ہم تماش بین ہیں اور بس۔۔۔‎


یہ اکا دکا واقعات ہیں، اگر اس طرح کے سانحوں کی تفصیل بیان کی جائے تو صفحات تو کیا شائد کئی جلدیں بھی کم ہوں۔ اب غور کریں کہ اڈا قادر آباد کے المناک حادثے کی حیثیت کیا ہے؟ یہ شور جو بڑے بڑے لوگوں کا مچا ہے اس کو مچانے والے اپنی اپنی مار پر ہیں، یہ روتے دھوتے ٹوئیٹ، فیس بک پر آہ وبکار کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ کہ کس کو کتنے لائیکس ملے اور کس کے ٹوئٹ کتنے ری ٹویٹ کئے گئے۔ دکانداری ہے کہ کس کا مال کتنا بکتا ہے؟ کون بہتر سے بہتر افسانوی سطر لکھتا ہے؟ آپ کے خیال میں حمزہ شہباز جیسا انسان جو فرعونوں کو شرما دے، اسے بچوں یا ان کی ماں کی ہلاکت پر کچھ افسوس ہوا ہو گا۔ یہ سب اپنی قیمت وصول کرنے کو بے تاب ہیں یا سیاسی انتقام لینے کو۔ روتی دھوتی پریس کانفرنس کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ ہاتھ پر ہاتھ مار کے قہقہے لگائے جائیں کہ اب آیا عمران خان شکنجے میں۔

شہباز شریف کی ایک شادی عالیہ ہنی سے ہوئی تھی، عالیہ ہنی سے ایک بچی پیدا ہوئی آج وہ جوان ہے، شہباز شریف نے عالیہ کو طلاق دی، سو دی، مگر اس پیدا ہوئی بچی کا کیا قصور تھا، جس کا باپ دس سال صوبے کا چیف منسٹر ہو، وہ بچی اپنے باپ کو نہ دیکھ سکے نہ چھو سکے، اسے ٹی وی میں دیکھ کر کس عذاب سے گزرتی ہوگی۔ آج بچوں کے دکھ کا ڈرامہ لئے جو حمزہ شریف چیخیں مار رہا ہے، اسی نے عالیہ ہنی کو دھمکی دی تھی کہ اگر تم نے یا تمہاری بچی نے، یعنی حمزہ کی سوتیلی بہن نے، جائیداد کی جانب دیکھا یا کسی اپوزیشن والے سے مل کر سیاست کی کوشش یا چوں چاں کی تو مروا دی جاؤ گی۔ انسانی اقدار اور اخلاقی طور پر اس شخص کا کردار عائشہ احد کیس میں سب کے سامنے ہے۔

حال ہی میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک ڈی آئی جی کو نوکری سے برخواست کر دیا گیا وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنی سابقہ بیوی کی پرائیویٹ تصاویر سوشل میڈیا پر پھینک دیں تھیں۔ حمزہ شہباز نے عائشہ احد کو اپنے پالتو کتوں سے کتنی گالیاں دلوائیں تھیں کیا آپ بھول گئے۔ یہ وہ آدمی ہے جس نے اپنے محسن چوہدری پرویز الٰہی کو دس سال نہیں پوچھا کہ وہ کس حال میں ہے اور جیسے ہی اپوزیشن سامنے دکھائی دی، پہلے دن اسمبلی میں اسی پرویز الٰہی کی خوشامد پر اتر ایا۔ اور آج یہ ان بچوں کے حادثے پر اپنا چورن بیچ رہا ہے۔ اگر اتنی انسانیت تھی تو ماڈل ٹاؤن واقعے پر اور کچھ نہیں کر سکتا تھا تو سب چھوڑ کر باہر بیٹھ ہی جاتا مگر نہیں کیا اور آج اسے خون میں لت پت ماں کی لاش دکھی کرتی ہے۔

وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ سے انصاف کی امید جسے ہو، اسے مبارک کہ اسے امید رکھنے کا پورا حق ہے مگر میں ایسی کوئی امید نہیں رکھتا کیونکہ جس معاشرے سے میرا تعلق ہے وہاں دو عیسائی ماں باپ کو محض ایک الزام، ایک شک کی بنیاد پر زندہ جلا دیا جاتا ہے، دور نہیں 2012 کا واقعہ ہے جب کراچی میں بھتہ وصول نہ ہونے پر فیکٹری مالک کو سبق سکھانے کے لئے 259 غریب مزدور، عورتوں، بچوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس معاشرے کی پولیس کیا فرشتوں پر مشتمل ہو گی۔ یہاں تو لاہور ہائی کورٹ کا سابق چیف جسٹس، سلمان تاثیر کے قاتل کے دفاع میں کھڑا ہو کر داد وصول کرتا ہے۔ اور وہ عورت جس پر الزام لگا وہ بری ہو کر بھی بری نہیں ہوتی۔

ایکڑوں پر پھیلے ڈی سی، ایس پی ہاؤس، ارب پتی قانون ساز، اور ان کے سرکاری محلات جن کا خرچ پھٹے کپڑوں والے غریب اٹھاتے ہوں اور اٹھاتے ہی رہیں وہاں ان کی اوقات کیا اور ان کے بچوں کی اوقات کیا؟ آپ کے خیال میں اس اشرافیہ کی شاموں کو رنگین کرنے، کپڑے اتار کر ناچنے والی رقاصائیں کہاں پیدا ہوتی ہیں۔ میں نہ رقص کے خلاف ہوں اور نہ ہی کسی کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کا شوق ہے مگر جب غریب کی بیٹی حالات سے مجبور ہو کر کہیں سے مدد نہ ملنے پر کپڑے اتار کر جسم پر سگریٹوں کے داغ لگوانے پر مجبور ہو، تو پھر ماننا پڑے گا کہ وہ کسی ایک کی نہیں، ہم سب کی اجتماعی زیادتی کا شکار بنی ہے۔ لیکن ہم کبھی مانے؟

پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے بتا دیا ہے کہ ہلاک ہونے والا دہشت گرد تھا اور اہل خانہ کو دو کروڑ روپے ادا کئے جائیں گے۔ سرکاری اعلانات کی حقیقت جاننے والے جانتے ہیں کہ اس تاوان کے اعلان اور اسک و سچائی بننے کے درمیان ابھی بہت مراحل ہیں۔ اس دو کروڑ کے حصے ابھی سے ہو چکے ہوں گے، اور چند باقی بچے لاکھ شاید ان کو مل جائیں اور بس۔

ریمنڈ ڈیوس نام کا ایک غیر ملکی یاد ہے آپ کو، اس نے دو پاکستانی شہریوں کو بڑی بے تکلفی سے قتل کیا تھا، ان میں ایک کی بیوی انصاف کے نام پر ملی رقم سے اتنا خوش ہوئی کہ خود کشی کر بیٹھی۔ ریمنڈ ڈیوس کا ہم بال بیکار نہ کر پائے اور وہ جہاز میں بیٹھ کر اڑ بھی گیا۔ کمرہ عدالت میں ہونے والی کارروائی کو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ٹیکسٹ کر کے امریکی سفیر کو مطلع فرماتے رہے اور ہم نوٹ گنتے رہے۔ ابھی تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ دس ہزار روپے کی ایک بکری چوری ہونےکے شک پر ایک مزدور کو ڈیرے پر لا کر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ ہلاک ہی ہو گیا۔ بچوں کے ریپ ہوتے ہیں انہیں مار دیا جاتا ہے، کیا کوئی بچوں کی مدد کے لئے ہیلپ لائین بن چکی۔

سارے ملک میں مساجد ہیں، سوال یہ ہے کہ خدا کا یہ گھر اس کی مخلوق کے لئے رات کو بند کیوں ہوتا ہے۔ کیا یہاں بے گھر عورتیں بچے رات کو سو بھی نہیں سکتے۔ ٹرک ڈرائیور، ورکشاپ پر کام کرنے والے ان بچوں کے ساتھ ایک وقت کی روٹی کے عوض کیا سلوک کرتے ہیں کیا ہم بے خبر ہیں۔ نہیں بلکہ ہم نے اس کو قبول کیا ہوا ہے۔ ہم اس کو جائز مانتے ہیں۔ غضب خدا کا، کوئی مارکیٹ ایسی دکھائی نہیں دیتی جہاں معصوم بچوں کو نشے کا ٹیکہ لگا کر بے ہوشی کی حالت میں پیشہ ور بھکاریوں نے کمائی کا ذریعہ نہ بنایا ہو، تین سے دس سال کے بچے بھیک مانگتے ہیں، گاڑیاں صاف کرتے اور معمولی اشیاء بیچتے ہیں، اور ان سے بھی اپنا حصہ وصول کرنے یہ بھیانک پولیس موجود ہوتی ہے۔ یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے مگر ہم دیکھنے سے قاصر ہیں۔

ادھر ادھر کے حادثات نما واقعات یاد کرنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ آپ کو یاد دلا دوں کہ ہم زندہ قوم ہیں، جو آج کی خبر میں زندہ رہتی ہے اور اس وقت تک رہتی ہے جب تک کوئی نیا چسکا ہاتھ نہ لگ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2