کٹھ پتلی کے بہت روپ ہوتے ہیں


دہلی میں بارش شروع ہوئی تو تھمنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ گرج چمک بھی زوروں پر تھی۔ دفعتاً کٹھ پتلیوں کے فنکار شرجیل کے مکان کے پچھلے حصّے کی دیوار گر گئی اور اس کی نازک نازک کٹھ پتلیاں اس دیوار کے نیچے دب گئیں۔ وہ دیوانوں کی طرح کٹھ پتلیوں کو ان کے ناموں سے پکار رہا تھا ! پھر اسے شنکر کے دو فلیٹ کی پیشکش کا خیال آیا۔ “میں صبح ہوتے ہی اس کے دفتر جاؤں گا اور اس کی آفر پر دستخط کر دوں گا۔” اتنے میں باہر سے قیامت کا شور اٹھا۔ شرجیل باہر نکلا تو دیکھا کہ کئی مکانات آگ سے جل رہے تھے۔ ” کیا میں اب بھی کٹھ پتلی بن سکتا ہوں؟ ” شرجیل بڑبڑا رہا تھا اور ایک کٹھ پتلی کی طرح اچھل رہا تھا۔

یہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔ شرجیل پانچ کٹھ پتلیوں کے ایک نئے کھیل کی ترتیب میں مصروف تھا۔ دوسروں کے لئے اس کی کٹھ پتلی اں صرف ناچنے اور ہلنے والی بے جان مورتیاں تھیں۔ لیکن شرجیل کے لئے وہ بے جان نہیں تھیں۔ وہ بڑے پیار سے کسی کہانی کے کردار کی مانند ان کی تخلیق کرتا۔ انہیں کافی احتیاط کے ساتھ ایک الگ کمرے میں رکھتا۔ کھیل کی مشق یا نئے کھیل کی ترتیب کے دوران ان سے باتیں کرتا۔ اس دن کٹھ پتلی کالونی میں بہت رونق تھی۔ چند بچّے یک وقت سر کے بل کھڑے ہونے کی مشق کررہے تھے۔ رحمان شاہ موسیقی کی دھنیں بکھیر رہا تھا۔ وہ مصروف سڑکوں پر موسیقی کا شو کر کے پیسے کماتا تھا۔ مایا نے بانسوں کی مدد سے دو اونچی منڈیریں بنائی تھیں اور وہ ایک منڈیر کے اوپر آلتی پالتی مار کر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ آنکھیں بند کر کے منڈیروں کے درمیان تنے ہوۓ رسّے پر چلنے کے لۓ ریاض کر رہی تھی۔ رام چند جادوگر اس انتظار میں تھا کہ شرجیل اپنی پتلیؤں کے کھیل کو روکے تو وہ اس سے بات کرے۔

‘شرجیل، تم نے سنا ہم کو سرکار نئے فلیٹ مفت بنا کر دے گی ‘۔ یہ کہتے ہوئے رام چند نے اپنی خوشی کو چھپانے کی کوشش کی۔

شرجیل مسکرا دیا۔ ایسی مسکراہٹ جس میں بہت کچھ چھپا ہوتا ہے۔ ‘اگر یہ سچ ہے تو اس کے پیچھے ہمارے خلاف ضرور کوئی سازش ہے۔ پھر کوئی مافیا آگیا ہے ہم سے زمین ہتھیانے کے لئے۔ اور تم اس پر خوش ہو رہے ہو۔ میں یہاں تیس برس سے رہ رہا ہوں۔ سرکار نے اس کالونی کو بہتر بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی البتہ چنائو کے دنوں میں کچھ رونق لگی رہتی ہے اور کچھ وعدے کئے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اگلے چنائو تک یہاں کوئی نہیں آ تا۔’

شرجیل نے کچھ ایسی ہی باتیں اور لوگوں سے بھی سنی تھیں۔ ‘یہ لوگ سمجھتے کیوں نہیں ہیں کہ اگر ان کو نئے فلیٹ مل بھی گئے تو ان کا روزگار جاتا رہے گا۔’

اس نے رامچند اور گلزار سے بات کر کے یہ فیصلہ کیا کہ کالونی کے سارے لوگ اکٹھے ہوں۔ وہ اس بارے میں کالونی کے لوگوں کو کچھ سمجھانا چاہتا تھا۔ ان تینوں نے مل کر کالونی کے 2800 گھروں تک یہ پیغام پہنچایا کہ اگلی اتوار کے دن کٹھ پتلی میدان میں شرجیل سب رہنے والوں سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔

شرجیل کی کالونی میں بہت عزت تھی۔ پانچ مرتبہ وہ قومی ثقافتی وفد کے ساتھ ملک سے باہر بھی گیا اور ثقافتی میلوں میں اس نے کٹھ پتلیوں کے تماشے پیش کئے جسے غیر ملکیوں نے بہت سراہا۔ اسے ایک قومی تمغے سے بھی نوازا گیا۔ صرف شرجیل ہی نہیں، اس کالونی میں کئی اور نامور فنکار رہتے تھے لیکن کوئی مستقل آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے یہ مفلوک الحال تھے۔

اتوار کا دن آ یا۔ چھ بجے تک کافی لوگ میدان میں جمع ہو گئے تھے۔ شرجیل نے ایک لاؤڈاسپیکر کرایہ پر لے لیا تھا۔ وہ ایک اونچی جگہ پر چڑھ گیا اور تقریر شروع کر دی ‘بھائیو، بہنو، آپ کو معلوم ہے کہ آج کل پورے دیش میں لینڈ مافیا کام کر رہے ہیں اور سرکار کی مدد سے لوگوں کی زمینیں چھین رہے ہیں۔ میں نے اپنے تعلقات کے ذریعے سے پتا کیا ہے کہ یہاں شنکر کمپنی ہمارے مکانوں کو گرا کر ایک بہت بڑا پروجیکٹ کرنا چاہتی ہے۔ کئی اونچی عمارتیں ہوں گی۔ ایک شاپنگ سینٹر بنے گا۔ ہم سب کو ان مکانوں کے بدلے میں فلیٹ دیئے جائیں گے۔ ‘

پھر اس نے آواز اور بلند کی ‘لیکن ذرا سوچنے والی بات ہے کیونکہ یہ فلیٹ ہمارا فن ختم کر دیں گے اور ہم سب بے روزگار ہو جائیں گے۔ میں اپنی پتلیوں کی پریکٹس کیسے کروں گا۔ میری بعض پتلیاں ایک میٹر سے بھی زیادہ لمبی ہیں۔ اور یہ ہمارا کمار جو منہ سے آگ نکالتا ہے، یہ روپا جو کرتب سیکھتی ہے، ہم فلیٹوں میں یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔ یہی حال ہمارے جادوگروں کا ہوگا۔ ہمارے فن اور ہماری زندگی کے درمیان کوئی لکیر نہیں ہے،کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بستی ہی ہمارا ماضی، حال اور مستقبل ہے۔ ہم سب لوگ مل کر وعدہ کریں کہ ہم کسی کاغذ پر دستخط نہیں کریں گے۔ ‘

شرجیل کی تقریر نے لوگوں کے حوصلوں کو گرما دیا اور خوب نعرے بازی ہوئی۔ روپا جو پینترےباز تھی اور کلّو گویّا نے بھی تقریریں کیں اور لوگوں سے وچن لیا کہ وہ کسی کاغذ پر دستخط نہیں کریں گے اور اس کالونی کے کسی بھی مکان کو نہیں گرانے دیں گے۔

اگلے روز شرجیل کے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ ایک کٹھ پتلی کو رفو کر رہا تھا اس کو چھوڑ کر باہر آ یا تو ایک درمیانے خدوخول کے آدمی کو باہر منتظر پایا۔ اس نے اپنا نام مقبول بتایا اور بولا کہ ضروری بات کرنی ہے لیکن یہاں نہیں۔ وہ کالونی کی تنگ اور گندی گلیوں سے باہر نکلے تو ایک کار کی طرف بڑھے۔ مقبول بولا کہ شنکر جی آپ لوگوں کے مسائل کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ شرجیل نے سوچا کہ اس بات چیت میں کیا حرج ہے۔ تھوڑی دیر بعد کار ایک دفتر کے باہر پہنچی جو کہ صاف ستھرا تھا لیکن شان و شوکت سے عاری تھا۔ شنکر بھاری بھرکم انسان تھا اور شکل سے ہی سیٹھ لگ رہا تھا۔

شنکر نے بڑی عزت کے ساتھ شرجیل کو بٹھایا اور ایک دو رسمی جملوں کے بعد بولا۔ ‘دیکھو، تمہیں پتا ہے کہ ہم کو سرکار نے اس کالونی کے سارے مکانوں کو گرانے کی اجازت دی ہے۔ میں تمہیں دو فلیٹ دوں گا۔ تمہارا مستقبل ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے گا۔ تم کب تک پتلیاں نچاتے رہو گے؟ کبھی بوڑھے بھی تو ہونا ہے۔ پھر کہاں سے کھاؤ پیؤ گے؟ تم ایک میں رہو اور دوسرا کرایہ پر اٹھا دو۔ آرام کی زندگی بسر کرنا۔ تمہارے بال بچے تو ہیں ہی نہیں۔ بڑھاپے میں کچھ آمدنی کا ذریعہ بن جائے گا۔ لیکن تم دو فلیٹ کی پیشکش کا ذکر کسی سے نہیں کرنا کیونکہ باقی سب باسیوں کو ایک ہی فلیٹ ملے گا۔ ‘

شرجیل کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا جواب دے۔ اس نے شنکر سے معزرت کی کہ اس کے سر میں شدید درد ہے اور وہ بعد میں اس پیشکش کے بارے میں سوچے گا اور جواب دے گا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2