عمران و واصف اب نہ رہے!


عمران اور واصف یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے۔ سردی کا موسم کیا شروع ہوا کہ زمیں چاند کی طرح چمکنے لگی۔ ساری رات برف پورے آب و تاب سے زمیں پر پڑتی رہی پھر جب صبح سویرے سورج کی کرنیں اِس زمیں پڑتی ہیں تو اِس زمیں کی چمک سورج کی چمک سے بڑھ جاتی ہے۔ اِس مقام کو دیکھنے سے دل و دماغ میں جس حسین کیفیت کا احساس پیدا ہوتا ہے وہ احساس شاید کہ کوئی اور مقام دیکھنے سے پیدا ہو۔

عمران نے یہ حسیں نظارا دیکھا اور سوچا کیوں نہ یہی نظارہ ہم کسی بلندی پہ جا کر دیکھیں۔ آزاد کشمیر میں سب سے حسین مقام ”تولی پیر“ جس کی بلندی اور خوبصورتی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ پاکستان اور بیرونی ممالک سے سیاح اِس مقام پہ سیاحت کے لیے دوڑے چلے آتے ہیں۔ عمران نے اِسی مقام ”تولی پیر“ کا خیا ل کیا اور اپنے تین یونیورسٹی کے دوستوں کو کال کی اور انہیں اپنے خیال سے آگاہ کیا۔ دوستوں نے فوراً رضا مندی دی اور کہا ہم تقریباً گھنٹے تک آپ کے پاس پہنچتے ہیں۔

ٹھیک ایک گھنٹے بعد عمران کے تینوں دوست مقررہ جگہ پر پہنچے۔ سلامتی اور مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد چاروں دوست گاڑی میں بیٹھے اور تولی پیر کے طرف چل پڑے۔ ”کب تھا معلوم اسے کہ اس کی مسکان پر، اس کی اپنی ہی، زندگی قربان ہو بیٹھے گی“ ( غیاث سحاب) سفر شروع ہوا، منزل تک پہنچنے کے لیے ٹھیک سوا گھنٹہ مسلسل سفر کرنا تھا۔ ایسے خوش تھے چاروں یار جیسے پہلے وہ کبھی نہ ہوئے ہوں۔ عمران نے دوستوں سے کہا، یارو! آج معلوم نہیں میں کیوں خوش ہوں؟ خوشی بھی اتنی جس کا اندازہ ممکن نہیں اور اِس خوشی کی وجہ بھی نہیں معلوم۔ پتا نہیں یہ انجانی خوشی مجھے کیوں آ کر مل رہی ہے؟

باقی دوستوں نے بھی جواباً کچھ اسی طرح کے الفاظ کہے کہ واقعی ہمیں بھی بہت خوشی محسوس ہو رہی پر یہ خوشی کیوں ہو رہی؟ اِس کی وجہ معلوم نہیں۔ واصف حفیظ، عمران سے کہنے لگا۔ ارے یار! خدا کرے ایسا نہ ہو۔ یونہی مجھے خیال آیا کہ جب بہت زیادہ خوشی ہو تو غمی اُ س خوشی کے آس پاس ہی ہوتی ہے بلکہ بہت پاس ہوتی ہے۔

عمران : ارے یار تو بھی نا۔ ، پتا نہیں کیا کیا سوچتا رہتا ہے۔ خدا خیر کرے۔ عمران : یارو آج کس قدر حسیں موسم ہے۔ زمیں و آسماں کتنے خوبصورت نظر آ رہے۔ سو چو کہ تو لی پیر سے یہ نظارے کیسے ہوں گے ۔ واصف عمران کی بات پوری ہونے سے پہلے بے ساختہ بول پڑا، ہائے زندگی کتنی حسیں ہے۔ عمران : ارے واصف یہی تو میں بھی کہنے والاتھا۔ تم نے تو میرے منہ سے بات چھین لی۔ واصف : کیا اتفاق ہے آج جیسا مجھے محسوس ہو رہا ویسا ہی تمہیں بھی ہو رہا۔

جیسا میں سوچ رہا ویسا تم بھی سوچ رہے۔ ارے عمران کوئی تو بات ہے ہم دونوں میں۔ عمران : ہم چاروں یاروں کو خدا سلامت رکھے۔ یونہی خوش رکھے۔ ایک دوسرے کی محبت ہمیشہ ہمارے دلوں میں قائم رہے۔ باقی تینوں دوستوں نے بیک آواز میں کہا۔ آمین، آمین، آمین عمران نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا۔ یارو! اب تیار ہو جاؤ اور سامان بھی تیار کر لوں، ٹھیک ہم 20 منٹ بعد تولی پیر پہنچ جائیں گے۔ اتنے میں پھر واصف نے کہا، ارے آج تو یہ دنیا مجھے جنت لگ رہی ہے۔ کیوں نہ میں اِس جنت کو ٹھیک سے دیکھ لوں۔ جونہی واصف نے چلتی گاڑی کے دروازے سے منہ باہر نکالا گاڑی کھائی کی طرف الٹ گئی۔ آہ کہ واصف اور عمران خدا کو پیارے ہو گئے اور جو دو دوست بچے انہیں بھی زندگی کی کوئی خبر نہیں۔ عمران اور واصف کی آخری سانس باقی تھی کہ زندگی کو مخاطب کیا اور کہا :

زندگی تو ایسے انتقام لے گی
کہ چھین مجھ سے مرا نام لے گی
وہ بھی اُس وقت
کہ جب خوشیاں مجھ پہ مہربان تھیں
اور غمیاں بھی قدر دان تھیں
ہاں اُسی وقت! جب میں نے اپنی زباں سے کہا تھا
”کہ ہائے زندگی کتنی حسیں ہے“
تب میرے یار مسکرائے تھے
آہ! کیسی بستی میں ہم آئے تھے
جہاں نہ ساتھ ہمارے اپنے بھی سائے تھے
جہاں سے لوٹ آنا مشکل تھا
ہم نے لوٹ آنے کی تو کوشش کی
مگر زندگی نے ہمیں آنے نہ دیا
کتنی ظالم تھی! ہاں زندگی!
کہ ہم کو اپنی منزل پہ بھی جانے نہ دیا
بیچ رستے میں زندگی نے
ہم سے ہماری زندگی چھین لی!
اب چمن میں آہ و فغاں سن لے
چیخوں، سسکیوں اور آہوں کی زباں سن لے
بعد میرے
سارے چمن کی فضا ماتم کیے ہے
اور
آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب ہے امڈ آیا
تم دیکھنا کہ یہ سیلاب
سارے چمن کو لے ڈوبے گا
پھر تیری چیخوں، سسکیوں و آہوں کو کون سنے گا
پھر نہ کوئی کہے گا
”کہ ہائے زندگی کتنی حسیں ہے“
”کہ ہائے زندگی کتنی حسیں ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).