انصافی وزیر اعظم انصاف چاہیے!


آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو ِ حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

علامہ اقبال نے جس زمانے میں یہ شعر کہا اس وقت سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ہر آنکھ گواہ بن جائے گی اور ہر ہاتھ مین ایک کیمرہ ہوگا، یہ وہی دور ہے۔ اس چھوٹی سی ایجاد نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں، ہر ہونے والا واقعہ، حادثہ، پولیس مقابلہ، خوشی غمی کا گواہ۔ آپ لاکھ کچھ بیان دیں اس کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتیں ہیں موبائل فون کی ویڈیوز جسے یہ بے شمار چینلز دکھا دکھا کر سچ کی مہر ثبت کرتے رہتے ہیں اور ”نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن“، حکومت کو گھٹنے ٹیک کر صحیح سمت میں کام کرنا پڑتا ہے۔

ماڈل ٹاؤن واقعہ ہوا سیدھی گولیاں چلتے ہزارہا لوگوں نے دیکھیں، گلوبٹ کی کارستانیاں بھی پوشیدہ نہیں رہیں، مشہور زمانہ دھرنے ناچ گانا، کھانا کسی سے چھپا نہ رہا، سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں سوکھتی بھی کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکیں، پی ٹی وی پہ حملہ کی فوٹیج بھی دیکھی، حد تو یہ ہے کہ تحریک لبیک کے دھرنے مین گالیوں سے بھری تقاریر زبان زدِ خاص و عام ہوئیں اسی سیل فون کی بدولت۔ اب نہ پولیس جھوٹ بول سکتی ہے نہ عوام نہ حکومت، سب کا سچ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

چینلز کی بہتات اور سوشل میڈیا نے عام آدمی کو بھی بہادر بنادیا ہے، ہر ہاتھ میں سیل فون ایک خبر کا ذریعہ بنا ہوا ہے، جہاں ظلم وستم ہوتے دیکھا سیل فون ویڈیوبنائی اور جناب سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کردی یا کسی چینل کو بھیج دی اور خبر جنگل کی آگ تو پھیلنے میں تھوڑا وقت لیتی ہے ہوا کے رخ کی محتاج ہوتی ہے لیکن چینل کی آگ چند سیکنڈ میں بریکنگ نیوز بن کر سب کے حواس پر چھا جاتی ہے۔ یہ غلط ہے یا صحیح لیکن اس سے اتنا تو ہوا پولیس کی کارکردگی کا پول سرِ عام کھل جاتا ہے، وہ کچھ اور بیان دیتے ہیں اور ویڈیوز کچھ اور مناظر دکھاتی ہیں۔

کل دن بھر اور آج تک ساہیوال فائرنگ واقعے نے پنجاب کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ سی ٹی ڈی پولیس کی کارکردگی اور ٹریننگ پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ شواہد بتاتے ہیں کہ مرنے والوں کو گولیاں بچوں کے سامنے ماری گئیں، اگر مان لیا جائے کہ وہ واقعی دہشت گرد تھے، داعش سے تعلق تھا، تو بھی پولیس کو عورتوں اور بچوں کو بچانا چاہیے تھا، چھوٹے تین بچے جو بچ گئے اس میں بچے نے بتایا کہ ابو نے پولیس سے کہا پیسے لے لو ہمیں چھوڑ دو یعنی بات چیت بھی ہوئی، عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کا تبادلہ بھی نہیں ہوا، سامنے سے گولیاں ماری گیا، حالیہ ویڈیوز سے سب پول کھل گئی۔

اتنے خطرناک دہشت گرد تھے تو ان کو زندہ پکڑا جاتا تاکہ نیٹ ورک کا پتہ لگایا جا سکتا نہ کہ بارہ، تیرہ گولیاں مار کر اپنی بہادری کا سکہ جمایا جاتا حالانکہ ایک گولی ہی جان لینے کے لیے کافی ہوتی۔ موقع پر موجود عوام نے سڑک بلاک کرکے احتجاج بھی کیا۔ آپ سوچیں عوام اندھے بہرے تو نہیں یقینًا کہیں کچھ غلط ضرور ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے جے آئی ٹی بنادی حسب معمول دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک یا یہ بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

ایک افسوسناک واقعہ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، کیا ریاست کی رٹ یہی ہے، کہا یہی ریاست ِ مدینہ کا عکس ہے جو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں وہ پیرنی اور خلائی مخلوق کے سہارے کب تک حکومت چلا سکیں گے بتائیے۔

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

حکومت کو جلد سے جلد اس واقعے سے متعلق سب کچھ واضح کردینا چاہیے تاکہ شکوک و شبہات دور ہوں۔ کہا اس وقت سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ہر آنکھ گواہ بن جائے گی اور ہر ہاتھ مین ایک کیمرہ ہوگا، یہ وہی دور ہے۔ اس چھوٹی سی ایجاد نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں، ہر ہونے والا واقعہ، حادثہ، پولیس مقابلہ، خوشی غمی کا گواہ۔ آپ لاکھ کچھ بیان دیں اس کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتیں ہیں موبائل فون کی ویڈیوز جسے یہ بے شمار چینلز دکھا دکھا کر سچ کی مہر ثبت کرتے رہتے ہیں اور ”نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن“، حکومت کو گھٹنے ٹیک کر صحیح سمت میں کام کرنا پڑتا ہے۔

آخر میں پاکستانی عوام سے ایک درخواست مہربانی فرماکر اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر انسانیت کے ناطے سوچیے کیونکہ بہر حال ہم انسان پہلے ہیں بعد میں سیاسی کارکن۔ کسی بھی واقعے پہ بلاوجہ کے جواز دینے کے بجائے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کل کوگاڑی میں بچوں کے ساتھ آپ ہوں اور ایسا واقعہ ہو تو۔ اس لیے ہر واقعہ کو ایک زاویہ نگاہ سے نہ دیکھیں بلکہ حقیقت پسند بن کر سوچیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے ان مجرموں کو بے نقاب کریں جو کالی بھیڑوں کی طرح نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).