ان تین کو بھی مار دیتے


 ان کو کیوں چھوڑا۔ ساری عمر سارا معاشرہ ان کی اذیت کو تولنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ ہر سال اس برس ان کی معصوم یاداشت پہ یہ قہر تازیانے برسائے گا۔ کتنی گولیاں لگی۔ کس سمت سے لگی۔ کس نے ماری۔

 آپ ماں کی گود میں تھی۔ ماں کیا لاڈ کر رہی تھی۔ سب سوالوں کے جواب مل جائیں گے لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ کیوں مارا؟ ماں کو اور ابا کو اور باجی کو کیوں مارا؟ نئے پاکستان میں ریاست مدینہ میں۔ ہم تینوں کے سامنے ہمارا ماں باپ اور بہن کو کیوں مارا۔ ماں کتنی حساس ہوتی ہے۔ جو کہتی یے عابد سب کچھ سہہ سکتی ہوّں بیٹی کا دکھ نہیں سہہ سکتی۔ ماں۔ ماں۔ ماں۔ گولیوں کی آوازیں اور ماں ماں ماں کی پکار میں زیادہ شور شاید گولیوں کا تھا لیکن فرش کا سینہ ماں ماں ماں کی جگر سوختہ نداوں نے چاک کیا ہو گا۔

گولیوں کی بوچھاڑ میں کس نے کس کو پکارا ہو گا ”؟ زمیں اور آسمان کے درمیان کی مخلوقات نے، فرشتوں نے انسانون پہ کتنی بے شمار لعنتیں رسید کی ہوں گی۔ کتنا دکھ لکھا ہوگا۔ کتنے کالم نگار۔ کتنے صحافی۔ کتنے دانشوروں نے نوحہ پڑھا ہوگا۔ حادثاتی طور پہ بچ جانے والی تین معصوم روحوّں کا دکھ کون لکھے گا؟ اس کائنات میں روز کیا کچھ نہیں ہوتا لیکن ایسا تو شاید شام کی خانہ جنگی میں بھی نہ ہوا ہوگا، ایسا تو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی نہ ہوا ہوگا۔

یہ تین بھی مار دیتے۔ ان کو ہمارا معاشرہ ساری عمر مارتا رہے گا۔ ان کے سامنے ان کی ماں کے سینے میں لگی گولیاں۔ باپ کے خون کے قطرے۔ آج خدا خود بھی رویا ہو گا اس نے فرشتوں کی پہلی باتوں پہ بھی سوچا ہو گا۔ آج کی رات کتنے عذاب اترے ہوں گے۔ حاکم اعلی کی اہلیہ کتے کی آنکھوں کے آنسوؤں پہ رنجیدہ ہ ہوئی تھی آج کیسے سوئی ہوگی۔ ہم روایت پسند لوگ ہیں ہم سانحوں کو ایسے ہی نپٹاتے ہیں جیسے ہم سے پہلے کرتے تھے۔ جے آئی ٹی۔

تحقیقات۔ کیفر کردار۔ معاوضہ۔ انصاف۔ استعفی۔ میں جذباتی پیرائے کے بجائے فکر انگیز پیرائے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میرے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس حادثے کو میرا دماغ قبول نہیں کر رہا۔ میں ابھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ ایسا ہو سکتا ہے حالانکہ یہ اب سے کئی گھنٹے پہلے ہو چکا یے۔ سب فرشتے اس کی گواہی دے چکے ہیں۔

اس اذیت کے عالم میں مجھے کمرہ نمبرایک کا ثاقب نثار یاد آیا۔ کاش یہ واقعہ نہ ہوتا۔ یا کاش یہ واقعہ سترہ جنوری سے پہلے ہو جاتا۔ اگر اس نے ہونا ہی تھا۔ وہ یقینا اس نئے پاکستان کے مصنوعی تصور کا بھرم رکھ لیتا۔ وہ خود بھی روتا تھا۔ وہ حساب برابر کرتا تھا۔ وہ معاملہ فہم تھا۔ اب وہ جاچکا ہے میں اب کمرہ نبمر ایک کے خدوخال کو ذہن میں لاتا ہوں لیکن مجھے ثاقب نثار وہاں نَظر نہیں آتا۔ میں ریاستی عمل میں افراد اور ہیروازم کا قائل نہیں ورنہ میں دعا کرتا کہ خالقا ایک ثاقب نثار اور۔

اب ذمہ دار کون ہے۔ پرانی مافیا ٹائپ پولیس۔ سفاک لوگ۔ غیر تربیت یافتہ۔ انسان دوستی اور ہمدردی سے بے نیاز۔ جذبہ انسانی سے محروم۔ ظالموں کی ساتھی۔ سیاسی رحجانات رکھنے والی۔ اور کون۔ پیشہ۔ ورانہ صلاحیتوں کا فقدان۔ محکمانہ مسائل۔ اور کون۔

مکالمے کو درست انداز میں دیکھنا چاہیے۔ نئی حکومت اور عمران خان کے نئے پاکستان کی بنیاد شاید یہاں سے پڑ جا ئے۔ آپ یہاں سے شروع کریں خان صاحب۔ آپ بھی ذمہ دار ہیں اگر آپ انصاف نہیں کریں گے۔ آپ کے عثمان صاحب بھی۔ اصلاحات کریں۔ درانی کو برداشت کیا ہوتا تو کچھ کام شروع ہو چکا ہوتا۔ ریاستی نظم و نسق کو ادارے چلاتے ہیں افراد نہیں ورنہ میں دعا کرتا کہ ایک ثاقب نثار اور۔ پولیس والوں کو کیا ہر ظالم کو سزا دیں اور ساتھ ہی اور کام بھی کریں۔ سزا اور جزا میں زندگی ہے۔ قصاص میں بھی۔

ان تین کو اگر مار دیتے تو دکھ چند سال تک مر جاتا المیہ یہ ہے کہ یہ دکھ ہماری نسل جھیلے گی کئی اور دکھوں کے ساتھ۔

رویے بنائیں، پولیس کیا ہر محکمے میں سفاک ہیں سار محکمہ گندا نہیں۔ گندے لوگوں کو سزا دیں۔ لٹکائیں سر عام لٹکائیں۔ اس ریاست کے پیرین میں ایک ٹاکی یہ بھی لگ سکتی ہے کہ سزا دیں شاید کچھ جرائم کی شرح میں کمی آئے۔

ریاست مدینہ میں بھی جرائم ہوتے تھے لیکن انصاف مل جاتا تھا۔ فوری انصاف۔ مرنے والے اور مارنے والوں نے ریاست مدینہ کے وارثوں کو امتحان میں ڈال دیا یے۔ ریاست مدینہ کے احکامات کا منتظر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).