جوش کی آپ بیتی کے اوراق کیسے کھوئے؟ طویل نظم کہاں غائب ہے؟


ڈاکٹر ہلال نقوی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ شاعر ہیں، مرثیے کہتے ہیں۔ زباں داں ہیں، ایک مجلے ’رثائی ادب‘ کے ایڈیٹر اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ استاد ہیں، کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ لیکن ان کا اصل میدان تحقیق ہے۔

خود کم مرثیے کہے ہیں اور دوسروں کے زیادہ مراثی کا سراغ لگایا ہے۔ انیس و دبیر کو سب جانتے ہیں اور ڈاکٹر ہلال نقوی نے ان پر بھی کام کیا ہے۔ لیکن دوسرے اساتذہ کا کلام بھی ڈھونڈا ہے اور جوش ملیح آبادی کے غیر مطبوعہ کلام کو دنیا کے سامنے لائے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک کارنامہ جوش کی آپ بیتی کے کھوئے ہوئے اوراق کو شائع کرنا اور ’یادوں کی برات‘ کو مکمل صورت میں منظر عام پر لانا ہے۔ وہ کیا قصہ ہے اور جوش صاحب کی ایک طویل نظم کہاں غائب ہے، اس بارے میں ان کا انٹرویو پیش خدمت ہے۔

سوال: سر سب سے پہلا سوال ’یادوں کی برات‘ سے متعلق۔ اس کتاب کے دیپاچے میں ہم گمشدہ اوراق کا قصہ پڑھ چکے ہیں لیکن، یہاں آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ آپ خود بتائیں کہ کچھ صفحات کیسے گم ہوئے اور کیسے آپ کو ملے؟

ڈاکٹر ہلال نقوی: مبشر صاحب آپ جس کتاب کا ذکر کررہے ہیں، یہ سن 2013 میں یعنی اب سے پانچ سال پہلے منظر عام پر آئی تھی۔ اس کا نام تھا ’یادوں کی برات کے گمشدہ اوراق‘ ۔ 1970 میں جوش صاحب کی خودنوشت ’یادوں کی برات‘ شائع ہوئی تھی۔ ان دنوں ہر طرف سے یہ احتجاج ہوا کہ اس کتاب میں جوش صاحب نے اپنے بعض احباب کو فراموش کردیا ہے۔ علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور کئی بڑے نامور لوگوں کا اس میں تذکرہ نہیں تھا۔ جمیل مظہری کو بھی شکایت تھی کہ جوش صاحب نے ان کا ذکر نہیں کیا۔

میں اس زمانے میں نوجوان طالب علم تھا۔ میں نے 1980 میں جوش صاحب کو خط لکھ کر اس بارے میں سوال کیا۔ جوش صاحب نے جواب دیا کہ انھوں نے نہ صرف جمیل مظہری بلکہ دوسرے احباب کا ذکر بھی کیا تھا۔ جب کتاب چھپنے گئی تو پتا نہیں کیا ہوا، سارے اوراق کون لے اڑا۔ جوش صاحب آسانی سے یہ بات کہہ گئے لیکن میں چونکہ تحقیق و تنقید میں دلچسپی لیتا ہوں، اس لیے مجھے بہت بے چینی ہوئی۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ اوراق کہاں گئے؟

یہ خیال بھی آیا کہ جوش صاحب نے محض بات کو نبھانے کے لیے یہ کہہ دیا ہو۔

1982 میں جوش صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد میری ملاقات ان کی نواسی صبوحی خانم سے ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس ’یادوں کی برات‘ کا قلمی نسخہ موجود ہے۔ میں ایک عرصے سے اس کی تلاش میں تھا۔ انھوں نے وہ نسخہ مجھے دے دیا۔ میں نے باریک بینی سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ قلمی نسخے میں ایسے صفحات موجود ہیں جو چھپی ہوئی کتاب میں نہیں۔ یعنی کسی صفحے کی کتابت ہوئی اور کسی کی نہیں۔ لیکن اندازہ ہوا کہ یہ مکمل مسودہ نہیں ہے۔

میں کراچی یونیورسٹی کے ’پاکستان اسٹڈی سینٹر‘ میں پڑھاتا تھا۔ وہاں ممتاز ادیب رفیق احمد نقش پی ایچ ڈی کرنے کے لیے آئے۔ میری ان سے ملاقاتیں رہیں۔ کسی دن گفتگو کے دوران یادوں کی برات کے کھوئے ہوئے اوراق کا ذکر آگیا۔ انھوں نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ وہ صفحات ان کی تحویل میں ہیں۔ میں نے چونک کر پوچھا کہ یہ اوراق آپ کے پاس کہاں سے آئے۔ رفیق نقش نے کہا کہ ایک صاحب نے دیے ہیں۔ لیکن ان صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی کو میرا نام مت بتایئے گا۔

میں نے انھیں اپنے گھر مدعو کیا اور یادوں کی برات کا وہ قلمی نسخہ دکھایا جو میرے پاس تھا۔ اب یہ ان کی شرافت اور بڑائی تھی کہ انھوں نے اپنی تحویل میں موجود اوراق یہ کہہ کر میرے حوالے کردیے کہ یہ آپ کی امانت ہیں کیونکہ آپ جوش صاحب پر کام کر رہے ہیں۔ کچھ دن بعد رفیق احمد نقش صاحب دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ ان کی عمر زیادہ نہیں تھی، پچاس سال کے ہوں گے۔ لیکن انتقال سے پہلے انھوں نے مجھے بتادیا کہ وہ صفحات انھیں شکیل عادل زادہ نے دیے تھے۔ شکیل صاحب سے ملاقات ہوئی اور میں نے یہ ذکر کیا تو وہ مسکرائے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ صفحات انھوں ہی نے رفیق نقش صاحب کو دیے تھے۔

ہوا یہ تھا کہ یادوں کی برات کی کتابت اظہر عباس جعفری نے کی تھی۔ اس کے جو صفحات شائع نہیں ہوئے، وہ جوش صاحب نے انھیں دے دیے۔ اظہر صاحب شکیل عادل زادہ کے سب رنگ ڈائجسٹ میں کام کرتے تھے۔ انھوں نے وہ اوراق دفتر میں رکھے جو دوسرے کاغذات میں دب گئے اور اظہر صاحب سمجھے کہ کوئی اٹھاکر لے گیا۔ بہت دنوں عرصے بعد جب کسی نے کاغذات ٹٹولے تو وہ صفحات نکل آئے۔ تب تک اظہر صاحب ’سب رنگ‘ چھوڑ چکے تھے۔ شکیل عادل زادہ نے وہ مسودہ رفیق احمد نقش کو دے دیا۔ ادب کی امانت ادب کو واپس مل گئی۔

میں نے ان صفحات کو مرتب کیا اور وہ کتاب میرے دوست اقبال حیدر نے جوش لٹریری سوسائٹی کینیڈا کے زیر انتظام شائع کی۔ پھر بک کارنر جہلم کے امر شاہد نے اسے چھاپا۔ اس کے بعد میں نے یادوں کی برات کو دوبارہ مرتب کیا اور پہلے ایڈیشن کے لگ بھگ نصف صدی بعد اس سال پوری صحت کے ساتھ ویلکم بک پورٹ نے شائع کردیا۔

سوال: جوش صاحب زودگو شاعر تھے اور ان کے بیس سے زیادہ مجموعہ کلام شائع ہوئے۔ ان کی کلیات کیوں نہیں چھپی؟ کیا آپ اس سلسلے میں کوئی کام کر رہے ہیں؟

ڈاکٹر ہلال نقوی: میں نے جوش صاحب کی کلیات ترتیب دی ہے جو جلد شائع ہوجائے گی۔ کوئی ڈھائی ہزار صفحات ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ جوش صاحب کی پوری شاعری اس میں آجائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ جوش صاحب نے بے پناہ لکھا ہے۔ وہ پچھتر برس تک شعر کہتے رہے۔ پرانے اخبارات، پرانے رسائل سب کا سراغ لگانا آسان نہیں۔ ایک زمانے میں کرشن چندر نے یہ بات لکھی کہ جوش کا کلام سن کر ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں نے آزادی کے بارے میں بات کرنا سیکھا۔ یہ المیہ ہے کہ آج کے دور میں جوش صاحب کو اس طرح نہیں دیکھا جاتا۔

میرے پاس ان کی غیر مطبوعہ چیزیں تھیں جو میں نے کلیات میں شامل کردی ہیں۔ ان کے بہت زیادہ رباعیات تھیں۔ میں جب جوش کے انقلابی مرثیے ایڈٹ کررہا تھا تو کئی چیزیں ہم نے کیسٹ سے اتاریں۔ وہ کیسٹ ہمیں ہادی عسکری کے محمدی ٹیپ بینک سے ملے۔ ہادی عسکری حسن عسکری کے بیٹے ہیں جو خالقدینا ہال میں علامہ رشید ترابی کی مجالس کو ریکارڈ کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ہادی عسکری یہ کام کرتے ہیں۔ محمدی ٹیپ بینک میں جوش صاحب کی آواز میں ان کے پڑھے ہوئے مرثیے موجود تھے۔ ہمارے دوست انیس عباس رضوی نے ان کے نایاب مرثیے خاک کو کاغذ پر اتارا۔ جوش صاحب کہتے تھے کہ ان کا مرثیہ آگ کہیں نہیں مل رہا۔ وہ اسی طرح دریافت ہوا۔ بہت چیزیں ملیں لیکن حرف آخر سب سے طویل نظم ہے جس میں بیس ہزار اشعار ہیں، اس کے چند ٹکڑے کلیات میں شامل ہوں گے۔ وہ مکمل شائع نہیں ہوسکے گی۔

سوال: حرف آخر کیوں مکمل شائع نہیں ہوسکے گی؟

ڈاکٹر ہلال نقوی: یہ ایک طویل کہانی ہے۔ پروفیسر احتشام حسین ہمارے بڑے نقاد تھے۔ انھوں نے 1940 میں جوش صاحب سے کہا کہ آپ قادرالکلام اور زودگو شاعر ہیں، بہت رفتار سے شعر کہتے ہیں۔ دنیا کی تمام زبانوں میں طویل نظمیں ہیں لیکن اردو زبان میں نہیں ہے۔ آپ ایسے شاعر ہیں جو یہ کام کرسکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو لکھیں۔ جوش صاحب کی عمر اس وقت بیالیس تنتالیس سال تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi