زندگی۔ اے زندگی


ایک ہوتی ہے ہنگامہ خیز زندگی۔ جیسے۔ جیسے۔ آپ بیسویں صدی کی اولین دہائیوں میں پیدا ہوں۔ والد ریلوے میں ہوں تو دور افتادہ قصبوں میں آپ ریل کی سیٹی، سننے کی بجائے، اس کے سنائے جانے کا اہتمام کریں۔ شہروں سے دوری کے سبب، ہسپتال یا ڈاکٹر صرف کلکتے سے وابستہ کوئی چیز ہو، سو بیماریوں سے بچنے کے لئے آپ کے والدین، ریل اور گھر، گرہستی سے بچ جانے والا وقت، طب کی کتابوں، مقامی لوگوں کی کہانیوں اور لوک سمجھ بوجھ سے ملنے والے علم کی نذر گزاریں اور ایک ڈھیلی ڈھالی گھریلو حکمت وضع کریں۔

زندگی آپ کو سکول کے راستے، لاہور لے آئے تو آپ مذہب کو دیکھنے والی عینک میں، عقیدت کی بجائے حقیقت کے عدسے جڑوائیں۔ آپ اسلامیہ کالج سے ہوتے ہوئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج پہنچیں مگر ساتھ ساتھ جلیانوالہ باغ کے شعلے، آپ کی وطنیت کو انچ دینے لگیں اور ششی تھرور سے قریب قریب ایک سو سال پہلے آپ یہ کہنے لگیں کہ ہندوستان کے قحط، غربت اور تعلیم کی عدم دستیابی کی سب سے بڑی وجہ، غیر ملکی راج ہے۔ طب کی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ انگلستان جائیں اور پھر وہیں کے ہو رہیں تا وقتیکہ آپ کے والد آپ کو ایک چٹھی لکھیں جس میں فیصلہ آپ پہ چھوڑ دیں مگر آپ واپس آ جائیں اور آ کر لاہور کی چھاؤنی میں ایک کیپٹن ڈاکٹر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالیں۔

میس میں ڈنر نائٹ کے دوران زرق برق میس کٹ پہنیں لیکن انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان حائل طبقاتی فرق کو دیکھ کر کڑھتے رہیں۔ لام لگے تو ان میدانوں کی طرف جانے کی بجائے، جن کے قصوں کی بدولت، آج ہم جنگ کو جنگ کہتے ہیں، ایسے نگر کا رخ کریں جس میں فیصلے کا قدم مار، پناہ گزین پولستانیوں کی سانس سے چلتا تھا۔ پولینڈ سے آنے والے ہزارہا مہاجرین کو پہلوی کی بندرگاہ سے لینا، کاویار کے کارخانوں سے گزارنا اور پھر ایران کے دوسرے شہروں کو روانہ کرنا، اس زندگی کے بہت سے یادگار مرحلوں میں سے ایک ہے۔

حالات بہتر ہوں تو آپ کی خیر سگالی، دوسرے ملک میں مقیم، تیسرے ملک کے باشندوں کے لئے سرمایہ قرار پائے اور تہران کے غذائی بحران میں آپ کی خدمات، حوالہ کی حیثیت اختیار کر جائیں۔ پنجاب کے میدانوں سے دور، آپ تہران کو گھر بنائیں اور بچوں کو تتلیاں پکڑتا دیکھیں۔ دن، کیلنڈر پہ اپنی پریڈ پوری کریں تو آپ جنگ کی بربادی سے ابھرتے ہندوستان کو آزادی کے چوراہے پہ کھڑا پائیں۔ سب کچھ اپنا ہو مگر ویسا نہ ہو جیسا آپ چھوڑ کر گئے ہوں۔ آزادی اور تقسیم کو تفریق کرتی اس لکیر کے بارے میں آپ صرف اتنا ہی کہہ پائیں کہ ”لاکھوں لوگ، سرحد کی غلط طرف رہ گئے۔ “۔

نئے ملک کی نئی جنگ کشمیر میں لگے تو زندگی دو حصوں میں بٹ جائے۔ ایک طرف، کشمیر کی جنگ میں وسائل کی کمی، بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی اور عارضی بندوبست کی دھوپ ہو، دوسری طرف، راولپنڈی کے دفتر میں دبیز قالین، عمدہ فرنیچراور متعدد ٹیلیفونوں کی چھاؤں ہو۔ راولپنڈی کے سرکاری گھر ( 290 پشاور روڈ) کے اس کمرے کی مانند۔ جو آدھا گھر کے اندر تھا اور آدھا باغیچہ میں۔

جنگ کے اختتام پہ جب آزاد کشمیر کی حکومت، تراڑ کھل سے مظفر آباد منتقل ہو تو آپ کی کاوشوں سے ایک جدید ہسپتال، کشمیریوں کو منتقل ہو جائے۔ مسیحائی کا سلسلہ، اب کشمیر سے نکل کر شمال کے ان دو گاؤوں تک پہنچ جائے جہاں اس وقت آبادی بس دو چار ہزار ہو۔ گلگت اور سکردو نام کے ان دیہاتوں میں ہسپتال قائم کرنے اور انہی ہسپتال کے جنریٹروں سے مقامی آبادی کو بجلی پہنچانے اور پھر کسی دن سینیما دکھانے کا معصوم اہتمام بھی اسی زندگی کے حصے میں آئے تو کیا کہئے۔

پچاس سال کی عمر میں جب زندگی کے راستوں پہ گرد بیٹھنے لگے تو ایک خط آپ کو چارلس ہیوسٹن اور ”کے ٹو“ سر کرنے والی پہلی امریکی مہم سے منسلک کر دے۔ اسکولے، برالڈو، کنکرڈیا سے ہوتے ہوئے یہ سفر، آپ کو بیس کیمپ پہ لے جائے۔ آپ اطالوی شاہزادے ابروزی کے نام سے منسوب گزرگاہ پہ موجود ہوں اور پتہ چلے کہ کوریا کی جنگ بندی پہ دستخط ہو گئے اور کریملن میں خفیہ پپولیس کے سربراہ کو موقوف کر دیا گیا ہے، مگر انسانی تاریخ کے ان غیر معمولی واقعات سے زیادہ، آپ صبح کے موسم کے بارے میں پریشان ہوں تو جان لیجیے کہ یہ ہنگامہ خیزی ہے۔

آپ ونڈی گیپ میں اس جگہ موجود ہوں، جہاں سے آپ کے دائیں پاؤں والی برف کا مقدر، شکس گام دریا میں بہتے بہتے سرخ چین کے ریگستانوں تک پانی کے قصے کرنا اور دائیں طرف کی برف کی تقدیر، دریائے سندھ کے راستے، پاکستان کے کھلیانوں میں زندگی تحریر کرنا ہو۔ اور اس وقت، آج سے پینسٹھ سال پہلے، جب آپ، یہ بات اپنے ہنزائی حمالوں کو بتائیں تو وہ چین کے حصے کی برف ہاتھوں سے اٹھا اٹھا کر پاکستان کے حصے میں ڈالیں تا کہ پاکستان کے دریا اور زور و شور سے بہیں، معصوم اعتماد کی مستقل دلیل ہے۔ پھر ایک ہونی، ہوتی ہے۔

نیٹ فلکس کی آمد کے بعد میری فلم بینی میں ایک بچگانہ تغیر در آیا ہے۔ فلم دیکھتے دیکھتے، جونہی کردار کسی حادثے کی جانب بڑھنے لگتے ہیں، میں یا تو فلم بند کر دیتا ہوں یا منظر سے آگے گزر جاتا ہوں۔

”کے ٹو“ کی اس مہم میں آپ کے ساتھ سات لوگ شریک تھے، چارلس ہیوسٹن کی سربراہی میں امریکی رابرٹ کریگ، ڈی مولینار، آرتھر گلکی، جارج بیل، پیٹر شوئننگ اور برطانوی فوجی افسر ٹونی سسٹریتھر۔ جب یہ ٹیم، کے۔ ٹو کی چوٹی سے تین صاف دنوں کی دوری پہ رہ گئی تو پہلے دن، موسم خراب ہو گیا، دوسرے دن موسم، مزید خراب ہو گیا اور پھر اتنا خراب رہا کہ جب ایک شام، ٹیم لیڈر، چارلس ہیوسٹن نے پہلی بار واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ سب پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔

یہ معمولی لوگ نہیں تھے۔ کسب کمال کن کی تحدیث انہیں اپنے اپنے ادارے، سٹوڈیو، میڈیکل پریکٹس، لیبارٹری، سکول اور یونٹ سے گھیر گھار کر یہاں تک لائی تھی۔ اس دوران، گلکی کی طبیعت خراب ہو گئی۔ چارلس ہیوسٹن نے واپسی کا فیصلہ تو کر لیا مگر چگوری کا موسم اب انہیں مراجعت کی مہلت دینے سے بھی گریزاں تھا۔ گلکی کی حالت بگڑتی جا رہی تھی، بالآخر، انہوں نے تمام حفاظتی تدابیر ترک کیں، گلکی کو مارفین کا ٹیکہ لگایا اور ایک سلیپنگ بیگ میں اسے، اس پرچم کے ساتھ جو اس نے چوٹی پہ لہرانا تھا، سامان سمیت باندھ کر بیس کیمپ کی طرف، ایسے سفر شروع کیا کہ آگے، پیچھے، دائیں، بائیں ہر سمت سے سلیپنگ بیگ کی رسیوں کو ایک ایک کوہ پیما نے تھام رکھا تھا۔

نہ جانے برف کی وہ کون سی اندھی گپھا تھی جہاں کسی ایک کا پاؤں پھسلا، اور ساتھ ہی دوسرے، تیسرے حتی کہ چھ کے چھ لوگ اپنی اپنی جگہ سے کھنچے چلے گئے۔ منظر تھوڑا آگے ہوا تو پتہ چلا کہ پیٹ شوئننگ کی کدال سے لپٹی رسی نے زندگی کی یہ ڈور، ٹوٹنے سے بچا لی تھی۔ گلکی کو ایک جگہ محفوظ کرنے کے بعد، باقی لوگ عارضی رہائش کے بندوبست میں مصروف ہو گئے۔ کچھ دیر بعد جب یہ لوگ گلکی کو لینے پہنچے تو وہاں، اس کا سلیپنگ بیگ نہیں تھا۔ دور دور تک بس برفانی ہواؤں کی یک سری سیٹیاں تھیں۔ گلکی کسی الانی (ایوالانچ) کی زد میں آ گیا تھا یا اس نے کسی مہم جو کی سی خودداری میں دوسروں پہ بوجھ بننا مناسب نہ سمجھا، یہ قصہ روایتوں کا رزق ہے۔ )

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2