دیر ضرور لیکن۔۔۔ اندھیر نہیں؟


وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ہم منی لانڈرنگ کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی کرنے جا رہے ہیں۔ ڈالر اسمگل کرنے والے اپنے دن گننا شروع کر دیں لوٹی گئی دولت کی واپسی کے لئے مختلف ممالک کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس اعلان سے قبل وفاقی کابینہ نے آصف زرداری، فریال تالپور اور مراد علی شاہ سمیت منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث 172 افراد پر ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈالنے کی منظوری دے کر ان افراد کی لسٹ جاری کر دی ہے۔ اس اقدام سے قبل میاں نواز شریف کو احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید با مشقت کی سزا سنا کر گرفتار کر لیاہے۔ ملک میں جاری اس سفاک احتساب کے باعث اپوزیشن کے حلقوں میں یہ تاثر ابھرتا نظر آرہا ہے کہ احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ایک صفحہ پر متحد ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے بعض وزراء ببانگ دہل اداروں کی زبان میں اپوزیشن کو ڈاکو او چور کہہ کر جیل میں ڈالنے کی جو باتیں کر رہے ہیں یہ کسی طور بھی مناسب نہیں۔ اگر تحریک انصاف ریاستی اداروں کی خودمختاری پر یقین رکھتی ہے تو پھر ملک میں ہونے والے احتساب پر ایسے بیانات دے کر اداروں کی خودمختاری پر قدغن نہ لگائیں۔ اس عمل سے بلا شبہ عوامی حلقوں میں اپوزیشن کے اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ احتساب کے نام پر انتقامی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت اپنے منشور کے مطابق احتساب کے اداروں کو خود مختاری کی گرہ سے باندھ کر بے لاگ احتساب کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر یہ یقین رکھیں اس شفاف احتساب کا کریڈٹ عمران خان کی حکومت کو ہی جائے گا۔

یہ ملک اکہتر برس کا ہونے کے باوجود اپنی اساس کی تلاش میں سر پٹکتا شب و روز بتا رہا ہے لیکن بد قسمتی سے اسے امانت، دیانت اور شرافت کی پیکر لیڈر شپ میسر نہیں آئی۔ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کو چھان پھٹک کر دیکھ لیں ان معاشروں میں بسنے والے افراد قطعاً ایسی سیاسی جماعت کے لیڈر کو ووٹ اور سپورٹ نہیں کرتے جن کا کردار و عمل تضاد کا شکار ہو۔ یقیننا ایسے لیڈر کی حمایت کرنا آنیوالی نسل کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ معاشرے کے افراد ہمیشہ ایسی سیاسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں جس کا لیڈر امانت، دیانت اور شرافت کے میزان پر پورا اترتا ہو جو پختہ سوچ، نظریے اور ویژن کے ساتھ ٹھوس پروگرام رکھتا ہو۔ جب لوگ ایسی لیڈر شپ کا انتخاب کرتے ہیں تو پھر ایسے معاشروں کو ترقی و خوشحالی کے زینوں پر قدم رکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

المیہ یہ ہے کہ اس ملک کی جمہور کو جمہوریت کے نام پر لوٹا گیا ہے۔ ملک کا سیاسی منظر نامہ اس بات کا غماز ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں بڑی سیاسی جماعتیں چار دہائیوں سے عوام پر حکمران رہیں لیکن بنیادی مسائل آج بھی شدت کے ساتھ کوڑے کی صورت عوام کی کمر پر برس رہے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں نے عوام کو جمہوریت کی اصل روح کے ساتھ ڈلیور نہیں کیا۔ ان دونوں قومی سیاسی جماعتوں کے اندر خاندانی سیاست مورچہ زن ہے جہاں سیاسی شعور اور پارٹی پروگرام کے لئے ذہن سازی کے ادارے موجود نہیں ہیں۔ یاد رکھیں جہاں صرف مغرب کی تقلید کرتے ہوئے جمہوریت کے نام پر سیاسی تنبو کھڑے کر کے جمہوری دوکانداری چمکانے کی کوشش کی جائے جہاں اہلیت کا کوئی پیمانہ قائم نہ ہو وہاں کبھی جمہوری نہیں بلکہ آمریتی سوچ پروان چڑھتی ہے۔

جلا وطنی، سزائیں بھی ان دونوں جماعتوں کا قبلہ درست نہ کر سکیں عوام کی حالت قابل رحم ہی رہی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے قائدین کے لئے گو یہ حالات نئے نہیں ہیں لیکن اس سے قبل ایسے اعصاب شکن حالات ان دونوں جماعتوں کے قائدین نے نہیں دیکھے۔ ڈیل یا ڈھیل نظر نہیں آرہی حالات کی دستک تو پیش منظر کو واضح کرتی چلی جا رہی ہے نواز شریف اور آصف زرداری کو ان حالات میں کوئی ایسی تدبیر نظر نہیں آرہی جہاں کچھ بہتر سجھائی دیتا ہو۔

اگر دونوں جماعتوں کے قائدین نے اقتدار کی بجائے جمہوری اقدار کو پروان چڑھایا ہوتا تو آج حالات ان کے لئے اتنے کٹھن نہ ہوتے۔ دونوں جماعتیں اپنے اپنے دور اقتدار میں کوئی اچھا ہسپتال نہ بنا سکیں جہاں وہ اپنا علاج ہی کروا سکیں ملک میں ایسی سازگار فضا نہ قائم کر سکے کہ سرحد پار کاروبار اور جائیدادیں بنانے کی بجائے اپنے ملک کی معشیت کو مضبوط کر سکتے۔

یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں عوام کے لئے تعلیم و صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ جہاں روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ غریب کے منہ سے نوالہ تک چھین رہا ہے۔ جہاں عوام کا حکومتی معاملات تک رسائی کا در بند کر دیا گیا ہو۔ جہاں مہنگائی، بیروزگاری کا عفریت اور دہشت و وحشت کے سائے میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے اور خودکش حملوں کا قہر عوام کو بے دریغ نگل رہا ہے۔ جہاں حقدار دربدر ہو اقرباء پروری کو فروغ دیا جائے۔ جہاں انصاف کے دروازے مظلوم کے لئے بند ہو جائیں جہاں خودسوزیاں اور خود کشیاں عوام کے لیکھ میں لکھ دی جائیں۔

تو ان حالات کے سائے میں خواجہ سعد رفیق کا پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر دیا گیا بیان سماعتوں سے ٹکرائے کہ اگر آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا تو ملک میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص طوفان آجائے گا اور عوام میں ہیجانی کیفیت کا موجب بنے گا۔ سعد رفیق اس آصف زرداری کے حق میں اذان دے رہے ہیں جن کے بارے میں گذشتہ سال اسی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر ان کا فرمانا تھا کہ آصف زرداری صاحب ہمیں بتائیں ہم آپ کا پیٹ کیسے بھریں۔

آج دونوں جماعتوں کے قائدین اور راہنما اس احتساب کو انتقام کا نام دے رہے ہیں۔ پاک فوج، ججز اور حکومت کے خلاف جو اپوزیشن قائدین کی جانب سے زہر افشانی کی جا رہی ہے۔ نواز، شہباز کی گرفتاری اور آصف زرداری کی بوکھلاہٹ سے محسوس ہو رہا ہے جیسے اب ان کو حسب روایت کوئی این آر او نہیں ملنے والامکافات عمل اپنی چال چل چکا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں فرینڈلی سیاست کے ذریعے عوام کے وسائل اور پیسے پر شب خون مارنے کا سلسلہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔

وقت کی دستک تو یہ بتا رہی کہ دونوں جماعتوں کے قائدین کے مستقبل کے فیصلے طے ہو چکے ہیں۔ کہیں بھی ملک میں سندھ سمیت عوام میں ہیجانی کیفیت کی لہر دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی کوئی تحریک ان کو اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے جنم لیتی دکھائی دیتی ہے۔ ان حالات میں جب عوام کے وسائل اور قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر بیرون ممالک جائیدادیں اور کاروبار کو تقویت دی گئی ہو۔ اور اپنے گریبان تک آنچ پہنچنے پر ایسے بیان دیے جائیں کہ گرفتاریاں عوام میں اضطراب پیدا کر سکتی ہیں تو ایسا کہنا اور سمجھنا عوام کی سیاسی فراست اور اخلاقی حالت کو داغدار کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایسے پاکستان کے مستقبل کا نقشہ تیار کیا جا رہا ہے جہاں نہ ملکی سلامتی پر کوئی آنچ آئے گی نہ ہی جمہوریت اور مذہب کو کوئی خطرہ لا حق ہوگا۔ بس دیر ضرور ہے لیکن اندھیر نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).