آج بے نظیر بھٹو بہت یادآئیں


لیاقت باغ راولپنڈی کے بغلی دروازے سے کل گزر ہوا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصویر دیکھ کر ٹھٹھر گیا۔ دسمبر کی ایک سرد شام تھی لیاقت باغ کے جلسے سے خطاب کے بعد محترمہ گھرلوٹ رہی تھیں کہ بے رحم قاتلوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور ان کی روح مالک حقیقی سے جاملی۔

ان کی شہادت نے ملک بھر میں کہرام مچا دیا۔ آہ و زاری میں دوست دشمن کی تمیز نہ رہی۔ ہر آنکھ نم اور چار سوماتم برپا تھا۔ حالیہ تاریخ میںغالباً یہ واحد سانحہ تھا جس نے اہل پاکستان کو اس قدر سوگوار کیا ۔شہادت کے رتبے پر وہ جونہی فائز ہوئیں ان کے ساتھ وابستہ تلخ یادیں اور سیاسی تلخیوں کو فراموش کردیا گیا۔

انہیں مادر ملت کی طرح یاد کیاجانے گا۔ اگرچہ وہ گڑھی خدابخش میں تہہ خاک آرام کررہی ہیں لیکن آج بھی کروڑوں پاکستانیوں کے دل ان کے نام پر دھڑکتے ہیں۔ بساط سیاست پر ان کا نام لے کر مہرے چلے جاتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو کی زندگی جدوجہد، کشمکش اور قربانیوںسے عبارت ہے۔جلاوطنی کے آخری برسوں میں وہ مفاہمت اور تنازعات کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی مائل تھیں۔ان کے نارویجن دوست نے بتایا کہ وہ امریکی صدر جارج بش کے دعائیہ ناشتے میں محترمہ کے ہمراہ شریک تھے۔

بتانے لگا کہ ایک چھوٹے گروپ میں محترمہ جس کی لیڈر تھیں نے تمام شرکا سے کہا کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی دعا کریں۔ دعا کرچکے توکچھ دیر خاموش رہیں۔ رندھائی ہوئی آواز بولیں میرے شوہر آصف علی زرداری کی رہائی اور صحت کی بھی دعا کریں۔ پورے گروپ نے پاکستان اور آصف زرداری کے لیے دعاکی ۔ دوران دعاان کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

وہ بہت ہی محنتی اور زیرک حکمران تھیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک اعلیٰ افسر نے بتایاکہ کوئی سرکاری فائل ایسی نہیں جو محترمہ نے پڑھی نہ ہو۔ فائل پر اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھتیں۔ احکامات صادر کرتیں یا مزید معلومات کا تقاضہ۔ بتاتے ہیں کہ پرویز مشرف نے انہیں بریفنگ دی کہ کارگل آپریشن کرکے ہم بھارت کا گلا دبوچ لیں گے۔اس کے بعد آسانی سے سری نگر پر قبضہ کرلیا جائے گا۔مشرف کی بریفنگ سے شرکا کافی متاثر تھے اور اکثر اس آپریشن کی اجازت دینے کے خواہش مند بھی۔

محترمہ نے مشرف سے پوچھا کہ کیا ہم یہ قبضہ برقراررکھ سکیں گے اور کیا اقوام متحدہ ہمارے اس اقدام پر خاموش تماشائی بن جائے گی یا پھر ساری دنیا مل کر ہم پر چڑھ دوڑے گی؟ ایسے تیکھے سوالات سن کر مشرف صاحب کے پسینے چھوٹ گئے۔ انہیں اس فوجی آپریشن کے سیاسی پہلوؤں اور عالمی سفارتی پیچیدگیوں کا ادراک نہیں تھا۔

چند روز قبل اینکر پرسن اور کالم کار آصف محمود نے اپنے ٹی وی شو میں پوچھا کہ سنا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے کشمیر ہاؤس کے بورڈ اتارلیے تھے اور وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتیں تھیں؟عرض کیا کہ سیاسی محاذ آرائی میں سیاستدان ایک دوسرے کی پگڑی اچھالتے رہتے ہیں۔یہ بھی سیاسی نوعیت کے الزامات ہیں۔

یہ محترمہ ہی تھیں جنہوں نے قاضی حسین احمد اور نوازشریف کے اعلان کے بعد پانچ فروری کی چھٹی کا اعلان کیا۔ مظفرآباد جاکر اس وقت کے گورنر مقبوضہ کشمیر جگ موہن کو للکارہ: جگ موہن ہم تمہیں بھاگ موہن بنا دیں گے۔ دوسری بار انہیں اقتدار ملا تو انہوں نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔

اسلامی سربراہی کانفرنس میں وہ سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کرلے گئیں کہ ہم نے کشمیر پر ’’اوآئی سی کنٹیکٹ گروپ‘‘ بنانا ہے۔انہوں نے کشمیریوں کو اوآئی سی میں مبصر کا درجہ دلایا۔آج تک اوآئی سی کے ہر اجلاس میں کشمیری مندوبین شریک ہوتے ہیں۔

نواب زادہ نصراللہ کی سربراہی میں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی قائم کی جو نہ صرف بااختیار تھی بلکہ غیر معمولی طورپرمتحرک بھی۔ نواب زادہ نے پیرانہ سالی کے باوجود تمام کشمیری شخصیات اورجماعتوں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات استوار کیے۔وہ بے نظیر بھٹو اور کشمیری لیڈروں کے درمیان ایک بااعتماد رابطہ کار تھے۔

بعد کی حکومتوں نے نواب زادہ کی سرگرمیوں کے پیش نظر یہ سبق سیکھا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے ایسے ایسے نکمے سربراہ مقرر کیے جو کوئی قابل ذکر نقش نہ چھوڑ سکے کہ لوگ انہیں بھی نواب زادہ کی طرح یاد کرتے۔ بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پیش ہوا۔ اگرچہ بھارت کے خلاف قرارداد منظور نہ ہوسکی لیکن عالمی سطح پر کشمیر پر ایک زبردست ہلچل مچی۔

بھارتی حکومت نے اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں اپنے دفاع کے لیے ایک وفد جنیوا بھیجا۔ ہفتوں تک عالمی میڈیا میں کشمیر کا ڈنکا بجتارہا۔ اپوزیشن میں بھی تھیں تو بھی کشمیر سے غافل نہ تھیں۔جلاوطنی کے دوران بھی مسلسل کشمیری لیڈروں کے ساتھ رابطہ رکھا۔کانفرنسوں میں شریک ہوتیں اور مفید مشورے بھی دیتیں۔

بیس برس پہلے کی بات ہے کہ اوسلو میں کشمیری سیکنڈے نیوین کونسل کے سربراہ علی شاہ نواز خان کے ہاں قیام تھا۔ محترمہ نے انہیں کسی سلسلے میں فون کیاتو انہوں نے میری بات بھی کرائی۔علی شاہنواز بتاتے ہیں کہ محترمہ نے ان کے گھر قیام بھی کیا ۔بچوں اور بیگم کے ساتھ اس طرح پیش آتیں جسے برسوں کے یارانے ہوں۔

بلاکے حافظے کی مالک اور شخصیت شناس تھیں۔اپنے لیڈروں اور کارکنوں کو خوب جانتی تھیں۔ آخری برسوں میں انٹرنیٹ اور ای میل کا بھرپور استعمال کرتیں۔ مظفرآباد کی خاتون رہنما گلزار فاطمہ نے بتایاکہ وہ زمانہ طالب علمی میں پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن کی یونیورسٹی میں صدر تھی۔عام الیکشن ہوئے تو پیپلزپارٹی کامیاب ہوئی۔

خیال آیاکہ خواتین کی نشست پر انہیں بھی قسمت آزمائی کرنی چاہیے۔محترمہ تک رسائی کا کوئی راستہ سجھائی نہ دیتا۔ پارٹی کے ایک لیڈر سے مشکل سے ای میل حاصل کی اور محترمہ کو پارٹی کے لیے اپنی خدمات کی تفصیل اور اپنی تعلیمی قابلیت کے ذکر پر مشتمل ایک ای میل لکھی۔ وہ یہ سن کر حیران وپریشان ہوگئی کہ محترمہ نے انہیں خواتین کی نشست پر اپنا امیدوار نامزد کردیا۔پانچ برس تک وہ ٹھاٹ سے اسمبلی کے فلو رپر دھاڑتی رہیں۔

ناروے میں محترمہ کے کئی قریبی دوستوں نے بتایا کہ آخری برسوں میں ان کا رجحان صوفی اسلام کی طرف بہت بڑھ گیا تھا۔ صوفی ازم کا وہ مطالعہ کرتیں تھیں اور دانشمند لوگوں کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو بھی کرتیں۔اپنی آخری کتاب میں انہوں نے مغرب اور عالم اسلام کے مابین تصادم کے تصور کو مسترد کرکے مکالمے کا متبادل تصور پیش کیا جو کہ ان کے سیاسی تدبر کی دلیل ہے۔ کاش ! انہیں کچھ اور وقت مل جاتا۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood