انسان تھے۔ انہوں نے انٹرویوز میں پاکستان فلم انڈسٹری کے زوال پر تو بات کی اور اس تنزلی کی وجہ بننے والے رویوں اور رجحانات پر بھی روشنی ڈالی، ساتھ ہی ساتھ انڈسٹری کی اس ابتری سے متاثر ہونے اور تکلیف اٹھانے والے فنکاروں سے لے کر دیگر اہل کاروں کی پریشان حالی کا تذکرہ بھی کیا اور انڈسٹری کی دگرگوں حالت کو مزید واضح کرنے کے لیے یہ بھی بتایا کہ فلموں کے عوضانے کے طور پر ملنے والے چیک جو باؤنس یا ڈس آنر ہو جایا کرتے تھے انہیں یہ جلا کر تلف کیا کرتے۔

لیکن انہوں نے اپنی ناقدری کا رونا نہیں رویا بلکہ یہ اسی بات پر مسرور اور مطمئن رہے کہ انڈسٹری اور عوام ہر دو جگہ لوگ ان سے خوش دلی سے ملتے ہیں اور ان کو بھولے نہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ علی اعجاز نہ صرف ایک عمدہ فنکار تھے بلکہ بہترین انسان بھی تھے۔ ایک وقت تھا جب پی ٹی وی عام لوگوں کی واحد تفریح ہوا کرتا تھا اور گھر گھر میں چلتا تھا۔ اور اب کئی کئی ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے کے باوجود اپنی پہچان نہ بنا پانے والے یہ کہہ کر اپنے دل کو بہلانے اور لوگوں کو پھسلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت ایک چینل تھا اور سب لوگ دن کا ایک خاص حصہ اسی کو دیکھتے ہوئے گزارتے تھے اس لیے اس وقت سکرین پر نظر آنے والے چہرے جلد مشہور ہو جایا کرتے تھے لیکن سچ تو یہ ہے کہ بلاشبہ یہ درست ہے کہ ( کئی کسوٹیوں پر کھرا اترنے اور کئی مراحل سے گزرنے کے بعد ٹی وی سکرین پر آجانے کی صورت میں ) وقتی طور پر پہچان حاصل کرنا تب آسان تھا لیکن دیر تک اور دور تک تب بھی وہی چلتا تھا جس میں قابلیت ہوتی تھی۔

علی اعجاز کا کئی دہائیوں پر محیط سفر اس کی زندہ مثال ہے۔ اس باکمال فنکار کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ سینکڑوں چینلز کے اس جدید دور میں بھی اپنے دیکھنے والوں کے ذہنوں پر اس فنکار کی چھاپ اتنی گہری ہے کی چینل گردی کرتے ہوئے کہیں یہ چہرہ اداکاری کرتا دکھائی دے جائے تو دیکھنے والا ٹھہرتا ضرور ہے۔ ان کے بے شمار عمدہ کرداروں میں ”خواجہ اینڈ سن“ خصوصی طور پر ایک ناقابل فراموش کردار ہے۔ دو ڈھائی دہائیوں سے زاید عمر کا شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جس کے ذہن سے ”خواجہ اینڈ سن“ کے خواجہ صاحب محو ہو گئے ہوں۔

ان کے دیگر ڈراموں کے ساتھ ساتھ ”خواجہ اینڈ سن“ ایک ایسا ڈرامہ ہے جو بے شمار بار ٹیلی کاسٹ ہوا اور اب تک ہو رہا ہے لیکن ہنوز ذوق و شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی ڈرامہ سے مشہور ہونے والا یہ جملہ جو خواجہ صاحب اپنی چھڑی اپنے بیٹے جواد کی گردن میں حمائل کیے اس کے منہ پر ”چپیڑ“ مارنے کی چاہ میں بولتے تھے کہ ”چلو چلو منہ کلیئر کرو“ یہ جملہ آج بھی زبان زدِ عام ہے۔ بلکہ لوک داستانوں کی طرح اس جملے کو دہرانے والوں میں سے زیادہ تر کو یہ تک معلوم نہیں کہ اس جملے کا مآخذ و سرچشمہ کیا ہے۔

لیکن اس جملے میں چاشنی ایسی ہے کہ روزمرہ زندگی میں کئی موقعوں پر کبھی کسی حاضر اور کبھی کسی غائب کو یہ کہنے کا شدت سے جی چاہتا ہے کہ ”چلو چلو منہ کلیئر کرو“۔ اور اگر آپ سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک برتنے والے ہیں تو پھر غائب اور حاضر کے علاوہ بھی ایک قسم سامنے آتی ہے جو نہ مکمل طور پر غائب ہوتی ہے نہ پوری طرح حاضر۔ اس قسم میں سے بہتوں کا منہ کلیئر کروانے کو شدت سے جی چاہتا ہے۔ لیکن کیا کِیا جائے کہ وہاں جن مونہوں کو کلیئر کروانے کا شدت سے جی چاہتا ہے وہ منہ بھی مصنوعی اور ان پر پڑنے والی چپیڑیں بھی مصنوعی۔ علی اعجاز رخصت ہوئے لیکن ان کا کام مدتوں اداس چہروں پر مسکراہٹ بکھیرتا رہے گا۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).