ملک حاکمین خان مرحوم کی سیاسی سرگزشت


ملک حاکمین خان کی کہانی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عروج و زوال کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں ہمیں 1970 میں روایتی سیاسی جماعتوں اور رو ایتی سیاسی اشرافیہ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی جیسی نئی سیاسی جماعت کی حیرت انگیز طور پر کامیابی حاصل کرنے کے اسباب آشکار ہوتے ہیں۔ کیسے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پی پی پی، پنجاب کے عام آدمی اور پسے ہوئے طبقات کی نمائندہ جماعت بن گئی؟ جب کہ اُس وقت سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندی، جوڑ، توڑ اور جاگیردارانہ تسلط کی بنا پر سیاست میں عام آدمی کے لئے داخلے کے راستے محدود تھے اور یوں حکومت میں تبدیلی سیاسی کلاس میں تبدیلی کا باعث نہ بنتی تھی۔ 1970 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار کے ایوانوں میں عام آدمی کی رسائی ممکن ہوئی۔

اٹک ( کیمبلپور) جو کہ راولپنڈی ڈویژن کا ایک اہم ضلع ہے۔ ایک جانب تو پسماندگی، غربت اور جاگیردارانہ تسلط کا شکار ہے تو دوسری طرف اس پٹی کو کہ جس میں اٹک (کیمبلپور) ، تلہ گنگ، چکوال اورپنڈ دادن خان شامل ہیں، انگریز سلطنت کی پالیسیوں کی بدولت سماجی اور معاشی ترقی سے محروم رکھا گیا۔ جس کی ایک بڑی وجہ برٹش انڈین آرمی میں فوجی بھرتی تھی۔ لہٰذا تقسیم ہند سے پہلے اس علاقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں، سکھوں اور ہندؤں کی ایک بڑی تعداد غربت اور افلاس سے تنگ آ کر فوج میں بھرتی ہوتی رہی۔

دوسری جانب برطانیہ سے وفاداری کے صلے میں جاگیریں اور خطابات حاصل کرنے والے نمایاں سیاسی خاندان یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ سر سکندر حیات خان سے لے کر ملکان کھنڈا، شمس آباد کے ملک اور پیرآف مکھڈ وغیرہ اس ضلع کی سیاسی اشرافیہ کہلائیں۔ ان تمام سیاسی خاندانوں کی رشتہ داریاں کئی اضلاع تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جن میں نواب آف کالا باغ، سرداران چکوال، سرداران ٹمن تلہ گنگ، نواب آف بہاولپور اور ملتان کے گیلانی خاندان کئی رشتوں اور حوالوں سے بندھے ہوئے ہیں۔

اس ماحول میں ملک حاکمین خان اور ان جیسے نوجوانوں کا ضلع بھر کی سطح پر ابھرنا اور پھر قومی سطح پر ایک سیاسی مقام بنانا ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا اظہار تھا۔ نواب آف کالا باغ جو کہ جنرل ایوب کے سیاسی رفیق اور گورنر تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب آمریت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اور پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو میانوالی سے لے کر اٹک (کیمبلپور) تک کے اضلاع ذہنی غلامی اور جاگیردارانہ تسلط کے پیش نظر پیپلز پارٹی میں شمولیت سے کتراتے تھے۔

ایسے میں ملک حاکمین خان جیسے کارکنوں کا عوام میں ان جاگیرداروں کا خوف ختم کرنا بلا شبہ ایک دلیرانہ اقدام تھا۔ کتاب میں اس حوالے سے کئی واقعات درج ہیں جو صرف اٹک ہی نہیں بلکہ پورے پنجاب کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ کیسے پولیس اور پٹواری کے ذریعے مقامی اشرافیہ سیاسی مخالفین اور غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیتی ہے۔

پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ملک حاکمین خان نے بحیثیت صوبائی وزیر جیل، قیدیوں کی تربیت اور اصلاحات کے لئے انتھک کام کیا۔ کم آمدنی والے متوسط طبقے کی رہائشی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ہاؤسنگ سوسائٹیاں قا ئم کیں۔ ملک حاکمین خان جیسے سیاسی راہنما پارٹی میں جاگیرداروں کی شمولیت پر تحفظات رکھتے تھے۔ یہ جاگیردار ٹولہ ہمیشہ سے اقتدار کا پجاری اور مخصوص مفادات کے پیش نظر گرگٹ کی طرح سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کو عملیت پسندی کا نام دیتا تھا۔

وقت نے ثابت کیا کہ جب پیپلز پارٹی پر کڑا وقت آیا اور ملک پر آمریت کے سائے دراز ہوتے چلے گئے توایک ایک کر کے یہ سیاسی اشرافیہ پیپلز پارٹی چھوڑکر ضیأ آمریت کا حصہ بن گئی۔ جبکہ جنرل ضیأ آمریت کے دوران ملک حاکمین وفا کا پہاڑ اورثابت قدمی کی مثال بنے رہے۔ مصلحت پسندی اور سیاسی وفاداری تبدیل کرنے جیسے الفاظ ملک حاکمین خان کی ڈکشنری میں موجود ہی نہیں۔ لہٰذا نہ توانہوں نے جلا وطنی کی راہ اختیار کی نہ ہی کسی مصلحت کے پیش نظر سیاسی گوشہ نشینی اختیار کی بلکہ مسلسل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر ایم آر ڈی میں نہ صرف متحرک کردار ادا کیا بلکہ دیگر قومی قائدین سے رابطہ کے پُل کا کردار ادا کیا۔ اور یوں ملک حاکمین خان کا شمار قومی قائدین میں ہونے لگا۔

1988 میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں جمہوری صبح طلوع ہوئی اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو جنرل ضیا کی باقیات روز اوّل سے محلاتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوگئی۔

مقتدر حلقے عوام کی حاکمیت اور پارلیمانی طرز جمہوریت کو اپنے مخصوس مفادات کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا ایک منظم سازش ترتیب دی گئی۔ یہ سارا قصہ اب صیغۂ راز نہیں رہا بلکہ اس سازش کی تحقیقات پر سپریم کورٹ آف پاکستان اپنا تفصیلی فیصلہ اصغر خان کیس کے نتیجے میں دے چکی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اس میں ملوث کرداروں کو سزا دے سکے۔

منصوبہ یہ تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک قرار دیا جائے۔ ان کی قومی ساکھ کو ضرب پہنچائی جائے لہٰذا خفیہ ایجنسیوں نے سیاست میں حصہ لینے کی روایت ختم نہ کی بلکہ پارٹی کے اہم راہنماؤں اور اراکین قومی اسمبلی کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے قومی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ دوسری جانب میڈیا کے اندر منظم انداز سے ایک تحریک چلائی گئی۔ میڈیا ٹرائل شروع ہوا اور رائے عامہ کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ سپریم کورٹ میں صحافت کے بڑے ناموں کی بھی فہرست پیش کی گئی۔ جنہیں اس مہم میں رقم دی گئی تھی۔

افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، دنیا میں جمہوری جدوجہد کی علامت محترمہ بے نظیر بھٹو کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرنے اور بیرونی دنیا میں ان کے مقام و مرتبے کی مدد سے پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے ان کے خلاف ایک سازش تیار کی گئی۔ یقیناً محلاتی سازش کو سیاسی حکمت عملی سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو بیوروکریسی کے بجائے اپنی سیاسی ٹیم پر بھروسا کرنے کی عادی تھیں۔ لہٰذا ملک حاکمین خان نے نہ صرف یہ کہ اس سازش کو بر وقت بھانپا بلکہ اس کا حصہ بننے سے انکار کر تے ہوئے اسے مؤثر حکمت عملی سے ناکام بنایا۔ ایرٔ مارشل (ر) اصغر خان اور نور خان 1965 کی جنگ کے قومی ہیرو ہیں۔ ان کے بے داغ ماضی اور پیشہ ورانہ صلا حیتوں کے دشمن بھی معترف ہیں۔

لہٰذا محترمہ بے نظیر بھٹو سے اصغر خان کی ملاقات اور ملک حاکمین خان کا اس میں کردار کتاب کا حاصل ہے۔ آئی جے آئی ( IJI ) نامی اتحاد کے مقابلے میں اصغر خان اور نور خان محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے اور یوں یہ سازش اپنی موت آپ مر گئی۔ نہ صرف یہ سازش سیاسی میدان میں شکست سے دوچار ہوئی بلکہ ایرٔ مارشل (ر) اصغر خان اسے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں بھی لے گئے اور یوں عدلیہ کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں گھناؤنی سازش کرنے والوں کے لئے عبرت ناک مثال بن گیا۔

ملک حاکمین خان کا سیاسی کردارترقی پذیر ملکوں میں جمہوریت کو درپیش مشکلات اور سازشوں سے نکلنے کا نسخۂ کیمیا پیش کرتا ہے۔ جس کے تحت جمہوریت اور عوام کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو عوام ہی کے تعاون سے خارزار سیاست میں شکست سے دو چار کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).