رونق انجمن گل تھا جو لالہ، نہ رہا: مولانا احمد محمود اصلاحی


رونق انجمن گل تھا جو لالہ، نہ رہا
ناز تھا جس پہ وہ سرو قد بالا نہ رہا
رہ گیا کٹ کے کلیجہ وہ لگی چوٹ کہ ہائے
دینے والا تھا جو ایسے میں سنبھالا نہ رہا

یہ اشعار مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ کے سابق صدر المدرسین، مولانا عبد المجید ندوی کی شہادت پر 1991 میں مولانا احمد محمود کوثر اعظمی نے کہے تھے۔ کیا خبر تھی کہ ان کے ذریعے لکھا گیا مرثیہ انھیں پر منطبق ہو گا، اور وہ خود ان کا مصداق ٹھیریں گے۔ ’کوثر اعظمی‘ کا انتقال 12 دسمبر 2018 کو سرائے میر اعظم گڑھ، یوپی میں ہوا۔ مولانا کے انتقال سے دبستان شبلی و فراہی سونی ہو گئی۔

مولانا احمد محمود اصلاحی مدرسۃ الاصلاح کے سابق نائب ناظم، شاعر، ادیب، افسانہ نویس اور کاروانِ ادبِ اسلامی کی مایہ ناز شخصیت تھے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ اردو اپنے ہی دیار میں اجنبی ہوتی جا رہی ہے اور اس کے پڑھنے، لکھنے اور بولنے والوں کی تعداد میں دن بدن کمی آرہی ہے، ایسے فرد کا اٹھ جانا جس کے معیار و اقدار کے لوگ خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں، صرف ادب ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ ہند کے لیے بھی جاں گسل لمحہ ہے۔

مولانا احمد محمود اصلاحی مدرستہ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ) کے پروردہ تھے۔ انھوں نے جن اساتذہ اور ماہرین فن سے استفادہ کیا، وہ اپنے میدان کے امام تسلیم کیے جاتے تھے۔ مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا بد ر الدین اصلاحی، مولانا اختر احسن اصلاحی، اور مولانا نجم الدین اصلاحی وغیرہم ان کے اساتذہ میں سے تھے، جنھیں سچے علم و ادب کے شیدائی اور مجاہد کہا جا سکتا ہے۔ مولانا احمد محمود کی زندگی بھی ایسے ہی جلیل القدر ماہرین کا نمونہ تھی، جنھوں نے آخری دم تک اس چراغ کو جلانے کے جتن کیے جسے عرب کے صحرا میں سولہ سو سال قبل محمد عربیﷺ نے روشن کیا تھا۔

مولانا احمد محمود اصلاحی کی زندگی کے کئی گوشے تھے۔ وہ بیک وقت بہت اچھے منتظم، استاذ، خطیب، انشا پرداز، شاعر، سماجی کارکن اور قائد تھے۔ انھی خصوصیات کی وجہ سے ہر محفل میں انھیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

مدرستہ الاصلاح میں اپنے دور طالب علمی میں جب کبھی ہم نے انھیں دیکھا قلم و قرطاس سے مربوط پایا۔ ان کے پاس ہمیشہ اساتذہ اور طلبا کے علاوہ شاعروں، ادیبوں اور علم و ادب کے شیدائیوں کا جھرمٹ لگا رہتا۔ مدرسے میں کوئی بھی ہنگامی صورت پیش آتی، انھیں یاد کیا جاتا، تو وہ خود کو روک نہ پاتے تھے۔ حالاں کہ مدرسہ کی نظامت سے انھوں نے استعفا بھی دے دیا تھا، لیکن جب کبھی مدرسہ نے یاد کیا انھوں نے انکار نہیں کیا۔

مجھے یاد آتا ہے کہ ہمارے زمانے میں مدرسہ میں اسٹرائک ہوئی۔ طلبا اپنے مطالبات منوانے کے لیے بضد تھے، جس کی وجہ سے پورا تعلیمی نظام ٹھپ ہو گیا تھا، جب مولانا کو یاد کیا گیا تو وہ آئے اور بڑے ہی درد مندانہ انداز میں تقریر کی، جس کا طلبا پر خاصا اثر ہوا اور اسٹرائک کو ختم کرانے میں ان کی تقریر معاون ثابت ہوئی۔

مولانا احمد محمود کی پیدائش 7 جنوری 1929 ء کو اعظم گڑھ کے ایک گاؤں (بکھرا) میں ہوئی تھی۔ تحریک آزادی کے تناظر میں اٹھنے والی تحریکات اور شخصیات خصوصاً مولانا ابو الکلام آزاد، سید سلیمان ندوی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی وغیرہ کو چوں کہ انھوں نے بہت قریب سے دیکھا اور ان کے کارناموں سے اچھی طرح واقف تھے، انھی وجوہ سے ان کی زندگی بھی مجسم تحریک بن گئی تھی۔ جس وقت ہندوستان کو آزادی کا پروانہ ملا، اس وقت مولانا کی عمر تقریبا اٹھارہ سال تھی۔ اس لیے اس وقت کی اتھل پتھل، ادبی و صحافتی رجحان و منظر نامے کا اثر اور پرتو ان کی زندگی پر پڑنا لازمی تھا۔ اس سے متاثر ہو کر جہاں انھوں نے اپنی پوری زندگی جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہو کر خود کو دینی و تحریکی کا موں کے لیے وقف کر دی، وہیں اس کے لیے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ایمرجنسی کے موقع پر جماعت اسلامی سے منسلک جن شخصیتوں کو گرفتار کیا گیا، ان میں مولانا بھی شامل تھے۔

وہ ہمیشہ مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ تقریباً اپنی ہر تقریر میں اس کا ذکر کیا کرتے تھے۔ یہی وہ احساس تھا، جس نے انھیں 1960 میں مدرسہ محبوبیہ اسلامیہ (طویٰ) کے نام سے ایک اسکول اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے 6 فروری 1989 کو جامعۃ الطیبات کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد ڈالنے پر آمادہ کیا۔

جب تک ان کے قویٰ مضمحل نہیں ہو گئے، وہ ہر طرح کے تحریکی اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، اعظم گڑھ اور گرد و نواح میں ’انجمن اصلاح المسلمین‘ کے تحت اصلاح معاشرہ کے لیے ہونے والے جلسوں اور پروگراموں کے میں بھی دیکھے جاتے۔ ان کی گفت گو کا انداز بہت پیارا اور من موہنا تھا۔

مادر علمی مدرسۃ الاصلاح سے انھیں بے حد لگاؤ تھا، یہی وجہ ہے کہ جب انھیں نائب ناظم کی ذمہ داری دی گئی، تواسے بھی بطرز احسن نبھایا۔ 15 مئی 1978 سے 9 نومبر 1991 تک وہ مدرسۃ الإصلاح کے نائب ناظم رہے۔ مدرسے میں درسی کتابوں کی اشاعت کے لیے ’مکتبہ الاصلاح‘ کے قیام کا سہرا بھی انھیں کے سر جاتا ہے۔ انھوں نے مولانا وحید الدین خان کے ساتھ مل کر دینی، دعوتی اور اشاعتی کاموں کے لیے ’اسلامک پبلشنگ ہاؤس‘ کے نام سے ایک ادارے کی بھی بنیاد ڈالی، جس کا تجربہ بہت تلخ رہا۔ مولانا وحید الدین خان سے اس معاملے میں انھیں بڑی شکایتیں تھیں۔ ان کا انکشاف انھوں نے مدرسۃ الاصلاح کے سالانہ مجلہ 2007 میں زبیر عالم نیپالی اور اکرام الحق بنارسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے، جو پڑھنے کی چیز ہے۔ اس انٹرویو سے بہت حد تک مولانا کے فکر و فلسفہ اور ان کے علمی و ادبی منظر نامے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

مجھے مولانا سے با ضابطہ استفادہ کا موقع تو نہیں ملا، لیکن جن اساتذہ سے میں نے نظم و نثر میں اصلاح لی، ان میں ایک مولانا احمد محمود اصلاحی بھی تھے۔ میں نے اپنے چند مضامین اور کچھ کلام میں ان سے اصلاح لی تھی۔ شاعری سے انھوں نے مجھے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ تب سے میں نے سوائے چند ایک غزلوں یا نظموں کے کچھ بھی نہیں کہا۔ اصلاح کا ان کا طریقہ بالکل جداگانہ تھا۔ وہ بسا اوقات پوری پوری عبارت قلم زد کر کے، نیا لکھ دیتے۔ اس طرح مس خام کو کندن بنانے کا ہنر انھیں خوب آتا تھا۔ ایسے جواہرات وہ بہت فیاضی سے تقسیم کیا کرتے تھے۔ اس کا یہ نتیجہ تھا کہ بہت سے کم علم بھی ان کی اصلاح کی بدولت قلم کار اور مصنف بن گئے۔ ایسے کئی لوگوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جومولانا سے پوری پوری نظمیں، غزلیں اور افسانے لکھوا کر بزعم خویش ادیب و شاعر بنے پھرتے ہیں۔ انھی کے بل بوتے پر کئی لوگوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں اور متعدد علمی و ادبی اعزازات بھی حاصل کیے، لیکن مولانا نے کبھی ان سے صلے کی تمنا نہیں کی۔

ہندوستان میں 1942 کے آس پاس تحریک اسلامی کے ذریعے ادب میں اسلامی تصو ر کا نظریہ پیش کیے جانے کے بعد جو لوگ اس سے وابستہ ہوئے ان میں نوجوان ادیب اور شاعر احمد محمود کا نام بھی شامل تھا، جواس کے علم کو بلند کرنے اور اٹھانے والوں میں نمایاں تھے۔ ادب اسلامی کی تاریخ میں موصوف ماہر القادری، نعیم صدیقی، سید اسعد گیلانی، سید احمد عروج قادری، ابوالمجاہد زاہد، ابن فرید وغیرہ کے ہم پلہ رہے ہیں۔ آزادی کے بعد شایع ہونے والے معتبر علمی جریدوں میں ان کی تخلیقات اوران کی علمی و ادبی خدمات سے آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ چراغ راہ، دانش، معیار، انوار، پیش رفت، سلسبیل اور نئی نسلیں وغیرہ جیسے رسائل و جرائد کی پرانی فائلیں اس کی گواہ ہیں۔

ان رسائل میں وہ ضرار محمود، ابن مختار، ابن محمود اور کوثر اعظمی کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی کئی کتابیں لکھیں جن میں ’خونی بھوت‘ ، ’چھومنتر‘، ’غریب مچھیرا‘ قابل ذکر ہیں، جنھیں کوہِ نور پریس، لال کنواں دہلی نے شایع کیا۔ ان سب کے علاوہ بچوں کے رسالہ ’ہلال‘ اور ’نور‘ میں بھی ان کی کہانیاں اور نظمیں شایع ہوتی تھیں جو بچوں میں خاصی مقبول تھیں۔

مولانا کی تحریر کا انداز اچھوتا تھا۔ اس میں علامہ شبلی کی روانی، مولانا آزاد کی ثقالت، مولانا مودودی کی شگفتگی اور مولانا امین احسن کی انشا پردازی شامل تھی۔ ان کے جملے چھوٹے، مگر طویل اور فلسفہ، منطق، دلیل اور دل کش الفاظ کا مجموعہ ہوتے۔ مولانا اپنی تحریروں میں عربی و فارسی تراکیب استعمال کرتے، جو نغمگی اور شعریت کے سبب کلاسیکیت سے پر ہوتی تھیں۔ ان کی تحریر قاری کو بیزار نہیں کرتی؛ بلکہ لطف دیتی تھی۔ وہ بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ اپنے دوست انور اعظمی کے انتقال کے بعد ان کے شعری مجموعے ”اذان سحر“ میں ’وہ قافلے کی متاع گراں بہا انور‘ کے عنوان سے جو وقیع مقالہ انھوں نے سپرد قرطاس کیا ہے وہ مطالعے کے لائق ہے۔ اس سے نہ صرف انور اعظمی کی شخصیت کی ایک جھلک سامنے آتی ہے، بلکہ صاحب تحریر کی علمی و ادبی صلاحیت اور فنی مہارت کا بھی پتا چلتا ہے۔ یہ کتاب 1967 میں مطبع کوہ نور، لال کنواں (دہلی) سے شایع ہوئی تھی، جو اردو کی معروف ویب سائٹ ’ریختہ‘ پر موجود ہے۔ انور اعظمی کے علاوہ شہباز اصلاحی (سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلما، جو ادبی حلقوں میں شہباز ہندی کے نام سے معروف تھے) مولانا کے دوستوں میں سے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah