قصور کے سرکاری ہسپتال میں ایک اور بچی ایک اور درندہ


قصور کے عوام ابھی تک آٹھ سالہ ننھی اور معصوم پری زینب کے ساتھ ہونے والی درندگی کی داستان ذہنوں سے نکالنے کی ناکام سعی کر رہے ہیں کہ مورخہ 19۔ 12۔ 2018 کو ڈسٹرکٹ ہسپتال قصور کی سرجیکل وارڈ (زنانہ) کے واش روم میں ایک اور دلخراش داستان رقم ہونے کو ہی تھی، چشمِ فلک ایک اور معصوم جان کو درندگی اور ہوس کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھنے ہی والی تھی کہ اچانک عالمِ برزخ سے نیلگوں آنکھوں والی زینب نے دیکھ لیا اور وہ چیختی ہوئی بھاگی اور عرشِ اعظم کا پایہ پکڑ کر اِس زور سے ہلایا کہ غیرتِ خداوندی کو فی الفور خود آپریشن کرنا پڑا۔ خداوندِ قہار جب خود آپریشن کی گائیڈ لائنز دے رہا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ مجرم اُس سے راہِ فرار اختیار کر کے خود کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کر لے۔

ہوا کچھ یوں کہ تین دن پہلے ایک گیارہ سالہ زینب نامی حوا کی بیٹی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں لائی گئی جسے فوری طبی معائنے کے بعد سرجیکل وارڈ میں داخل کر دیا گیا جہاں اُسکا علاج معالجہ معمول کے مطابق جاری تھا۔ کل 19 دسمبر 2018 کو شام سے کچھ دیر قبل جب سورج اپنے سانسیں کھونے کے بالکل قریب تھا اور شبِ ظلمت اپنی سیاہ چادر پھیلانے کو تھی، ایک سفاک درندہ ہسپتال کی حدود میں داخل ہوا اور سرجیکل وارڈ (زنانہ) میں جا پہنچا اور اپنی ہوس کی بھوک مٹانے کے لئے شکار کی تلاش کرنے لگا۔

اتنے میں اُسے ایک 11 سالہ بچی واش روم کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آئی اور وہ بھی اپنے قبیح منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اُس کے پیچھے واش روم کی طرف لپکا۔ جب اُسے اطمینان ہو گیا کہ اُسکے اور بچی کے علاوہ واش روم میں کوئی نہیں ہے تو بچی کو پکڑ کر زور زبردستی شروع کر دی۔ شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جب سے آٹھ سالہ زینب کی دردناک اور سفاکانہ انداز میں عصمت دری کی گئی ہے، تب سے غیرتِ خداوندی اور عالمِ برزخ سے ننھی زینب بنتِ حوا کی ہر بیٹی پر خود نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جونہی اُس درندے نے نرم و نازک کلی کو مسلنے کی کوشش کی تو آٹھ سالہ زینب کی روح وہاں آن نمودار ہوئی اور 11 سالہ زینب کا حوصلہ بڑھایا تو زینب نے شور کر دیا۔ قدرت کے گھات سے بے خبر شکاری بوکھلا گیا اور بھاگنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے خود دبوچا گیا۔

ہسپتال کی انتظامیہ نے اچھی خاصی دُرگت بنانے کے بعد حوالہِ پولیس کر دیا۔ جس پر والد کی مدعیت میں 728 / 18 ایف۔ آئی۔ آر درج کروائی گئی ہے۔ رات سے وہ ننھی اور معصوم کلی اس قدر سہمی ہوئی ہے کہ ہلکی سی آہٹ سے بھی کانپ جاتی ہے۔ مختلف چینلز کے صحافیوں اور دوسرے لوگوں کے سوالوں کے جواب میں بس یہ ہی کہہ رہی ہے کہ:
چلو اب مان جاؤ تم
درندے ہم سے بہتر ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).