ریاست ہو گی ماں کے جیسی


2007  میں جب مشرف کے زوال کا سبب بننے والی وکلاء تحریک کا آغاز ہوا تو طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں نے تحریک کے آغاز میں اسے کوئی خاص اھمیت تو نہ دی کیونکہ حکمرانوں کا خیال تھا کہ پاکستان بھر میں نوے ہزار کے لگ بھگ وکلا کبھی بھی اس تحریک کو کامیابی کی بلندی تک نہیں لے کر جا سکیں گے جس سے ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو سکے۔ ان کی یہ سوچ کافی حد تک درست بھی تھی لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے پلٹا کھایا۔

ابھی غیر فعال کیے جانے والے چیف جسٹس کا قافلہ روات بھی نہ پہنچا تھا کہ سول سوسائیٹی کے لوگ جی ٹی روڈ پہ پہنچ چکے تھے۔ اس تحریک کے دوران ایک نظم نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور اسی نظم کا ایک فقرہ سب کی زبان پہ زدعام ہو گیا کہ ”ریاست ہو گی ماں کے جیسی“ لیکن یہ نعرہ لگانے والوں نے اس نعرہ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا اور اس نعرہ کو برس ہا برس سے اس ملک پر حکومت کرنے والی دو پارٹیوں نے میثاق جمہوریت کی نذر کر دیا۔

پھر تاریخ نے دیکھا کہ انہی پارٹیوں نے آپسی بندر بانٹ سے ملک کے تمام اداروں کو نہ صرف اپنے گھر کی لونڈی بنا لیا بلکہ وہ بیوروکریسی جو کبھی اس ملک کی ترقی کی ضامن تھی وھی بیوروکریسی کے کل پرزے مالومصلیوں کی طرح اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس طوائف سے بھی بدتر ہو گئے جو جسم فروشی کے پیسے وصول کر کے بھی جسم سونپنے سے پہلے سو نخرے کرتی ہے لیکن افسوس کہ یہ بیوروکریسی ان پیشہ ور طوائفوں سے بھی بدتر نکلی۔ جو جتنا بڑا بے غیرت ہوتا حکمران اسے اتنے ہی بڑے عہدے پہ فائز کرتے۔

رشوت بددیانتی اور اقرباء پروری عام ہوتی گئی۔ ایک نیا تھانہ کلچر متعارف ہوا جس میں محرر سے لے کر ایس ایچ او تک کے لیے بولیاں لگتیں اور ”سیاسی گُرگے“ من پسند لوگوں کو تعینات کرواتے اور پھر ان کے ذریعہ اپنے مخالفین کو ذلیل و رسوا کرنے کے علاوہ جھوٹے مقدمات میں بھی پھنسواتے۔ سیاست، سیاسی تماش بینوں کا مشغلہ بن گئی۔ پولیس میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جانے لگا جو جرائم پیشہ لوگ تھے۔ حکمران اپنے مخالفین کو انہی تنخواہ دار سرکاری گماشتوں کے ہاتھوں جعلی پولیس مقابلوں میں پار کروانے لگے۔

خود ساختہ انکوائری کمیٹیاں بنائی جاتیں لیکن ان کمیٹیوں کی رپورٹس آنے سے پہلے ہی نام نہاد جنسی درندہ جو خود کو خادم کی بجائے خادمِ اعلی کہلوانا پسند کرتا۔ کٹھ پتلی آئی جی پولیس کو کہہ کر پولیس مقابلہ کرنے والی ٹیم کو تعریفی اسناد اور نقد انعامات کے علاوہ ترقی کے احکامات جاری کر دیتا۔ اس طرح انکوائری کمیٹی کی رپورٹس میں جان بحق افراد کو اشتہاری اور قاتل ڈکیت قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی۔ پھر ایک وقت آیا نجی ٹی وی چینلز نے حقائق کو سامنے لانا شروع کیا۔

حکمرانوں نے یہاں بھی اپنی غلاظت زدہ ذہنیت سے اشتہارات کے ذریعہ ان کو اپنا ہمنوا بنانا شروع کر دیا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی تجزیہ نگار یا کالم نگار یا اینکر پرسن اتنی تنخواہ لیتے ہوں جتنی ان چینلز نے ان صحافتی نائیکوں کو دینی شروع کر دی۔ جنہوں نے دن رات ان سیاسی تماشبین حکمرانوں کو دیوتا اور نجات دھندہ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا جو چینلز چاپلوسی زیادہ کرتا اسے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ رقم اشتہارات کی صورت میں دی جاتی۔

اس ملک کے پرنٹ میڈیا سے وابستہ نام نہاد بازاری دانشور اور کالم نگاروں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے حکمرانوں کے قصیدے لکھنے شروع کردیے جو سرکاری گماشتے بے غیرتی کی حد پار نہ کر سکتے وہ ان دانشوروں اور کالم نگاروں کے کندھوں پہ بیٹھ جاتے اور من پسند تعیناتیاں حاصل کرنے کے لیے اپنے حق میں کالم لکھواتے۔ ایک وقت تھا کہ اعلی سرکاری افسران صحافی برادری سے ایسے ڈرتے جیسے آج کل کوئی بھی شریف النفس آدمی پولیس سے ڈرتا ہے بلکہ ایک پریس ریلیز شائع کروانے کے لیے بھی شہر کی معزز ہستیوں کی سفارشیں ڈھونڈتے نظر آتے۔

پھر ایک وقت آیا جب پرانے سیاسی جگادریوں نے نیا پینترا مارنے کا سوچا اور اب اپنے مخالفین کو دہشت گرد قرار دے کر پار کروانے کے لیے سی ٹی ڈی کا ایک الگ ونگ قائم کرنے کا فیصلہ کیا جس نے ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار سے زائد بے گناہ لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر مقابلہ میں پار کیا۔

لیکن کب تک۔ حضرت علی کا قول ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی لیکن ظلم کا نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔

لیکن دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے پلٹا کھایا ماں کی محبت سے سرشار ایک بیٹا، ایک کرکٹر ملک میں ایک فری کینسر ہسپتال کا خواب دیکھتا ہے لوگ دیوانہ وار اس پہ پیسہ لٹاتے ہیں۔ کینسر ہسپتال بنتا ہے، پھر چند ”سر پھرے“ ایک جگہ اکٹھا ہوتے ہیں اور اس ملک کے محکوم عوام کو ان سیاسی جیب کتروں سے نجات دلانے کا خواب دیکھتے ہیں جس کے لئے وہ کرکٹر میدان سیاست میں قدم رکھتا ہے۔ لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ اب اتنی عزت کمانے کے بعد اس کے ذلیل ہونے کا وقت آ گیا ہے۔

لوگ اس کے قافلے میں آتے ہیں، شامل ہوتے ہیں پھر چھوڑ جاتے ہیں۔ سلسلہ بائیس سال تک چلتا ہے۔ اپنے وطن اور اس وطن کے لوگوں کی محبت سے سرشار عمران خان اپنی ازدواجی زندگی تک کی قربانی دے دیتا ہے برطانوی قانون کے تحت بچے باپ کے پاس نہیں رہ سکتے۔ لیکن وہ اس ملک کے بچوں کو ہی اپنی اولاد سمجھ کر ان کو سہانے مستقبل کے خواب دکھاتا ہے۔ جب وہ لوگوں کے جھرمٹ سے ہمکلام ہوتا ہے تو گمان ہوتا ہے جیسے وہ مسیحا بن کر آیا ہو، لوگوں کو خودی کا درس دیتا ہے۔

محنت کر کے صلہ آسمانوں پہ بسنے والے ربِ کائنات پہ چھوڑ دینے کا درس دیتا ہے۔ نوجوانوں کی تربیت کے لیے اس جگہ کا انتخاب کرتا ہے جہاں قوموں کی تقدیر کے فیصلے اونچے ایوانوں میں بیٹھنے والے چھوٹے لوگ کرتے ہیں۔ اس عمارت کے سامنے جس کی پیشانی پہ کلمہء طیبہ لکھا ہوا ہے۔ ایک سو چھبیس دن چوروں ڈکیتوں لٹیروں قاتلوں اور بد بخت لوگوں کے خلاف قوم کو تیار کرتا ہے۔ ہمیشہ دو باتیں کرتا ہے

1 ایاک نعبد وایاک نستعین

2  نہ کبھی خود جھکوں گا نہ کبھی اپنی قوم کو جھکنے دوں گا۔

اپنی مسلسل جدوجہد کے دوران وہ لوگوں کے طعنے سنتا ہے آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ پھر محنت شروع کر دیتا ہے۔ بالآخر بائیس سال کی انتھک کوششوں کے بعد اللہ اسے کچھ حصہ کی سربراھی دیتا ہے۔ لیکن ابھی بھی امتحان اور مشکلات اس کی منتظر ہوتی ہیں۔

کیونکہ کئی دھائیوں سے جن سیاسی تماشبینوں کے منہ کو جو خون لگا ہوتا ہے وہ کب باز آتے ہیں۔ لیکن وہ کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اپنی پارٹی کے بیس کے لگ بھگ منتخب نمائیندوں کو شوکاز نوٹس دے کر گھر کی راہ دکھاتا ہے۔ اس اقدام کو دیکھ کر ایک ہجوم دیوانہ وار اس کی جانب لپکتا ہے۔

لیکن یہ کیا۔ ملک کی تمام پارٹیاں حتٰی کہ اس کے اتحادی بھی اس کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ سیاسی جغادری اسں پہ ہنستے ہیں۔ رات بھیگ رہی ہے۔ رزلٹ آنا شروع ہو چکے۔ نوجوان اضطرابی کیفیت کا شکار کہ شاید پھر سے دھاندلی نہ ہو جائے۔ کچھ اس سوچ میں کہ اگر اس دفعہ موقعہ نہ ملا اور مملکت کی باگ ڈور نہ ملی تو پھر اس لا الہ الا اللہ کے نام پہ بننے والے ملک کو کون ان لٹیروں اور قاتلوں سے بچائے گا۔

بالآخر اللہ عزت سے نوازتا ہے۔

خان حکومت بناتا ہے وہ ملک کو مالی مشکلات کی دلدل میں غرق پاتا ہے۔

عنان حکومت سنبھالتے ہی ہر حکمران دنیا کی سپر پاور کی خوشنودی کے لیے امریکہ کے دورے کی دعوت حاصل کرنے کے لیے اپنی عزت اور اناء تک کا سودا کر گزرتے ہیں۔ اقوم متحدہ کا سالانہ اجلاس آتا ہے کسی بھی حکمران کے لیے اس سے بڑا اور کوئی موقعہ نہیں ہوتا جب وہ ایک ہی چھت تلے دنیا کے تمام حکمرانوں سے ملے۔ لیکن یہ مرد قلندر یہ کہہ کر سب کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ میں اس ملک کا حاکم ہوں جو قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے جسے سابقہ عیاش حکمرانوں نے قرضوں کے عوض گروی رکھ دیا ہوا ہے۔ لہذا جب تک اسے اپنے پاوں پہ کھڑا نہ کر لوں تب تک اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کروں گا۔ ملک کی معشیت کو اپنے پاوں پہ کھڑا کرنے کے لیے ہمسایہ اسلامی ممالک کا دورہ کرتا ہے۔ تمام دوست ممالک اسے ایک امین اور صادق انسان کے طور پہ جانتے ہیں لہذا وہ کھل کر مدد کے لیے سامنے آ جاتے ہیں۔

لیکن۔

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔

اس بار پھر جیب میں پھر سے چند کھوٹے سکے آ گئے ہیں۔

”کچھ اپنے“ اپوزیشن کے ساتھ ملکر کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں۔

جس خرام خور بیوروکریسی کو لوٹ مار کی عادت پڑ چکی ہو وہ اپنے سابق آقاؤں کے ابھی تک اشاروں پہ کسی طوائف کی طرح ناچ رہی ہے۔ ہر کام میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔

ایک پلاننگ کے تحت ملک میں سی ٹی ڈی جو کہ سابق حکمرانوں نے اپنے مخالفین کو پار کروانے کے لیے قائم کی ہوئی ہے جس میں ابھی تک ان کے پالتو گماشتے موجود ہیں خان کے قطر کا دورہ کرنے سے ایک دن پہلے سانحہ ساہیوال رونما کروا دیا جاتا ہے اور چار بے گناھوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔

اپوزیشن اس کو عوام میں حکومت کے خلاف استعمال کرنے کا پلان پہلے سے بنا چکی ہے۔ کیونکہ جب بھی عمران خان کسی دوسرے ملک دورے پہ جانے لگتے ہیں تو کوئی نہ کوئی مسئلہ سابق حکمرانوں سے مل کر ان کے تنخواہ دار اور پالتو بیوروکریٹ پیدا کر دیتے ہیں۔

اس واقعہ پر سب سے زیادہ احتجاج انھیں پارٹی ورکرز کی طرف سے سامنے آتا ہے جو اپنے محبوب قائد کی قیادت میں اسے ترقی کے جانب بڑھتا ہوا دیکھنا چاھتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ اس سازش میں ملوث کچھ ”اپنے مہربان“ بھی آشکارا ہونے لگتے ہیں جن میں سرفہرست پارٹی کے ٹکٹ پہ منتخب ہونے والا وزیر قانون راجہ بشارت بھی ہوتا ہے۔ وہ فوری طور پر ایک پلاننگ کے تحت اس واقعہ میں ملکی سلامتی کی سب سے بڑی ڈھال آئی ایس آئی کو اس میں ملوث کرنے کی سازش کرتا ہے اور الیکٹرانک میڈیا پہ آ کر وزیر قانون ہونے کے باوجود سی ٹی ڈی کا موقف پیش کر کے قوم میں نہ صرف حکومت بلکہ آئی ایس آئی کے خلاف غم و غصہ کی فضا کو مزید ہوا دیتا ہے بلکہ ایک پلاننگ کے تحت حکومت اور اس ادارہ میں سنگین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

(راقم الحروف کی اطلاع کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی کے اپنے دو وزیر حرام مال کھانے کے مواقع نہ ملنے پہ پی ٹی آئی میں نقب لگانے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کو ورغلا کر پارٹی ہی کے اندر عثمان بزدار کے خلاف پریشر گروپ بنایا جا سکے اور عثمان بزدار کو عہدے سے ہٹا کر کسی ”اپنے پیارے“ کا حق نمک حلال کیا جا سکے لیکن یہ ابھی تک ناکام ثابت ہو رہے ہیں ان میں اول راجہ بشارت اور دوسرا چوھدری ظہیرالدین ہے ) خیر بات دوسری طرف نکل گئی بات پریس کانفرنس کی ہو رہی تھی حالانکہ جب پریس کانفرنس کی گئی اس وقت جے آئی ٹی کی تشکیل ہو چکی تھی اور ایسے موقع پہ آئینی اور قانونی طور پر حکومت رپورٹ کا انتظار کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ راقم الحروف نے گزشتہ روز اس پریس کانفرنس کے فوری بعد سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر بھی کی تھی جس میں اس بات کی نشاندھی کی کہ یہ حکومت اور آئی ایس آئی کے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔

الحمد للہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے آج اسے اپنے الفاظ میں بیان کر کے میرے موقف کی تائید کر دی۔ اور اس پریس کانفرنس پر سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ اس وقت سانحہ ساہیوال پر نہ صرف پاکستان میں موجود درد دل رکھنے والا طبقہ حالت غم میں ہے بلکہ ملک سے باہر بسنے والے اوورسیز پاکستانی بھی سخت غمگین ہیں۔

لیکن قوم کو مطمئن رہنا چاھئیے کہ اب یہ ریاست حقیقی طور پہ ماں جیسی ریاست کا روپ دھارنے جا رہی ہے جس طرح ایک ماں اپنے بچوں کو آدھی رات کے وقت گیلی جگہ سے اٹھا کر اپنی خشک جگہ پہ لٹا دیتی ہے ویسے ہی ملک کو اب ایک ایسا حکمران میسر آ چکا ھے کہ جس سے اندھیری اور سرد راتوں میں کھلے آسمان تلے سونے والے لوگوں کا دکھ برداشت نہیں ہوتا وہ بھلا اپنے شہریوں کو ان کرائے کے غنڈوں کے ہاتھوں مرتا دیکھ کر کیسے چپ رہ سکتا ہے۔ قوم آج بھی اس کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنے قائد کو یقین دلاتی ہے کہ ٹیپو سلطان کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“

اگر حکومت کی بھی قربانی دینی پڑے تو ان چوروں لٹیروں اور سیاسی جیب کتروں کے پروردہ قاتلوں کو سرعام پھانسی پہ لٹکا دو جو افسر اس درندگی میں ملوث ہے وہ بلا تفریق پھانسی کے پھندے پہ قوم جھولتا ہوا دیکھنا چاھتی ہے۔ شاید ان چار بے گناھوں کی قربانی اسی طرح اس ملک میں ان شتر بے مہار اداروں کو ان کے ناپاک ارادوں سے باز رکھ سکے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک بچہ ”پپو“ اغوا ہوا تھا جس کو اغوا کاروں نے قتل کر دیا لیکن حکومت نے کیس کا فوری طور پہ ٹرائل کر کے قاتلوں کو سرعام پھانسی پہ لٹکا دیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ دس سال تک نہ کوئی بچہ اغوا ہوا اور نہ ہی قتل۔

عمران خان قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور پرامید ہے کہ آپ انصاف میں تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔

مرد میدانوں کدے نئیں ہٹدے۔

قول زبانوں کر کے۔

مرد لڑائیاں لڑ دے رہندے۔

جان تلَی اتے دھر کے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).