مایوس ہو کر کیا کریں گے ؟


پانچ دن پہلے ہمارے ایک نہائت پیارے دوست کو سینے میں شدید تکلیف اور متلی کی شکایت ہوئی۔ ان کو فوری طور پر گاڑی میں ڈال کر ملتان کارڈیالوجی سینٹر لے جایا گیا۔ وہاں پر ایمرجنسی میں ان کا علاج شروع ہوا، ڈاکٹروں نے دل کا شدید دورہ بتایا اور ساتھ ہی اس بات کی اطلاع بھی دی کہ سٹنٹ ڈالے جائیں گے۔ لواحقین کا خیال تھا کہ پانچ سے چھ لاکھ روپے تک کا فوری انتظام کرنا پڑے گا۔ لیکن ان کوبتایا گیا کہ حکومت پنجاب کے نئے حکم نامے کے مطابق جو مریض ایمرجنسی میں یہاں لایا جائے اس کا علاج فوراً شروع ہو گا اور لواحقین سے پیسوں کا انتظام کرنے کو نہیں کہا جائے گا۔

آپ لوگ آرام سے بیٹھیے۔ اس کے بعد اینجیو گرافی، اینجیو پلاسٹی اور سٹنٹ ڈالنے کے مراحل آرام سے طے ہو گئے اور مریض کو آپریشن کے بعد اولین انتہائی نگہداشت کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ اگرچہ ہمارے اس دوست کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے ہے اور وہ اپنے خرچ پر بھی یہ مہنگا علاج کروا سکتے تھے، لیکن ان کے کہنے مطابق کہ بغیر کسی سفارش اور جان پہچان کے جس طرح سے انہیں انسانیت کے ناطے سے یہ سہولت دی گئی اس طرح کے اچھے سلوک کا اس طرح کے سرکاری اداروں میں پہلے کوئی تصور نہیں تھا۔ صرف تین روز بعد ہی مریض کو رو بہ صحت قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا اوراس سارے علاج کا ہسپتال کی طرف سے جو بل دیا گیا وہ صرف تین ہزار اور تین سو روپے تھا۔

اگرچہ بہت سے معاملات میں تحریک انصاف کی نو آموز حکومت بظاہر ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے، جیسا کہ مہنگائی کا طوفان بپا ہو گیا ہے۔ روپیا لڑکھ کر پاتال تک جا پہنچا ہے۔ کسان اپنی اجناس کی بے قدری سے تنگ آ کر سڑکوں پر آ پہنچے ہیں۔ گیس کے دام اتنے بڑھا دیے گئے ہیں کہ کھادیں کسانوں کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں، لیکن گندم کی امدادی قیمت ایک روپیہ نہیں بڑھائی گئی۔ آلو اور مٹر کے کاشتکار بدحال ہو چکے ہیں وہ اپنی فصلات کو کھیت میں ہی دبانے پر مجبور ہیں۔

پولیس اور پٹوار کے حالات پہلے سے بھی دگرگوں ہیں۔ رشوت خوروں نے رشوت کے ریٹ دگنے کر دیے ہیں۔ غالباً رسک الاونس بھی ساتھ لینے لگ گئے ہیں۔ قرضوں کا انبار بڑھتا جا رہا ہے اور برامدات نہیں بڑھ سکیں۔ بے روزگاری بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ لیکن جب ذرداری اور شریفوں کے گزرے پانچ سال یاد آتے ہیں، کہ جن میں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا کرتی تھیں اور ہر طرف خوشحالی تھی اورانصاف کے دریا بہہ رہے تھے تو یہ نو آموز، ناتجربہ کار ان سے بہتر نظر آتے ہیں، کہ جن کے دور میں ابھی تک لوٹ مار کی وارداتیں شروع نہیں ہوئیں۔

قبضہ گیروں پر زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ دوست ممالک سے تعلقات دن دن بہتر ہو رہے ہیں۔ اس بار کئی سال کے بعد اقوام متحدہ کے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید پامالی پر ہندوستان کو خفت اٹھانا پڑی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ہی مالی معاملات کسی حد تک بہتر ہو رہے ہیں۔ انٹرنیشنل فنانشیل ٹاسک فورس کے حالیہ اجلاس سڈنی میں ہندوستان کے واویلے کے باوجود منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستان کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے اور پاکستانی علاقوں پر امریکی ڈرون حملے بند ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاسپورٹ کی بین الاقوامی وقعت میں معمولی ہی سہی مگر بہتری آئی ہے۔ وزیراعظم کے خاندان کی سیکیورٹی پر اربوں روپے نہیں پھونکے جا رہے۔ نہ ہی شہزادے اور شہزادیاں ملکی وسائل پر حملہ آور ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ وزیراعظم نے جتنے بھی غیر ملکی دورے کیے ہیں وہ پاکستان کے لِئے کیے ہیں۔ ان دوروں میں ان کے خاندان کا کوئی فرد سیر سپاٹوں پر نہیں گیا ہے۔

اگرچہ ملکی میڈیا میں اس حکومت کی ناکامی کا تآثر پھیلایا جا رہا ہے، جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے مالی مفادات پر زد پڑی ہے۔ کچھ کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ کچھ پرانا کھایا پیا حلال کر رہے ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کچھ لوگ ایمانداری سے تنقید بھی کر رہے ہوں، لیکن لوگ جب ان تجربہ کار شرفاء کو دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے دس سال پورے طور پر با اختیار ہونے کے باوجود صرف اپنی چالاکیوں شعبدہ بازیوں اور جھوٹے وعدوں سے پوری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا۔

ڈٹ کر وارداتیں کیں، مال بنایا، اپنی پشتوں کو سنوارنے میں لگے رہے۔ فرعونیت کی آخری حدیں بھی پار کر گئے، تو اطمینان رکھیے، اس حکومت سے مایوس ہو کر بھی ان کی طرف دوبارہ کوئی نہیں دیکھے گا۔ اور جب اس حکومت کے بعد قوم کی حالت سنوارنے کے لئے یہی نوسرباز، ٹھگ اور فراڈیے اکٹھے ہو کر دوبارہ ملک پر مسلط ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں، تو جناب مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر یہی حکومت بہتر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).