جھرلو حکومت کا فراڈ بجٹ


سرمایہ کا نہ کوئی وطن ہوتا ہے نہ مذہب۔ سرمایہ وہاں آتا ہے جہاں وہ محفوظ ہو جہاں خطرہ نظر آئے وہاں سے فرار ہو جاتا ہے۔ پاکستان سے سرمایہ فرار ہو رہا ہے۔ جہاں سرمایہ کا فرار شروع ہو جائے وہاں معاشی افراتفری کو کوئی نہیں روک سکتا۔ جھوٹ، دھوکہ اورفراڈ سے مسلط حکومت کو کسی سیاسی قوت نے تسلیم نہیں کیا، بندوق کے زور اور عدالتی فیصلوں سے کسی کو حکمران تو بنایا جا سکتا ہے لیکن اس زور زبردستی سے پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی کو کوئی عدالتی فیصلہ ختم کر سکتا ہے اور نہ طاقت کے خوف سے کسی کو سرمایہ کاری پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

صرف چھ ماہ میں معیشت کو تباہ کرنے والے اب بھی معاشی تباہی کے فیصلوں کے جواز دے رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے منی بجٹ پیش کرتے ہوئے معاشی خرابی کی ذمہ داری سابق حکومت پر عائد کرتے ہوئے ایک جواز یہ بھی گھڑا ”روپیہ کی قدر مصنوعی طریقے سے بڑھائی ہوئی تھی“ اور دوسری سانس میں یہ انکشاف کیا کہ پاکستان کی 70 فیصد درامدات توانائی سے متعلق ہیں۔ جس ملک میں درمدات کا بڑا حصہ توانائی سے متعلق ہو وہاں تو مقامی کرنسی کی قیمت کم کرنے کا کوئی جواز نہیں دیا جا سکتا۔

ایک لمحہ کے لئے فرض کر لیں سابق وزیر اسحاق ڈار نے مصنوعی طریقے سے پاکستانی روپیہ کی قدر زیادہ رکھی ہوئی تھی تو اس فیصلہ پر بغیر شہادت کے نشان حیدر دینا چاہیے ناکہ تنقید۔ تین سال تک اگر اسحاق ڈار نے پاکستانی روپیہ کی قیمت 96 روپیہ سے 102 روپیہ تک برقرار رکھی تو تین سال کے دوران کم قیمت توانائی کی درامدات ہوئیں۔ تین سال تک مقامی اور عالمی قرضے بڑھنے نہیں دے اور تین سال تک پاکستانی روپیہ جنوبی ایشیا کی طاقتور کرنسی رہا، ان تین سال کے دوران حصص بازار ”جس کا اعتراف خود منی بجٹ پیش کرتے ہوے کر لیا ہے“ 53 ہزار کی حد تک رہا۔ تین سال تک بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شرح سود پانچ سے سات فیصد تک رہی۔

معاشی لال بھجکڑوں نے چھ ماہ میں کیا کیا ہے؟ روپیہ کی قیمت 140 روپیہ پر پہنچا دی ”ان کے پاس ہر شعبہ کے ماہرین ہوتے ہیں لیکن معاشی ماہرین کے لئے وہ کبھی معین قریشی لاتے ہیں، کبھی شوکت عزیز اور کبھی شاہد جاوید برکی۔ انہوں نے دھوکہ دیا کہ روپیہ کی قیمت کم کرنے سے برامدات میں اضافہ ہو جائے گا۔ اگر ان کے پاس اپنے معاشی ماہرین ہوتے وہ اعتراض کرتے جس ملک میں 70 فیصد توانائی درآمد ہوتی ہو وہاں روپیہ کی قیمت کم کرنے سے برامدات میں اضافہ نہیں ہو گا بلکہ برامدات کی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی اور درامدی بل میں بھی اضافہ ہو گا اور تجارتی خسارہ بھی بڑھے گا۔

ملک میں جاری معاشی افراتفری کے سب ذمہ دار ہیں اور سب ایک دوسرے کو تحفظ بھی دے رہے ہیں۔ یہ خبریں کافی نہیں کہ  ”ایک ماہ سے آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات نہیں ہوئی“ خبریں یہ اہم ہیں ملک میں سیاسی استحکام کے لئے کیا اقدامات ہوئے ہیں؟ ساہیوال کے سانحہ کے بعد لوگوں میں ملک چھوڑنے کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ جہاں عام لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو جائے وہاں سرمایہ نہیں آتا بلکہ سرمایہ فرار ہوتا ہے۔

نان فائلر پر لاٹھی لے کر جنرل مشرف بھی بھاگا تھا لیکن فوجی سروے کے دوران جب تاجروں نے لاٹھیاں اٹھا لیں تو سروے ختم کر دیا گیا اور سب سکون کے ساتھ رہنے لگے۔ نان فائلر پر ٹیکس کی بات کانوں کو بھلی لگتی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ نان فائلر پر پہلے پراپرٹی خریدنے اور گاڑیاں خریدنے پر پابندی عائد کی جب آٹو مارکیٹ تباہ ہو گئی اب یہ پابندی ختم کر دی ہے چھ ماہ میں جو نقصان کر دیا اس کا کون جواب دے گا۔

بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شرح سود میں اضافہ کر دیا کون احمق کاروبار کرے گا وہ تو ڈالر خریدے گا وہ تو سونے کے بسکٹ خریدے گا وہ بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھ کر سود کھائے گا وہ کاروبار کا رسک کبھی نہیں لے گا۔ اگر ان کے پاس معاشی ماہرین ہوتے وہ کبھی بھی شرح سود میں اضافہ کی اجازت نہ دیتے۔ جو کارنامہ بیان کر رہے ہیں زرعی قرضوں میں 22 فیصد اضافہ ہوا تو یہ کارنامہ نہیں زرعی شعبہ کی مجبوری ہے، صنعتی قرضوں میں اضافہ ہوتا تو اس کی تحسین کرتے۔

حصص بازار میں کیپٹل گین ٹیکس کیری فارورڈ کرنے یا حصص کی خرید وفروخت کے کمیشن پر ٹیکس ختم کرنے سے کبھی بھی حصص بازار میں اضافہ نہیں ہو گا یہ مارکیٹ اس وقت مستحکم ہو گی جب ملک میں امن و امان ہو گا جب سرمایہ کاری کا ماحول ہو گا جب سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو گا۔

درامدی خام مال پر ڈیوٹیاں کم کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک پیداواری لاگت کم نہیں ہوتی۔ گھروں کی تعمیرات کے لئے پانچ ارب روپیہ مختص کرنا صرف ایک ڈرامہ ہے، نان فائلر پر پراپرٹی کی خریدای پر پابندی ختم کریں تو صرف ایک روز میں پانچ ارب روپیہ کے ٹیکس حاصل ہوسکتے ہیں ابھی تو خرید وفروخت ہی ختم ہو چکی ہے اور ساتھ ہی ٹرانسفر فیس، کیپٹل گین اور کیپٹل ویلو ٹیکس اور اسٹام دیوٹی بھی نہیں مل رہی۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ہی روپیہ کی قیمت مسلسل کم کرتے ہوئے 140 روپیہ پر پہنچا دی۔ تمام غیر ملکی اور مقامی قرضے ہی نہیں بڑھائے بلکہ عالمی مالیاتی فنڈ کے سامنے اپنی پوزیشن بھی کمزور کر لی اب پروگرام کے لئے جائیں گے تو وہ دفاعی بجٹ کم کرنے کے لئے بھی کہیں گے اور نئے ٹیکسوں کا مطالبہ بھی جس کا منطقی نتیجہ بے پناہ افراط زر کی صورت میں سامنے آئے گا۔ نگری نگری گھوم کر ادائیگیوں کے توازن کے لئے دو ارب، تین ارب ڈالر کے قرضوں سے کچھ نہیں ہونے والا جب تک بین الا قوامی سرمایہ کار نہیں آتے جب تک برامدات میں اضافہ نہیں ہوتا اور جب تک وہ جھوٹ سچ ثابت نہیں ہوتا “جس دن عمران خان آئے گا، 200 ارب ڈالر بیرون ملک پاکستانی لے آئیں گے۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).