لاشے، عدل کے چشمے اور ازل کے پیاسے


(پردہ اٹھتا ہے)

ایک بندے کو اچانک اور خوش قسمتی سے موقع ملتا ہے، اس کی ”پرفارمنس“ غضب ڈھاتی ہے۔ وہ وقت کے قاضی سے کہتا ہے :

میں سن آف سائل ہوں۔ میں آکسفورڈ سے ”پرفارم“ کرنے آیا ہوں۔ میں نے ”پانچ ارب“ کا سکینڈل پکڑا ہے۔ سکینڈل پکڑنا گر میرا جرم ہے تو مجھے گرفتار کر لیں۔ در و دیوار بھی متوجہ ہوتے ہیں، اور قاضی وقت بھی۔

ظاہر ہے، پردہ اٹھا ہے، تو حب الوطنی سے سرشار اور انصاف کو اوڑھنا بچھونا جاننے والے عزت مآب منصف اعظم حوصلہ افزائی تو کریں گے۔ لیکن۔۔۔ لیکن، قدرت کا قانون کبھی ممتحن بھی بن جاتا ہے، میرے لئے، آپ کے لئے، ہم سب کے لئے، حاکم وقت اور زنجیر عدل کے لئے بھی۔ اب جانے ایسے میں پردہ اٹھتا ہے یا پردہ پڑتا ہے؟

 ”کیا عدل کا چشمہ سوکھ گیا؟

جب عدل کے پیاسے پیش ہوئے؟ ”

(پردہ ایک بار پھر اٹھتا ہے )

ایک میت ہے، ایک انسانی لاش، ہتھکڑی میں جکڑی انسان کی لاش۔ کس کی لاش؟ انسانیت کی لاش یا کسی ادارے کی لاش؟ بے بسی کی یا بے کسی کی لاش؟

وہ لاش کہ، کسی نے اسے پروفیسر کی لاش گردانا۔ کسی نے کہا، نہیں، نہ نہ ایک ادارے کے مالک کی لاش۔ سی ای او کی لاش۔ وکیل بولا ملزم کی لاش نہ کہ مجرم کی لاش! دشمن بولا۔ وہ دشمن کہ جو نہیں جانتا ”دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مرجانا“۔ وہ بولا کہ، انجام کی لاش۔ اپوزیشن والے بولے کہ نظام کی لاش اور اقتدار بولا مثال کی لاش۔ کون جانے زندگی کس مقام پر جاکر رک جائے، کسے معلوم کون سا لمحہ امتحان بن جائے اور کون سا لمحہ لاش۔

 گویا ایک غیرجانبدار اٹھا اس نے پردہ اٹھایا نہ پردہ گرایا اور نہ پردہ ڈالا ایک آہ کی رفاقت اور انکشاف کی صداقت کے ساتھ پردہ چاک کیا اور معصوم سی صدا کے ساتھ بولا کہ، یہ سیاست کی ہے نہ عداوت کی، یہ میری لاش ہے۔ میری لاش! کوئی ہتھکڑی نہ اتارتا مگر میری لاش کو ایک چادر سے یا کسی پھٹے پرانے چیتھڑے سے ڈھانپ تو دیتا، کہ ڈھانپنے کے لئے بھی کسی جج، کسی وائس چانسلر، کسی پروفیسر، کسی مدعی، کسی وردی، کسی عہدے، کسی رشتہ داری یا کسی چابی کی ضرورت ہوتی ہے؟ ظالمو! میت ڈھانپنے کے لئے تو محض ایک انسان درکار ہوتا ہے! لاش سوال کرتی ہے یہ پردہ اٹھا ہے یا پردہ رکھا گیا یا ڈالا گیا ہے؟

کیوں صحیفوں میں لکھا ہے کہ ملے گا انصاف

لفظ‌ و معنی نہ جدا رکھ کہ میں جو ہوں سو ہوں

(پردہ تیسری بار اٹھتا ہے )

ایک پروفیسر سوشل میڈیا پر کیا پروفیسرانہ سوال اٹھاتا ہے کہ لاش پروفیسر نہیں تھی، پروفیسر ریکارڈ کی درستگی کے لئے بتاتا ہے کہ ایچ ای سی کے مطابق اتنا تجربہ، اتنی تحقیق، اتنی پبلیکیشنز ضروری ہیں، لہذا لاش پروفیسر نہیں تھی۔

اسی کا کوئی شاگرد جواب دیتا ہے۔ پروفیسر صاحب بے وقت کی راگنی سے اجتناب کرو۔ ایک اور بولتا ہے، محقق صاحب! بات کو دوسرے رخ پر نہ لے کر جاؤ۔ ایک اور بولتا ہے اور کہتا ہے پروفیسر صاحب! عام طور پر سکول میں پڑھانے والے کو ماسٹر صاحب اور کالج میں پڑھانے والے کو پروفیسر کہتے ہیں۔ کسی نے کہا یونیورسٹی میں پروفیسر تجربے اور تحقیق سے جبکہ کالج میں پروفیسری صرف تجربے کی مدت سے ملتی ہے۔ ایک بولا رومانیہ میں ہر ٹیچر کو پروفیسر کہتے ہیں پڑھاتا کہیں بھی ہو۔

کوئی بولا، مسٹر چاپلوس پروفیسر! پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی پروفیسر ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک دل جلی شاگردہ بولی : اے پروفیسر میں تمہارے پلیجرزم، تمہاری ”ہراسمنٹ و حرام منٹ“ اور تمہاری کام چوری سے آشنا ہوں میں تم پر کیا بھیجوں؟ میرا تو ضمیر تمہیں استاد ماننے سے قاصر ہے، میرا استاد میرا پروفیسر تو مجھے پارہ پڑھانے والا اور مجھے پرائمری اسکول میں پڑھانے والا ہے تم تو محض نوکری کرتے ہو یا چاپلوسی۔

پروفیسر تو یہاں پھر کئی وائس چانسلرز بھی نہیں۔ پروفیسری کا پوسٹ مارٹم ہی گر کسی کو مطلوب ہے تو جناب پردہ چاک ہوتا ہے کہ، پروفیسر تو ایسے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ڈاکٹر نظام الدین بھی نہیں، آئی ٹی یونیورسٹی لاہور کا سابق وی سی اور پرسوں کا وزیراعظم ہاؤس یونیورسٹی کی تقریب کا ”کی نوٹ سپیکر“ ڈاکٹر عمر سیف بھی نہیں مگر ایک جرنیل کا بیٹا اور ایک بڑے انصافی سیاستدان کی بیوی کا بھائی ضرور ہے، اور وزیراعظم ہاوس یونیورسٹی کا متوقع سربراہ بھی۔ ارے پیارے پروفیسر! تم نے کبھی سورہ عصر کا ترجمہ بھی پڑھا ہے؟

آہ! یہ پردہ اٹھتے ہی پردہ چاک ہوا کہ، وہ لاش پروفیسر تھی یا نہیں۔ مگر یہ پروفیسر لاش تھا!

ہم اپنی زندہ لاشوں کی بجھائیں تشنگی کیسے

یہاں پانی پہ ابھری لاش کے ٹکڑے بھی آتے ہیں

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2