شمس الرحمن فاروقی کی شعری کلیات


’’مجلسِ آفاق میں پروانہ ساں‘‘ شمس الرحمن فاروقی کی شعری کلیات ہے۔ کتنا اچھا نام ہے۔ شاعر پروانہ ہی تو ہوتا ہے جو اپنی ایک ہی دفعہ ملنے والی زندگی کو کسی کے نام کردیتا ہے۔ نہ سُود کی فکر نہ زیاں کی پروا۔ اور وہ پروانہ ہی کیا جس کے پاس شمع سے محبت کی کوئی نشانی نہ ہو ۔ شعر نشانیاں ہی توہوتے ہیں جو آرام سے جلنے والے آئندگاں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔ اور وہ ہر نشانی میں سے اپنے اپنے حصے کے زخم کی چبھن محسو س کرتے رہتے ہیں۔

شمس الرحمن فاروقی نے اردو کی کم و بیش ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ شعر، افسانہ، ناول، تنقید، ترجمہ، تحقیق، لغت نویسی، ادارت غرض ادب کی جملہ اصناف میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی اتنے کام کیسے کر سکتا ہے۔ فاروقی نے یہ سارے کام کیے اور خوبی یہ ہے کہ وہ اتنی متنوع اصناف کے ساتھ معاملہ کرنے میں ناکام نہیں ہوئے۔ اُن کا اظہار ہر صنف کے تقاضوں کی تکمیل کرتا نظرآتا ہے۔ وہ جب ’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ جیسا ناول لکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ اس کے علاوہ اور کیا لکھتے ہوں گے یعنی وہ ہیں ہی ناول نویس۔ یہی کیفیت افسانہ، تنقید، ترجمہ، لغت اورتحقیق کی ہے۔ ایک صنف کے اظہار کی پرچھائیاں دوسری صنف پر نہیں پڑتیں۔ وہ اظہار میں ہر صنف میں خود مکتف ہیں۔

جہاں تک شعر کا معاملہ ہے تو یہ اظہار نثر سے ذرا مختلف ہے۔ اور خاص طور پر روایت میں علما کے قلم سے نکلنے والی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو اس میں عالم کے سامنے شاعر ہار مانتا نظرآتا ہے یعنی علم سطح پر نظرآتا ہے یا اس کا دوسرا پہلو دیکھیں تو شاعر جب عالمانہ حدود میں قدم رکھتا ہے تو شاعری علمی تقاضوں پر غالب محسوس ہوتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے ہاں صورت حال مختلف ہے۔ ہر تخلیقی و تنقیدی علاقہ اپنی اپنی سطح پر اپنے ہونے کی گواہی دیتا نظر آتا ہے۔ اس کلیات میں شاعری کے کئی ذائقے موجود ہیں۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ، بچوں کا ادب، تراجم اور ہر صنف کوشاعر نبھاتا نظرآتا ہے۔ اس عمل میں شاعر کی عمر بھر کی وابستگیوں کے نشان ملتے ہیں۔ کلاسیکی ادب سے لگاؤ، داستانی ادب سے عشق، میر سے محبت، غالب سے جڑت غرض کلاسیکی شاعری کا پورا طیف اس شاعری کے حصے میں آیا ہے۔ قاری اگر غزل کی طویل روایت کے نقوش کو ایک جگہ دیکھنا چاہتا ہے تو اُسے اس شاعری کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس شاعری کے موضوعات یک سطحی ہر گز نہیں ۔ پرت در پرت ہیں۔ شعر فوری طورپر قاری پر نہیں کھلتا۔ یہ اپنی سطح پر ایسی لیاقت ہے جو کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ ایک تہہ داری اس تخلیق کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسا بھی نہیں کہ شاعر نے خود کو کلاسیکی شاعری کے جلو میں گم کر دیا ہو۔ جہاں جہاں معاملاتِ دل آئے ہیں وہیں شعر کے لہجے میں چمک آتی نظرآتی ہے۔ اس روشنی کو ن م راشد اور احمد مشتاق نے اپنی تحریروں میں دکھایا ہے۔

شمس الرحمن فاروقی اپنی شاعری میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے خود کو باقی شاعروں سے منفرد رکھنا ہے۔ اس التزام میں یہ خطرہ رہتا ہے کہ آدمی آورد کا شکار ہوکر بے لطفی پید ا کرنے کا موجب نہ بن جائے۔ اس کتاب میں یہ مواقع کم کم آتے ہیں۔ جن شاعروں کی تخلیقات کی رفاقت میں شاعر کی زندگی گزری ہے یہ اُس کا فیض ہے۔

اب ریت ہو چلی ہے پچھلے برس کی بارش

بادل نے راہ بدلی پھر گھوم کر نہ دیکھا

اس دل کے دشت شورہ پہ ٹکتا نہیں ہے کچھ

حیراں ہوں تیرے قصر یہاں کس طرح بنے

رگ میں نشتر کر گئی شام کی ٹیڑھی ہوا

پھول نے زیر زمیں اپنا بستر کر لیا

ایک طرف دل اور دوسری سمت منظر اور ان دونوں کے درمیان میں ایک مبہوت انسان۔ سوچتا ہوا۔ منظروں سے ہم کلام ہوتا ہوا۔ فطرت کو اپنے باطن میں جگہ دیتا ہوا۔ نہ تکرار، نہ شور۔ من مانی شرطوں سے زندگی کا جوا کھیلتا ہوا۔ ایک شاعر کی دنیا ایسی ہی ہوتی ہے۔ مادیت کا دخل اس میں کم ہوتا ہے۔ فاروقی کے اشعار میں تعقل پسندی ضرور ہے لیکن یہ تعقل بہت کم صورتوں میں بوجھل ہوتا ہے۔ کوئی منزل، کوئی نقش، کوئی خیال ایسا آ جاتا ہے کہ شعر کو گوارا بنا دیتا ہے۔ یہ شاعری کئی جگہوں پر بالکل نئی نظر آتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ شاعر اپنے لیے اظہارِ بیان میں انفرادیت کا سامان کر رہا ہے۔ اس سے اس شاعری میں انفرادیت کا احساس ہوتا ہے۔ مگر یہ انفرادیت، انفرادیتِ محض نہیں اس میں کئی جگہوں پر شاعر خرچ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اس صرفے میں شاعر کا خون شامل ہے۔

تری ساعتِ دید کے مژدۂ مرگ

ابھی رات پہ ٹل گئی ہے کوئی چیز

ہجر نصیب لوگ دن تو کسی نہ کسی سہارے کاٹ لیتے ہیں۔ مشکل اس وقت آن پڑتی ہے جب رات اپنا دامن پھیلاتی ہے۔ اس صورت میں تنہائی، ہجر اور سناٹا ایسی تکون بناتے ہیں جس میں پل پل جینے اور پل پل مرنے کے سارے سامان چھپے ہوتے ہیں۔ شاعر کی جہاں یہ خوبی ہوتی کہ وہ نامعلوم کو معلوم بنا دیتا ہے وہیں یہ کیفیت بھی ہوتی ہے کہ وہ دیکھے ہوئے کوان دیکھا بنا دینے پر قادر ہے۔ اور قاری اس فضا میں دھیان کی مدد سے اترتا چلا جاتا ہے۔ لازم نہیں کہ کسی کا ہر شعر ایسا ہو کہ اس پر دیوان نثار کیے جا سکیں۔ شاعری تو زندگی گزارنے کے سلیقے کا نام ہے اور شمس الرحمٰن فاروقی کے حصے میں جو سلیقہ آیا ہے اس میں چھچھلے جذبات نہیں بلکہ خیال ایک مہذب کیفیت میں ڈھل کر سامنے آتا ہے۔ وہ قاری سے ذہنی ریاضت کرائے بغیر اس کے احاطۂ خیال میں نہیں آتے۔

سبز ہے جو کچھ رگ و ریشہ مجھ میں

تجھ سے ہے کچھ نہیں اپنا مجھ میں

جی ایسا ہوتا ہے۔ اپنا، اپنا نہیں رہتا۔ وہ سپردگی ہی کیا جس میں اعصاب اپنے توازن میں قائم رہیں۔ اپنا وجود اپنی ملکیت میں رہے۔ وہ دیوانہ، دیوانہ ہی کیا جس کے قدم چلتے ہوئے ڈگمگاتے نہ ہوں۔ دیوانہ اسی صورت میں دیوانہ ہے جب وہ ثابت نہیں ہے۔ یہ ایک الگ سبق ہے۔ اس کو پڑھنے والے شدبد بھول جاتے ہیں۔ فاروقی کی طویل ادبی زندگی لگن کی داستان ہے۔ لگن بنا اتنا سنہرا پن نہیں آتا۔ ان کی تحریروں میں جہاں جہاں یہ سنہرا پن آیا ہے، جس جس جگہ رگ و ریشے میں سبزہ ہے، یہ کسی کی نظر کا فیض ہے اور اسی فیضان کا ظہور ہے کہ تخلیق کار اتنی طویل ادبی زندگی بغیر اُکتائے گزارنے میں کامیاب رہا۔ اس کیفیت سے متعلق صرف سوچا ہی جا سکتا ہے۔ یہ ہوش کی دنیا سے ماورا بات ہے۔

یہ کلیات بھارت کے علاوہ ’رنگ ادب‘ کراچی سے بھی چھپ چکا ہے۔

(اشاعت اول : 2 جنوری 2019)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).