نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اکٹھے جیل نہیں بھیجا جائے گا


نئے پاکستان میں صرف احتساب کے دف بج رہے ہیں۔ فلاحی اسلامی ریاست کا سہانا خواب جس میں بھوک افلاس کا خاتمہ، روزگار اور چھت مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی وہ اب ایسا لگ رہا ہے کہ کسی نے شاید جلدی میں یہ سب کچھ وزیر اعظم عمران خان کی تقریر میں لکھ دیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف صرف ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے کہ ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ کر کے تمام روایتی سیاستدانوں سے جیلوں کو بھرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا ایجنڈا صرف اور صرف کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے سستا اور آسان انصاف اگلی قسط میں شاید کوئی اور ہی مہیا کرے گا۔

عام آدمی تو پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہا ہے اور مزید مہنگائی سے اگر دو ٹائم کا کھانا نہ کھا سکا تو کون سی قیامت آ جائی گی۔ ویسے بھی رات گزارنے کھانا کھانے کے لیے تحریک انصاف نے پشاور میں مفت بندوست کیا ہے پاکستانی عوام وہاں سے مستفید ہو سکتی ہے۔ جب ملک کی عدالتوں میں لاکھوں کیسزز سرد خانوں میں پڑے ہوں اور ہماری اولین ترجیحات ڈیم بناؤ اور آبادی پر کنڑول پر ہو اور دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان ملکی ترقی کے لیے دیسی انڈے اور مرغی والی شیخ چلی کی ترکیبیں دیتے نظر آتے ہوں تو ایسے میں ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

احستاب کے جج صاحب نے میاں نواز شریف کے فیصلے لکھنے سے پہلے ہی سکیورٹی سخت کروا دی ہے اور فیصلہ لکھنے سے پہلے ہی ہر خاص و عام کو پتہ ہے کہ فیصلہ میاں صاحب کے خلاف آئے گا اور شریف برادران کی خاموشی کی بڑی وجہ بھی تصادم سے گریز سمجھا جا رہا ہے۔ آصف علی زرداری بھی برہمن کی باتیں مانتے ماں تے آخر کار مرد حر بن کر چیخ پڑے ان کو اکثر و بیشتر ان تین سالوں والوں سے بڑے شکوے اور شکائتیں رہیں مگر اس دفعہ لگ رہا ہے کہ وہ ان تین سالوں والوں کے عذاب سے بچ نہیں پائیں گے۔

ویسے بھی انگریز سامراج ک (divide and rule) والی پالیسی ابھی تک قائم و دائم ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو کئی بار ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا گیا اور ابھی تک وہ اس پالیسی کے تحت تقسیم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے مشکل ہے کہ انصاف اور احتساب کو خوش کرنے کے لیے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اکٹھے جیل بھیجا جائے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی کو بھی بند گلی میں مارا جائے گا تو وہ پلٹ کر وار ضرور کرے گا اس لیے یہ قوی امکان ہے کو دونوں فریقوں کو بھاگنے کا راستہ دے کر دبوچا جائے گا۔

اس ملک میں جمہوریت کا شب خون ہوا جمہوری لیڈروں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور مارا گیا۔ جنرل ایوب خان کی ) ای بی ڈی او ( جنرل ضیاء کی غیر جماعتی انتخابات اور جنرل مشرف کی ق لیگ اور کرپشن لیگ کے باوجود بھی لولی لنگڑی جمہوریت چل رہی ہے۔ آج مسلم لیگ ن اور پییپلز پارٹی کے سیاستدان ہی سب کو چور لٹیرے نظر آ رہے ہیں اور سلطانی گواہ ان کو پھانسی پر چڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ حکومتی ادارے خستہ حالی کا شکار ہیں نئے پاکستان کے وزیر مشیر فوج ظفر موج میں جھولتے نظر آتے ہیں۔

نئے پاکستان کا وزیر اعظم ایوان سے غائب ہے جس کی وجہ سے پارلیمان غیر اہم ہوتا نظر آتا ہے۔ سفارت کاری کی بھاری ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہماری معیشت کو ٹیکے پر ٹیکے لگا رہے ہیں اور ان کے لیے تلور، باز اور نو عمر دوشیزہ اور نکاح خواں تیار کر کے اپنی سفارت کاری کو مضبوط سے مضبوط تر کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان آج کل اس ملک کے نوجوانوں کو بھول چکے ہیں جن کو وہ اکثر اپنی تقاریر میں خطاب کرتے نظر آتے تھے مگر افسوس کہ بے روز گار نوجوانوں کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ملک دشمن قوتیں ہمارے پڑھے لکھے طلباؤ طالبات کو اپنے جال میں پھانس کر اپنے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ہمارے وزیر داخلہ صاحب کے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں آئس نشے کے استعمال سے متعلق بیان نے تو تمام حدیں پار کر دی ہیں جس میں انہوں نے 75 فیصد طالبات اور 45 فیصد طلبا کو نشے کا عادی بتایا بیان سے ایسا لگ رہا تھا کہ موصوف خود ان طلبا و طالبات کے ساتھ بیٹھ کر ان کی گنتی کر کے آئے ہوں۔ حکومتی تمام تر بیانات جو کرپشن اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت کے حوالے سے ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس سوائے ان لفظی بیانات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ملکی تاریخ کے کمزور ترین وزیر اعظم ثابت ہوں گے جو ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز کا بھی ریکارڈ توڑ دیں گے۔ آج بھلے ہی میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو دنیا کی کرپٹ ترین شخصیات میں شمار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ماضی میں جمہوری حکومتوں کے خاتمے کے بعد سرکاری ٹی وی پر سیاستدانوں کی کرپشن کا احستاب کرنے والے صحافی آج بھی اپنے تجزیوں میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو پھانسی کی سزا سناتے نظر آتے ہیں مگر یاد رکھیے یہ وہ ہی آصف علی زردای ہے جس نے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے صدارتی اختیارات واپس کر دیے تھے اور 18 آئینی ترمیم سمیت روزگار دینے، تنخواہیں بڑھانے، مزدوروں کی اجرت طے کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے کئی پروگرام شروع کیے اور میاں نواز شریف پر بھی بھلے کرپشن سمیت کئی الزامات لگائے جائیں مگر اس ملک کے لیے کئی قربانیں اور جدوجہد ان کے حصے میں بھی آتی ہے۔ مگر پاکستان تحریک انصاف کے پاس اپنے کارکردگی دکھانے کے لیے ماسوائے بیانات کے کچھ بھی نہیں۔

اس لیے احتساب سب کا ہونا چاہیے نا کہ صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا۔ اگر احتساب کے چیف کمشنر صاحب بہادر اپنا نرالا احتساب اپنے طریقے سے کرتے رہے تو پھر وہ دن دور نہیں جب انڈے اور مرغی والا بھی پکڑا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).