گلگت بلتستان سے کچھ مثبت خبریں


گلگت بلتستان کے لئے سب سے اہم، بریکنگ اور مثبت خبر یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے آئینی تشخص کے معاملے میں سٹیٹس کو بحال رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے، یعنی گلگت بلتستان کی آئینی تشخص کو وسیع تر مفاد میں دبا دیا گیا۔ اب گلگت بلتستان دوبارہ 2009 میں پیپلزپارٹی کے دور میں متعارف کرائے گئے طریقہ کار اور نظام کے مطابق ہی چلے گا۔ اس مثبت پیش رفت کی وجہ سے نہ صرف عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر بچ گیا بلکہ کشمیرکی قیادت نے بھی سکھ کا سانس لیا اور گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت کو بھی کشمیری قیادت پر نشتر چلاتے ہوئے سیاست چمکانے میں توسیع مل گئی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق کی فراہمی کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے مثبت رخ پر آگیا ہے۔ اس سے قبل بعض سماعتوں میں معزز ججز کے ریمارکس سے محسوس ہورہا تھا کہ 71 سالہ جمود ٹوٹے گا اور گلگت بلتستان کے لوگ باپ دادا کے روایتی سیاسی نظام سے ہٹ کر کسی نظام کی طرف جا سکیں گے لیکن بعد کے سماعتوں میں وہ ریمارکس منتقل ہوکر گلگت بلتستان کی نمائندگی کرنے والے وکیل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کے پاس آگئے، یہی نہیں بلکہ جب بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے بھی معزز ججز کے سابقہ ریمارکس کی پیروی کرنے کی کوشش کی تو عدلیہ برہم ہوگئی اور سرزنش کرتے ہوئے انہیں الفاظ واپس لینے پر مجبور کرلیا۔

چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے دوران ہونے والے تمام منصوبوں کا ازسرنوجائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سی پیک کی مشترکہ تعاون کمیٹی کا 8 واں اجلاس گزشتہ دنوں بیجنگ میں منعقد ہوا، بیجنگ میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے اور سی پیک منصوبے میں وسعت لانے پر اتفاق پایا گیا ہے، گلگت بلتستان کے لئے اس اجلاس میں پہلی مثبت خبر یہی رہی کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کو اپنے ساتھ ’پھر نہیں لے کر گئے‘ ۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ کے متبادل کے طور پر ایک نامعلوم شخص نے نمائندگی کی، اجلاس کے دوران گلگت بلتستان کے کسی منصوبے کا ذکر نہیں ہوا اور خوشخبری یہی دی گئی کہ گلگت بلتستان کو سی پیک کی وجہ سے ہونے والے ماحولیاتی آلودگی اور دوسرے منفی اثرات سے محفوظ رکھا جائے گا۔

پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین، اسلامی تحریک اور تمام قوم پرست جماعتوں نے پیپلزپارٹی کی جانب سے آئینی تشخص اور حیثیت کے تعین کے لئے بلائے گئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا۔ مذکورہ تمام جماعتوں نے اس کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہیں کرکے اپنی ’حب الوطنی‘ کا ثبوت دیدیا۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے اہم اور حساس وقت پر بلائے گئے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے والوں نے نریندرمودی اور عالمی انڈین لابیز کو بھی واضح پیغام بھیجا کہ ہم اپنے حال پر خوش ہیں۔

مقامی اخبارات میں چھپنے والی خبروں کے مطابق اس اے پی سی میں تنظیم اہلسنت والجماعت اور امامیہ کونسل دونوں کو اس بات پر راضی کرایا گیا کہ تاریخی حوالوں کو ایک طرف رکھ کر گلگت بلتستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ علاقہ ہے لہٰذا متنازعہ علاقوں کے لئے دیے جانے والے حقوق کے حصول کے لئے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔

عوام کے لئے ایک اہم اور مثبت خبر یہ ہے کہ دسمبر کی سردیوں کے دوران بھی صوبائی حکومت کی انتھک محنت اور کوشش کی وجہ سے 6 گھنٹے تک بجلی کی فراہمی کی جا رہی ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان کے دوردراز علاقوں گوجال، گوپس پھنڈر، استور اور بلتستان کے بالائی علاقے میں صرف 21 گھنٹوں تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ اس لوڈشیڈنگ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ دوردراز کے غریب عوام ان سخت علاقوں سے ہجرت کریں تاکہ اچھی زندگی گزار سکیں۔

سردیوں میں ان بالائی اور دوردراز کے علاقوں میں بچوں کی صحت بھی خراب ہوتی ہے اور تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے اس لئے زیادہ سے زیادہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے تاکہ لوگ فی الفور ہجرت کرسکیں۔ بجلی کے میدان میں صوبائی حکومت نے مثبت پیش رفت کی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 4 سال قبل پیپلزپارٹی کے دور میں سردیوں کے دوران 20 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی لیکن ن لیگی حکومت نے بھرپور محنت کے ذریعے چارسالوں میں بجلی کی فراہمی کا دورانیہ آنکھ مچولی کے ساتھ 6 گھنٹوں تک پہنچا دیا ہے۔

اسی طرح کی مثبت خبر یہ بھی ہے کہ صوبائی کابینہ کا فیصلہ محکمہ فنانس نے ’پھاڑ‘ کر ردی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ صوبائی حکومت نے کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ حکومتی رقومات کو کسی بھی بنک بھی رکھیں اور جو بنک زیادہ منافع دیں اس کو ترجیح دی جائے۔ کابینہ کے فیصلے کے برعکس فنانس ڈیپارٹمنٹ نے تمام محکموں کو تحریری احکامات جاری کردئے ہیں کہ وہ نیشنل بنک کے علاوہ کسی بھی بنک میں سرکاری رقم نہ رکھیں اور جو رقم دیگر بنکوں میں موجود ہے اسے نکال کر نیشنل بنک منتقل کردیا جائے۔

اس کی مبینہ وجوہات یہ ہیں کہ بنک جو منافع دیتا ہے وہ سود ہوتا ہے اورسود اسلام میں حرام ہے، دیگر بنکوں میں زیادہ منافع رکھنے کا مطلب جی بی کی غیور اور غیرت مند قوم کو سود میں مبتلا کرایا جائے۔ لہٰذا صرف اور صرف نیشنل بنک میں رکھا جائے۔ خوش اسلوبی سے طے ہونے والے رقومات کی منتقلی پر صوبائی حکومت نے چپ سادھنے میں عافیت سمجھ لی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل فنانس ڈیپارٹمنٹ کو سخت تحریری نوٹس بھجوایا گیا تھا کہ ایسی حرکتیں نہ کریں۔

مزید برآں مثبت خبر ہے کہ گزشتہ مالی سال میں وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ گلگت بلتستان کا غیر ترقیاتی بجٹ کی مد میں کل 11 کروڑ 84 لاکھ سے زائد رقم خرچ کی گئی جن میں سے صرف تحفوں اور تفریح کی مد میں ہونے والی رقم 1 کروڑ 75 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ جبکہ گورنر سیکریٹریٹ گلگت بلتستان نے سال 2017۔ 18 میں غیر ترقیاتی فنڈز کی مد میں 8 کروڑ 45 لاکھ 15 ہزار روپے کا بجٹ خرچ کر لیا، جن میں تحفوں اور تفریح کی مد میں 1 کروڑ 15 لاکھ 41 ہزار روپے اڑادئے ہیں۔

تقریباً تین کروڑ روپے کی تفریح اورتحفے تحائف کی وجہ سے گلگت بلتستان میں سیاحت بحال ہوگئی ہے۔ تین کروڑ روپوں میں سے غالباً زیادہ رقم ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں میں وزیراعلیٰ صاحب اور گورنر صاحب نے خود تقسیم کیے ہوں گے۔ اتنی بڑی رقم صرف تفریح اور تحفے میں خرچ کرنے کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے علاقے کی خودی کو برقرار رکھتے ہوئے دیگر لوگوں کویہ تاثر دیا جائے کہ ہم غریب علاقہ نہیں ہیں اور ہمیں غریبوں کی طرح ’ڈیل‘ نہ کیا جائے۔

ملک میں نئی صحافتی اصطلاح ’مثبت خبریں‘ سامنے آنے کے بعد کئی چیزوں میں رونق آگئی ہے۔ اس اصطلاح کے بعد یقینا سرکاری فائلوں میں چمک دمک نظر آگئی ہوگی۔ سیکیورٹی کے نام پر لیا جانے والا پروٹوکول سڑکوں کی مرمت کے فرائض بھی سرانجام دے رہا ہوگا۔ اعظم سواتی نے خود کو کرپشن اور طبقاتی تقسیم کے خلاف مثال بننے کے لئے اپنے غریب ہمسایے پر ظلم کا پہاڑ گرایا ہوگا۔ نوازشریف اور مریم نوازاپنے کیے پر نادم ہونے کی وجہ سے خاموش ہوگئے ہوں گے۔ آصف علی زرداری صاحب بھی خود کو احتساب عدالت کے حصار میں داخل کرواکر آئندہ کے لئے ہر قسم کی کہانیوں کو بند کرنا چاہتا ہوگا۔ وزیراعظم صاحب بیانات، اعلانات اور وعدوں سے مکر کے اس بات کی تلقین کرتے ہوں گے کہ آئندہ جھوٹے سیاستدانوں پر اعتبار نہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).