دفتروں میں جنسی ہراس کیا ہے؟


جنسی ہراسانی

دفتروں میں اخلاقی حدیں پار ہونے کا معیار کیا ہے؟

فرض کیجیے کہ آپ کو بینک میں مینیجر کی نوکری ملی ہے۔ نئی مینیجر ہونے کی حیثیت سے آپ واضح طور پر تھوڑی فکرمند ہیں لیکن ایک سینیئر ساتھی خوشی کے ساتھ باگ ڈور سنبھالنے میں آپ کی مدد کرتا ہے اور آپ اسے ان کی خوش اخلاقی سمجھتی ہیں۔ آپ کچھ اور سوچیں گی بھی کیوں؟

لیکن پھر آپ محسوس کرتی ہیں کہ اس ساتھی کا رویہ آپ کو پریشان کر رہا ہے۔ کبھی وہ کوئی بات کہہ دیتا ہے اور کبھی آپ کو چھو لیتا ہے۔ لیکن آپ اس خیال کو جھٹک دیتی ہیں اور اپنے کام پر دھیان دینے لگتی ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ شاید آپ ہی غلط فہمی کا شکار ہو گئی ہیں۔ لیکن پھر ایک دن کچھ ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے اس نے حد پار کر لی ہے اور آپ ان کے رویے کو مزید نظرانداز نہیں کر سکتیں۔

‘کیا یہ جنسی ہراس ہے؟’ بی بی سی تھری نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ایک تجربہ کیا ہے جس کے تحت ٹی وی پر میزبان بین زینڈ نے 20 نوجوانوں کے ساتھ ایک ڈرامے میں دکھائے جانے والے مختلف مناظر کے بارے میں بات چیت کی کہ جنسی ہراس کی حد کیا ہے۔

کیا دفتر میں کسی کے اوپر جھکنا ٹھیک ہے؟ کیا آپ کسی کی شکل و صورت یا حلیے پر ان کی تعریف کر سکتے ہیں؟ کیا دفتر میں آپ کسی کے گلے لگنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں حد کیا ہے؟

جنسی ہراسانی

یہ پروگرام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ‘می ٹو’ اور ‘ٹائمز اپ’ جیسی مہم کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلی کے باوجود عوام میں دفاتر میں روزمرہ کے حالات میں غیر مناسب جنسی رویے کی آگاہی کے بارے میں مزید شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم نے بی بی سی کی ڈاکیومینٹری میں نظر آنے والی قانونِ ملازمت کی ماہر وکیل سیری وِڈیٹ سے بات چیت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس موضوع کے بارے میں تعلیم کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا ہے: ‘نوجوان خواتین اور مردوں کو جنسی ہراس کے بارے میں بات کرنا ہو گی۔ ان کو جنسی ہراس کے سلسلے میں حد کا بالکل علم نہیں ہے۔`

جنسی ہراس کیا ہوتا ہے؟

ناپسندیدہ جنسی حرکات، کسی سے جنسی فائدہ اٹھانے کی کوشش یا جنسی نوعیت کا لفظی یا جسمانی برتاؤ جو کام میں مداخلت کرے یا نوکری برقرار رکھنے کی شرط بن جائے یا دفتر میں جارحانہ ماحول پیدا کر دے۔ یہ ساری باتیں جنسی ہراس کے زمرے میں آتی ہیں۔ جنسی ہراس ایک شخص کی طرف سے دوسرے شخص کی طرف برتا جانے والا جنسی نوعیت کا ناپسندیدہ رویہ ہے جس کا تعلق جنس یا صنف سے ہے اور یہ رویہ مندربہ ذیل کا باعث بنتا ہے:

آپ کے وقار کی توہین

شاید وقار کا لفظ کچھ پرانا اور مبہم لگے۔ لیکن وقار کا مطلب یہ ہے کہ آپ قابلِ عزت ہیں۔ اور قانونی طور پر ہم سب قابلِ عزت انسان ہیں۔ اس لیے اگر کوئی آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا ہے کہ آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے ذاتی وقار کی توہین ہو رہی ہے تو یہ آپ کی بےعزتی کے مترادف ہے۔ جنسی ہراس کے سلسلے میں اس کا مطلب ہے کہ آپ کو دفتر میں کسی شخص کی طرف سے سیکس کے زمرے میں آنے والے کسی بھی فعل کی وجہ سے عزت میں کمی کا احساس ہو۔

جنسی ہراسانی

یہ بات اہم ہے کہ یہ بات متاثرہ شخص کے نقطۂ نظر پر منحصر ہے کہ وہ کس حرکت کو اپنے وقار کے منافی سمجھتا ہے یا اس کے خلاف جارحانہ ماحول پیدا کرتا ہے۔

خوف، رسوائی یا ذلت کا احساس

ہم سب کسی نہ کسی شکل میں ان احساسات کو محسوس کر سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ جس شخص سے فعل سرزد ہوا اس کی کیا نیت تھی، فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ ہراساں ہونے والے کو کیسا محسوس ہو رہا تھا۔

اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کسی کو ہراساں کرنا چاہتے تھے یا صرف مذاق کر رہے تھے۔ ایسا فعل پھر بھی جنسی ہراس کے زمرے میں آتا ہے۔

سیری نے بی بی سی کو بتایا: ‘قانونی اعتبار سے صرف یہ دکھانا ضروری ہے کہ فلاں رویے کا متاثرہ شخص پر کیا اثر ہوا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ عمل کرنے والے کی نیت کیا تھی۔’

کوئی بھی شخص ایسے ماحول میں کام کرنا نہیں چاہتا جہاں اسے پریشانی کا سامنا ہو اور اگر آپ کا جنسی نوعیت کا رویہ کسی دوسرے شخص کو پریشان کر رہا ہے تو یہ جنسی ہراس کے زمرے میں آتا ہے۔

اگر کوئی شخص اپنی صنف کی وجہ سے اس قسم کے حالات کا سامنا کرتا ہے یا ان کی طرف سے جنسی پیش قدمی کو ٹھکرانے کی وجہ سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جائے تو یہ جنسی ہراس کے زمرے میں آتا ہے۔

مثال کے طور پر آپ کو اپنے عہدے سے اس لیے برطرف کیا جائے کیونکہ آپ جنسی پیش قدمی کو ٹھکرا رہے ہیں۔

پاکستان میں جنسی ہراس کا مسئلہ کتنا بڑا ہے؟

2014 میں پاکستان کے دفاتر میں ہونے والے جنسی ہراس سے متعلق قانون بنوانے اور قوانین کے نفاذ پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘مہرگڑھ’ کے مطابق گذشتہ چار برسوں میں خواتین نے جنسی ہراس کے تین ہزار سے زیادہ کیس درج کروائے۔ 2014 میں سرکاری محتسب کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2011 سے اپریل 2014 تک، 173 کیس درج ہوئے، جن میں سے 77 فیصد کا تعلق سرکاری دفاتر سے تھا۔

مہر گڑھ کی ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر ملیحہ حسین کہتی ہیں کہ 2010 سے اب تک ان کی تنظیم نے دفتروں میں ہونے والے چار ہزار کیس حل کرانے میں مدد کی ہے۔

آپ کیسے تعین کر سکتے ہیں کہ آپ کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے؟

کسی بھی صنف کے شخص کو جنسی طور پر غیر مناسب رویے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ناگوار جنسی پیش قدمی اسی صنف یا مخالف صنف کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔

عام طور پر جنسی ہراس کسی ایک بات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ نامناسب رویوں کے سلسلے پر مشتمل ہوتا ہے اور دفتروں میں ہراساں ہونے والے شخص کی طرف سے منع کرنے کے باوجود بھی یہ رویہ جاری رہتا ہے۔ اس کے برعکس ایک بار ہونے والا واقعہ بھی جنسی ہراس ہی ہے اور اس بات سے قطعاً فرق نہیں پڑتا کہ کسی دوسرے شخص کو یہ فعل غلط لگ رہا ہے یا نہیں۔

جنسی نوعیت کی باتیں یا مذاق، جنسی پیش قدمی کرنا یا کسی کو چھونا، بری نظر سے دیکھنا، گھورنا، ذاتی نوعیت کے جنسی سوالات کرنا، جنسی افواہیں پھیلانا اور جنسی نوعیت کی تصویریں بھیجنا جنسی ہراس کے زمرے میں آتے ہیں۔

پاکستان میں جنسی ہراس کے خلاف قوانین

پاکستان بھر میں جنسی ہراس کے سلسلے میں دو قسم کے قوانین لاگو ہوتے ہیں: تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 509 اور 2010 میں عورتوں کو دفاتر میں ہراساں کیے جانے کے خلاف متعارف کروائے گئے قوانین۔

تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنا قانوناً جرم ہے۔ جنسی زیادتی کرنے پر زیادہ سے زیادہ تین سال قید یا پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

وائن سٹین

جنسی ہراس کا شکار مشہورِ زمانہ اداکارائیں اور مشہور شخصیات بھی بنی ہیں

سنہ 2010 کے عورتوں کو دفاتر میں ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون کے تحت ہر کمپنی کو تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنانی ہو گی جو درج کی گئی شکایات سے 30 دن کے اندر نمٹے گی۔ بنائی گئی کمیٹی میں ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے۔ سات دن کے اندر کمپنی کو کمیٹی کے نتائج کا نفاذ کرنا ہو گا۔ اس قانون کے تحت نشانہ بننے والی خاتون حکومت کی طرف سے مقرر کردہ صوبائی محتسب کو خود بھی شکایت جمع کروا سکتی ہیں۔

آپ کو کس سے رابطہ کرنا چاہیے؟

جنسی ہراس کے کیسوں کو تفصیلی طور پر درج کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کا کیس ثابت ہو جائے تو آپ کے آجر کو ذمہ دار تصور کیا جائے گا۔

دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں ہونے والے لوگوں کے لیے سیری کا مشورہ ہے کہ جب آپ کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ ہو تو آپ دفتر میں کسی ایسے شخص سے اس بارے میں بات کریں جس پر آپ بھروسہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ باقاعدہ شکایت کرنے لے کیے تیار نہیں ہیں تو بھی آپ تفصیل سے اپنے بھروسے کے کسی شخص کو پوری بات بتائیں۔

آپ کے دفاتر میں جنسی ہراس کے خلاف پالیسی میں یہ بات ظاہر ہونی چاہیے کہ شکایت کس کو درج کروا سکتے ہیں مثلاً آجر، مینیجریا ایچ آر ڈیپارٹمنٹ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp