درباری چمچے


ابھی میں چھوٹا ہی تھا کہ شربت کی بوتل پہ لکھا پایا کہ دو چائے کے چمچے دن میں تین بار، مگر یہ اتنی سنجیدہ بات نہیں تھی۔ بس اتنی سمجھ نہیں آئی کہ چائے والاچمچ کون سا ہوتا ہے۔ خیر کچھ ہی عرصہ بعد ایک اور چمچے کے بارے میں پتہ لگا اور یہ تھا کھانے کا چمچہ، تو ڈکشنری کھولنا ناگزیر ہوگیا کہ لفظ و معانی کی اتھل پتھل کا بار گراں میرا ننھا دماغ کیسے سہہ سکتا؟ تب آہستہ آہستہ پتہ لگا کہ چائے کا چمچہ چھوٹا اور کھانے کا تھوڑا بڑا ہوتا ہے بلکہ یہ مختلف سائز میں آتے ہیں چھوٹا، بڑا درمیانہ بہت بڑا وغیرہ۔
چمچے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ برتن کا پکوان پلیٹ میں منتقل کرتا ہے کبھی حسن خوبی سے تو کبھی یوں بچوں کی طرح کے دسترخوان پہ کھانا سالن اِدھر اُدھر بھی بکھرا دیتا ہے۔

دوسری خصوصیات یہ ہے کہ چمچے کا دماغ نہیں ہوتا لہذا آپ چمچے سے یہ امید نہیں رکھ سکتے کے وہ پکوان کی خصوصیات اور انفرادیت یا دیگر جزیات کی مطلوب تفصیلات سے آگاہ کرے۔
تیسری خصوصیات یہ ہے کہ جو کچھ پکوان برتن سے آپ کے پلیٹ میں چمچہ منتقل کرتا ہے اس پکوان کے ذائقے سے چمچہ خود آشنا نہیں ہوتا بلکہ جس خاتون خانہ کے ہاتھ میں ہوتا اسی کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ یہ ہر زبان میں بات کرتے ہیں یہ سمجھیں کہ دنیا کے ہر حصے میں چمچوں کی نسل پائی جاتی ہے۔

لیکن میرے پیارے قارئین کرام! مدعا یہ ہے کہ بندہ آپ کو ایک اور چمچے سے روشناس کرانا چاہتا ہے۔ اور یہ ہیں ”درباری چمچے“ ہاں جی ویسی ان کا بھی دماغ ہوتا نہیں ہے مگر بیچارے خود کو فادر آف ارسطو سمجھتے ہیں۔ کیونکہ
دل بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

تو ان کی نشانی یہ ہے کہ یہ ہر وقت بادشاہِ وقت، ایم این اے، ایم پی اے سردار و جاگیردار کی دم داری و خاطر داری کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ

سیاست میں دمادم اپنا چمچہ مارتے جائیں
اگرچہ ہار جائیں گے مگر للکارتے جائیں

ہاں جی! یہ وہ لوگ ہیں کہ کبھی بھی اپنے مالک کو ہار محسوس ہی نہیں کرواتے بھلے وہ ہر دفعہ ہار جائے۔ یہ مالک کی وہ خوشامد کرتے ہیں کہ مالک خود کو سکندر اعظم، اور سائرس اور امیر تیمور سمجتا ہے۔ یا کہ بل گیٹس اور وارن بفٹ۔

یہ مالک کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی کی جھوٹی تعریف اور جوتے چاٹی کی وہ انتہا کرتا ہے کہ مالک کی کالی کلوٹی بیوی بھی خود کو قلوپطرہ سمجنھے لگتی ہے۔
ان کی سب سے بڑی خاصیت ان کی منہ میں موجود فور جی اور فائیو جی کی طرح کام کرتی شے جسے انسان میں زبان کہتے ہیں پتہ نہیں چمچوں کی زبان میں اس اہم ہتھیار کا کیا نام؟ یہ مالک کی بلی کو شیر، بکری کو بیل بنا ڈالتے ہیں۔

ان کو سب سے زیادہ خوشی سو لوگوں کے درمیان بے عزت ہونے کے بعد ہوتی ہے کیونکہ یہ مالک کی توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ ان کو اس گالی کی کوئی پرواہ نہیں کے جس سے اقبال کے شاہنوں کا وجود ہی ڈھ جاتا ہے۔ اور کیوں ہو بھی کہ سستے مال میں عزت و غیرت کا مہنگا سوفٹ وئیر کون لگائے؟

امریکی صدر نکسن نے کہا تھا کہ اسے فیل اس کے چمچوں نے کروایا۔ دراصل یہ سب کی کہانی ہے لیکن عقل دیر سے اور مار کھانے کے بعد آتی ہے۔
کیونکہ جو بھی شخص اپنا عقل ان عقل سے پیدل چمچوں کے حوالے کرتا ہے تو اس کا خدا ہی حافظ ہے۔ چاہے وہ دارا ہو، اکبر یا علاؤ الدین خلجی۔ ہر سلطنت میں چمچے ہاتھ میں آگ لئے ہوئے وہ بندر ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے ساری جنگل کو راکھ بنا دیا۔ یقین نا آئے تو تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں۔

چمچوں کے اس دور میں چمچوں کی کمی نہیں بلکہ ہر شہر میں چمچوں کی ہیرامنڈی لگی ہوئی ہے ضرورت ہے فقط ایک عقل کے اندھے کی اور ہمارے لیڈران میں اور کچھ ہو نا ہو عقل نام کی شے بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ تبھی وہ چمچوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ جو انھیں پیسے کی دیوی کی پرستش میں مصروف کرواتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).