تبادلہ آبادی اور جنونیت کا رقص


مہاراجہ میرے ذاتی دوست اور مہربان تھے۔ انہوں نے میرا استعفیٰ منظور نہ کیا، اور مجھے تشفی کا پیغام بھیج کر مجبور کیا، کہ میں نابھ سے نہ جاؤں۔ کچھ عرصہ کے بعد ان وزیر صاحب کو بھی جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد میں نے حکیم صاحب سے کہا کہ جس انسان کو یہ بھی اطمینان نہ ہو، کہ وہ اب یا آئندہ عزت و احترام کی اطمینان بخش زندگی بسر کر سکتا ہے، اسے تو ہجرت کرنی ہی چاہیے۔ میرے اس جواب سے حکیم صاحب بہت مایوس تھے۔ آپ میرا یہ جواب سن کر چلے گئے، اور اس کے بعد پھر کبھی میری رائے لینے کے لئے نہیں آئے۔ مگر میں مطمئن تھا، کہ میں نے حکیم صاحب کو وہی رائے دی، جسے میں ایمانداری کے ساتھ درست اور صحیح سمجھتا تھا۔

پاکستان کو جب قائم کرنے کا فیصلہ ہوا، تو اس وقت نہ تو مہاتما گاندھی یہ سمجھتے تھے، کہ ملک کی تقسیم کے سلسلہ میں لاکھوں انسان فرقہ پرستی کے ظلم کا شکار ہوں گے اور نہ مسٹر جناح کو یہ خیال تھا، کہ کروڑوں انسانوں پر مصائب نازل ہوں گے۔ کانگرسی اور مسلمان لیڈر صرف وزارتوں کے قلمدانوں کے تبادلہ کے حق میں تھے۔ مگر ہوا وہ جس کی توقع نہ تھی، اور جسے انسانیت کے نام پر اور دامن پر ایک شرمناک اور کبھی بھی نہ مٹنے والا سیاہ دھبہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

چنانچہ اگر تبادلہ آبادی کا ہونا لازمی تھا، اور یہ تبادلہ آبادی صرف دو قوموں کی تھیوری کی بنیادوں پر ہوا، تو بہتر تھا، کہ یہ تبادلہ آبادی مکمل طور پر ہوتا۔ یعنی تمام مسلمان پاکستان چلے جاتے، اور تمام ہندوستان آ جاتے، اور معصوم، بیگناہ اور سیاست سے نا آشنا مردوں، عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ نہ کیا جاتا۔ ہندوستان کی تقسیم کے سلسلہ میں ایک اور واقعہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اس سال کی پچھلی مئی کے پہلے ہفتہ میں میرے عزیزوں میں ایک لڑکی کی شادی تھی۔

اس شادی کی تقریب امرتسر میں ہونے والی تھی، اور میں بھی وہاں جانا چاہتا تھا۔ میں نے امرتسر جانے سے پہلے اپنے امرتسر کے دوستوں کو خطوط لکھے، کہ میں وہاں 3 مئی کو پہنچ رہا ہوں، اور وہاں ان سے ملوں گا۔ جن لوگوں کو میں نے خطوط لکھے، ان میں ماسٹر تارا سنگھ بھی تھے۔ کیونکہ ماسٹر صاحب سے میرے دیرینہ اور گہرے دوستانہ اخلاص کے مراسم ہیں، اور ان ذاتی تعلقات پر سیاسی مخالفت کبھی بھی اثر انداز نہ ہوئی۔ حالانکہ میں ہمیشہ ہی ماسٹر صاحب کے پنجابی صوبہ کی مخالفت کرتا رہا۔

میرے اس خط کے جواب میں ماسٹر صاحب نے مجھے لکھا، کہ وہ خود بھی مجھ سے ملنا چاہتے ہیں، مگر وہ 3 مئی کو امرتسر میں نہ ہوں گے، وہ اس روز پٹیالہ میں ہوں گے۔ 4 مئی کو دہلی جا رہے ہیں۔ 5 مئی کو پاؤنٹہ صاحب وہ مقام ہے، جہان گورو گوبند سنگھ تین چار برس مقیم رہے۔ جہاں ایک بہت بڑا گوردوارہ دریائے جمنا کے کنارے ہے، اور جو ڈیرہ دون سے تیس میل کے قریب ہے ) اور میں ان کو پاؤنٹہ صاحب میں ملوں۔ میں شادی کی تقریب کے سلسلہ میں امرتسر نہ جا سکا، اور 5 مئی کو ماسٹر صاحب سے ملنے کے لئے بس کے ذریعہ پاؤنٹہ صاحب چلا گیا۔

میں پاؤنٹہ صاحب بارہ بجے دوپہر کے قریب پہنچا، تو ماسٹر صاحب کے ساتھیوں نے بتایا، کہ ماسٹر صاحب صبح سے منتظر تھے۔ ماسٹر صاحب سے دو تین گھنٹہ تک باتیں ہوئیں۔ میں واپس ڈیرہ چلا آیا، اور ماسٹر صاحب امرتسر چلے گئے۔ امرتسر جانے کے چند روز بعد ماسٹر صاحب نے فاقہ کشی شروع کر دی۔ اور اس فاقہ کشی کے شروع ہونے کے بعد ایک طرف تو ملک کے لیڈروں کی طرف سے تاروں، خطوط، ریزویشنوں اور پیغاموں کا سلسلہ شروع ہوا، جن میں فاقہ توڑنے کے لئے کہا جا رہا تھا، اور دوسری طرف مجھے اطلاع پہنچی، کہ یوپی کے انسپکٹر جنرل پولیس نے اپنے صوبہ کے تمام تھانوں کو حکم دیا ہے، وہ اپنے اپنے علاقہ کے سکھوں کی فہرستیں اور پتے تیار کریں، تاکہ اگر ماسٹر تارا سنگھ کے فاقہ اور فاقہ کے بعد موت کے ہاعث ہندوؤں اور سکھوں میں فسادات ہوں، تو اس صوبہ میں سکھوں کی حفاظت کی جا سکے، اور سکھوں کو فسادات سے بچایا جا سکے۔ چنانچہ اس حکم کے مطابق ڈیرہ دون کے ضلع کے سکھوں کی فہرستیں بھی تیار ہونی شروع ہوئیں اور اس کی اطلاع میرے پاس بھی پہنچی۔ اس اطلاع کو سن کر میں نے تارا سنگھ کو ایک خط لکھا، جس کا مفہوم یہ تھا۔ :۔

محترم ماسٹر جی!

جو لوگ آپ کو فاقہ چھوڑنے کے لئے تار بھیج رہے ہیں، خطوط لکھ رہے ہیں اور جلسے کر کے ریزولیوشن پاس کر رہے ہیں، میں ان تمام کو انتہائی بیوقوف سمجھتا ہوں، اور میں خود بیوقوفوں میں سے نہیں ہوں۔ کیونکہ نہ تو آپ نے ان لوگوں کے کہنے سے فاقہ کشی شروع کی، اور نہ ان کے کہنے سے بند کریں۔ اس کی تمام تر ذمہ داری صرف آپ پر ہی ہے۔ آپ جیسا چاہیں کریں، مگر میں آپ کی اطلاع کے لئے لکھ رہا ہوں، کہ یوپی کی گورنمنٹ نے اپنے صوبہ کے تمام تھانوں کو حکم دیا ہے، کہ اس صوبہ میں ہندوؤں اور سکھوں میں فساد ہو، تو سکھوں کو بچایا جا سکے، اور سکھ ہندو فرقہ پرستوں کے مظالم کا شکار نہ ہوں۔

اس حکم اور دوسری اطلاعات کا خیال کرتے ہوئے یہ پشین گوئی کرتا ہوں، کہ اگر آپ نے فاقہ نہ چھوڑا، اور آپ کی موت ہوئی تو اس موت سے متاثر ہو کر فرقہ پرست اور عاقبت نا اندیش اکالی یقیناً پنجاب کے ہندوؤں پر حملہ کریں گے، اور اس حملہ کے جواب میں، ہندوستان کے دوسرے صوبہ جات مثلاً یوپی وغیرہ کے ہندو سکھوں پر حملہ کر دیں گے۔ اور ہندوستان کے تمام صوبہ جات میں وہی کچھ ہو گا، جو 1947 ء میں ہندوستان اور پاکستان میں ہوا تھا۔ اب آپ خود ہی سوچ لیجیے، کہ آپ کی موت سکھوں کی کس قدر خدمت انجام دے گی، اور آپ کی روح، آئندہ دوزخ کے کسی حصہ میں مستقل قیام کرے گی۔

نیاز مند دیوان سنگھ

میں نہیں کہہ سکتا، کہ ماسٹر صاحب نے فاقہ شروع کیا تھا، تو کن خیالات کے زیر اثر ہو کر اور فاقہ کشی ترک کی، تو کن حالات میں؟ مگر مجھے اس کا یقین ہے، کہ اگر ماسٹر تارا سنگھ کی موت فاقہ کے باعث ہوتی، تو آج دیوان سنگھ سکھ ہونے کے جرم میں ڈیرہ دون میں مقیم نہ ہوتا۔ یہ یا تو فرقہ پرست ہندوؤں کی چھری یا تلوار کا نشانہ بن چکا ہوتا، یا کسی دوسرے مقام پر کسی ہندو دوست کی پناہ میں ہوتا۔ کیونکہ ماسٹر تارا سنگھ کی موت کے بعد ممکن ہی نہ تھا، کہ عاقبت نا اندیش اور اپنے ذہن میں پنجابی صوبہ کا پاگل پن رکھنے والے فرقہ پرست اکالی پنجاب کے ہندوؤں پر حملہ نہ کرتے، اور اس کے جواب میں ہندوستان کے فرقہ پرست ہندو سکھوں کو ختم کرنے کے لئے قدم نہ اٹھاتے۔ کیونکہ مذہبی جذبات کی بنیادوں پر جب کبھی ممالک تقسیم ہوئے، اور اس تقسیم کے سلسلہ میں تبادلہ آبادی ہوا، تو اس تبادلہ آبادی نے انسان کے خون سے زمین کو ضرور سرخ کیا۔
کتاب ”سیف و قلم“ سے اقتباس۔

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon