برف کی چادر میلی ہے


بابو کو بازار تک چلتے دیکھنے کا سلسلہ اس وقت تک چلا جب تک میں نے اپنی گاڑی نہیں لی تھی۔ اب ایسا تھا کہ گاہے میں اور بابو ایک وقت میں نکلتے۔  میں گاڑی روکتا۔ بابو پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ جاتا۔ میں اسے اس کے متعین ہوٹل کے سامنے اتار دیتا۔ بلا مبالغہ ایسے درجنوں واقعات میں بابو نے کبھی میرے کسی سوال کا جواب نہ دیا۔ وہ بول سکتا تھا۔ اسے سمجھ تھی کہ چرس پیسوں سے خریدی جاتی ہے۔  چائے اسے ہوٹل والے مفت پلاتے تھے۔

بہت بار ایسا بھی ہوا کہ وہ گاڑی سے اتر کر میری کھڑکی کی جانب آ کر کھڑا ہو جاتا۔ بغیر کچھ کہے، بغیر کسی تقاضے کے کھڑا رہتا۔ شروع میں تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ بابو ایسا کیوں کرتا ہے۔  میں نے بارہا پوچھا کہ بابو کچھ چاہیے؟ مگر اس کے چہرے پر کسی نئی دلہن کی طرح کئی شرمیلے رنگ آکر گزر جاتے جو صرف محسوس کیے جا سکتے تھے۔  بابو منہ سے کچھ نہ کہتا۔ پھر ایک دن اچانک مجھے احساس ہوا کہ بابو کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ ایسا کرتا ہے۔

بابو جب بھی ایسا کرتا میں اسے کچھ پیسے دے دیتا تھا۔ کبھی کسی اخلاقی اصول کے کلیشے نے میرے ضمیر کے کچوکے نہیں لگائے کہ نشے کے لئے پیسے نہیں دینے چاہیں۔  ادھر بابو اتنا اصول پسند تھا کہ جس دن اس کے پاس دو سیگریٹ کے پیسے پورے ہوتے وہ کبھی گاڑی سے اتر کر رکتا نہیں تھا۔ سالوں کی رفاقت میں بس ایک ہی بار میں نے بابو کو بولتے اور روتے دیکھا تھا۔

یہ بچپن ہی کے دن تھے۔  ہمارے ہاں مذہبی اور ثقافتی اساطیر میں جانوروں کے بارے میں عجیب و غریب دیومالائی کہانیاں وجود رکھتی ہیں۔  انہیں میں ایک کہانی ایک میدا نی چھپکلی سے متعلق ہے۔  اس میدانی چھپکلی کے نر اور مادہ کی جسامت میں بہت واضح فرق ہوتا ہے۔  نر کی جسامت موٹی ہوتی ہے اور اس کا سر اٹھا ہوتا ہے۔  وہ جب رکتا ہے تو سر کو ایک خاص تائیدی انداز میں جنبش دیتا رہتاہے۔  مادہ کی جسامت پتلی ہوتی ہے اور اس کا سرکم اٹھا ہوتا ہے۔

میں نے کئی بار دقت نظر سے دیکھا ہے کہ مادہ بھی سر کو اسی انداز میں مگر بہت خفیف سی جنبش دیتی ہے۔  چونکہ اس کی گردن اتنی اٹھی نہیں ہوتی اس لئے اس جنبش کو واضح محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اس نر کے بارے میں روایت یہ مشہور ہے کہ جب پیغمبر اسلام ﷺ رات کی تاریکی میں مکہ سے نکل کر غار ثور میں پناہ گزین ہوئے اور قریش مکہ ان کو تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچے تو غار کے دہانے پر مکڑی نے ایک جالا بن لیا تھا تاکہ غار پرانا محسوس ہو۔

اسی پس منظر میں ہمارے ہاں مائیں اب بھی مکڑی کو گھر میں پانے کے بعد مارتی نہیں بلکہ باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہیں۔  جبکہ اس نر چھپکلی نے غار کے دہانے پر کھڑے ہو کر اسی تائیدی انداز میں سر ہلایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قریش مکہ کو بتا سکے کہ پیغمبرﷺ یہیں موجود ہیں۔  اس دیومالائی پس منظر کے ساتھ ہمارے ہاں لوگ نر میدانی چھپکلی کو مارنا کار ثواب سمجھتے ہیں اور مارتے بھی اس انداز میں کہ اس کا سر خوب کچلنا ہے۔  مادہ چھپکلی کو سر کی جنبش محسوس نہ کرنے پر عام معافی ملی ہوئی ہوتی ہے۔

گرمیوں میں چند بچے اور بڑے لڑکے باقاعدہ ٹولیاں بنا کر چھپکلی کے خلاف جہاد کے لئے نکلتے تھے۔  وہ ایک ایسا جہادی دن تھا جب درجنوں بچے شکار میں مصروف تھے کہ بابو آتا ہوا دکھائی دیا۔ قدرے بڑے بچوں نے بابو کو تنگ کرنا شروع کیا۔ ساتھ بچے بھی مل گئے۔  بابو نے کئی بار ہاتھ میں پکڑا پتھر سر سے اوپر اٹھایا مگر مارا کسی کو نہیں۔  میں دور بیٹھا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ من ہی من کہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ آج بابو کسی بڑے لڑکے کا سر پھاڑ دے گا۔

مگر بابو نے پتھر کسی کو نہیں مارا اور لڑکوں نے بابو کو گھیرے میں لے کر بہت دیر تک تنگکیے رکھا۔ تب ہی گاؤں کے ایک برزگ کی گاڑی وہاں رکی اور بچوں کو ڈانٹا۔ سب بچے گھروں کو بھاگ گئے۔  بابو بہت دیر گھٹنوں میں سر دبائے بیٹھا رہا۔ پھر بابو اٹھا اور زمین پر پتھر زور سے دے مارا۔ اس کے بعد فوراً بیٹھ گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ بابو کی آواز بلند ہو گئی۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رونا شروع ہوا۔ میں خوف، تذبذب اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے زیر اثر بابو کے قریب گیا۔

بابو نے میری آہٹ محسوس کی تو نگاہیں اٹھا کر بہت ملتجیانہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور زمین کی جانب اشارہ کر کے بتایا کہ میں نے چھپکلی مار دی۔ اس نے کہا، ”ہائے ہائے ایک زندہ حیوان کو مار دیا“۔  اور پھر اس ساتھ ہی اس کے رونے کی چیخ بلند ہوتی۔ بابو بہت دیر روتا رہا۔ بابو کو روتا دیکھ کر میں نے بھی غیر ارادی طور پر اس کے ساتھ رونا شروع کر دیا۔ یہ غالبا ہماری سالوں پر مشتمل خاموش دوستی کا آغاز تھا۔

چند سال پہلے جب مجھے صبح اسی برف کا انتظار تھا گو آسمان میں بادلوں کا کوئی ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ میں گاؤں سے باہر اسی مقام پر بیٹھا تھاجب مسجد کے لاوڈ اسپیکر پر بابو کی موت کا اعلان سنا۔ مجھے اتنا ہی دکھ ہوا تھا جتنا بابو کو چھپکلی مارنے کا ہوا تھا۔ مسجد پہنچا تو معلوم ہوا کہ سڑک پر چلتی کسی گاڑی نے بابو کا جسم کچل دیا مگر نہ گاڑی رکی اور نہ کسی نے ڈرائیور کو دیکھا۔

کل رات میں نے بابو کو خواب میں دیکھا تھا۔ وہ ایک بڑی آگ کے گرد گھٹنوں میں سر دبائے بیٹھا تھا۔ میری آہٹ پا کر سر اٹھایا۔ اس کا چہرہ آگ کی روشنی میں بہت زرد معلوم ہوتا تھا مگر آگ اس کی انکھوں اتر نہیں پائی تھی۔ اس کی آنکھ کے سیاہ قرنیہ میں آگ کا عکس موجود نہیں تھا۔ بابو نے پہلی بار مجھے میرے نام سے پکار کر کہا، ’دیکھو میں نے آگ سے دوستی کر لی۔ میں آذر کی نسل سے تھا مگر ننگے پیر برف پر چلتا رہا تھا‘ ۔

پھر اس نے سر جھکا کر آگ کی جانب دیکھنا شروع کر دیا اور ایک خود کلامی کے سے انداز میں پوچھا، ”کیا تم لوگ اب بھی چھپکلی کا سر کچلتے ہو؟ “ میں نے کہا، اب تو انسانوں کے سر بھی کچلے جاتے ہیں بابو۔ اس نے مسکرا کر میری جانب دیکھا۔ وہ خاموش تھا مگر اس کے چہرے پر کہیں میں نے خود ہی پڑھ لیا تھا جیسے وہ کہہ رہا ہے ’یہ تو میں جانتا ہوں‘ ۔  میرے پاس پوچھنے کو کچھ نہیں تھا تو غیر ارادی طور پر پوچھا، بابو کیا تمہیں برف پر ننگے پیر چلنے میں تکلیف نہیں ہوتی تھی؟ اس کے چہرے پر وہی شرمیلے رنگ آکر گزر گئے۔  اس نے کہا، ”مجھے تکلیف تو ہوتی تھی مگر میں ننگے پیر اس لئے چلتا تھا کہ تمہاری برف میلی نہ ہو جائے“۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah