میڈیا انڈسٹری پر برا وقت اور جمہوریت کا مسقبل


90 کی دہائی میں ایک ایسا وقت آیا کہ ڈش انٹینا پر غیر ملکی چینلز کو ہی عیاشی سمجھا جانے لگا تھا، ایسے میں بھارتی چینلس کو تو جیسے سویٹ ڈش کی حیثیت حاصل تھی۔ اسی دور میں زی ٹی وی کے نیوز بلیٹن ہم جیسوں کی دلچسپی کا باعث بن گئے، وجہ صرف یہ تھی کہ پہلی دفعہ خبروں کو حکمرانوں کے نرغے سے نکل کر عوامی نقطہ نظر پر مرکوز دیکھا، ان دنوں تہلکہ ڈاٹ کام جیسی خبروں اور آئے روز کے ریاستی انتخابات کی خبروں نے نہ صرف راہول اور پریانکا سے روشناس کروایا بلکہ لالو پرساد یادیو کے لہجے سے بھی آشنائی دی، اور تو اور زی ٹی وی نے جیہ للیتا اور اوما بھارتی کا بھی فرق سمجھا دیا۔

یہ پی ٹی وی کے عادی لوگوں کے لئے بالکل نیا تجربہ تھا کیونکہ نجی چینلز کی نشریات کو بھی ایس ٹی این جیسا سمجھنے والوں کو پتہ چلا کہ خبر اصل میں ہوتی کیا ہے۔

مشرف کے دور میں جب پاکستان میں نجی ٹی وی چئنلز کی شروعات ہوئی تو گویا اطلاعات کی دنیا میں انقلاب آگیا، جگہ جگہ نجی ٹی وی چینلز کی خبروں پر تبصروں کا سلسلہ تھما نہیں تھا کہ ٹاک شوز لوگوں کو بھا گئے، یہاں تک کہ لوگ ان کو اپنی زبان سمجھنے لگے۔ اس دور میں میڈیا کو بھرپور عوامی پذیرائی حاصل تھی، لوگ اپنے آس پاس کی خبروں کو ٹی وی اسکرین پر دیکھنے کو ایک نعمت سمجھنے لگے تھے۔

اسی دور میں میڈیا کی طاقت نے ہی پرویز مشرف کو زمین بوس کردیا اور پھر ان آنکھوں نے وہ مناظر بھی دیکھے کہ جو شخص وردی کو اپنی کھال کہتا تھا، اسے وہ کھال اتارنی پڑی۔ گوکہ اس کا کریڈٹ وکلا تحریک اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ سارا کارنامہ کالے کیمرے کا تھا۔ پھر پیپلز پارٹی کا دور آیا تو میڈیا نے ان کو بھی نہیں بخشا، نتائج سب کے سامنے ہیں۔

آج 11 سال بعد میڈیا انڈسٹری اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، نہ صرف ٹی وی چینلز بلکہ اخبارات بھی بدترین مالی بحران کا شکار ہیں، جس رفتار سے چینلز کھل رہے تھے اس تیزی سے روبہ زوال ہیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ متاثر ورکنگ جرنلسٹ ہورہا ہے، جس کا نہ صرف روزگار متاثر ہو رہا ہے بلکہ مستقبل بھی مخدوش ہے، لیکن میڈیا کی خراب صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔

حالات کا ایمانداری سے جائزہ لیں تو منیر نیازی کا مصرعہ صادق آتا ہے کہ “کچھ شہر کے لوگ وی ظالم سن، کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی”

اس بات سے تو انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کی آزادی صاحبانِ مسند کو کبھی بھی راس نہیں آئی مگر وہ برداشت اس لئے کر جاتے تھے کہ ان کو اندازہ تھا کہ عوام کی طاقت اور حمایت میڈیا کے ساتھ ہے، شاید اس لیے وہ یہ کڑوا گھونٹ پی جاتے تھے۔ حکومتیں سخت تنقید برداشت بھی کرتی رہیں اور اس انڈسٹری کو مراعات بھی دیتی رہیں مگر یہ سب کچھ بادلِ ناخواستہ ہی تھا۔

یہ حقیقت بھی ماننی پڑے گی غیرمعمولی طاقت نے ان لوگوں کا دماغ خراب کردیا جو میڈیا کے کرتا دھرتا تھے، انہوں نے کہیں نہ کہیں اس آزادی کا غلط استعمال کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی یہ حرکات کسی نہ کسی روز سب کو مشکلات سے دوچار کر سکتی ہیں۔ پھر میڈیا گروپس کے درمیان بات اختلافات سے بڑھ کر نیوز بلیٹنز اور ٹاک شوز کا حصہ بننے لگے، پھر یوں ہوا کہ میڈیا ہاؤسز سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل نظر آنے لگے۔ کچھ چینلز نے جان بوجھ کر خبروں کو ٹوئسٹ دے کر پروفیشنل بے ایمانی کا بازار گرم کردیا، کچھ چینلز نے فیڈنگ لے کر ٹاک شوز کرنے اور سیاسی لوگوں کو آن ایئر بے توقیر کرنے کو وتیرہ بنا لیا۔ اس قسم کی پے در پے غلطیوں نے میڈیا کو اس نہج پر لا کھڑا کردیا کہ عوام الناس ان سے متنفر ہو گئے۔

اب میڈیا کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی لوگوں کو بڑی لگنے لگیں، اس عرصے میں سوشل میڈیا ایک متبادل ذریعہ بن چکا تھا، عوام اپنے غم و غصے کا کھل کر سوشل میڈیا پراظہار کرنے لگے۔ عوامی حمایت کھونے کے بعد میڈیا کا گلا دبانا ممکن بن گیا، کیونکہ جن کو تنقید سننا کبھی گوارا ہی نہیں تھا اب ان کے لئے جوابی وار کرنا اتنا دشوار نہیں رہا۔

اب جبکہ میڈیا کا گلا گھونٹنے کے سارے انتظامات مکمل ہیں، کیا اس صورتحال میں تبدیلی ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب ملک میں جمھوریت سے مشروط ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آئندہ دنوں میں میڈیا کے لئے صورتحال یہی رہتی ہے تویہ اس بات کا پکا اشارہ ہے کہ جمھوریت کا مستقبل بھی مخدوش ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).