یہ تصویر اور داڑھی والے باپ کا خوف


کل شام سے احمد کو بخار ہے۔ سردرد اور گلے کی سوزش، دوا دارو کا سلسلہ جاری ہے۔ میں اور والدہ تو کیا تیمار داری کریں گے۔ بے چینی اور کڑھن تو دادا، دادی کے نصیب میں ہے۔ جتنی بلائیں کل سے اس کی لی جا رہی ہیں۔ ایک سیرپ پلانے کے لیے کتنے جتن کیے جاتے ہیں۔ ایک گلاس دودھ پلانے سے پہلے جتنی دیر اس کے منت ترلے کیے جاتے ہیں۔ دادی بار بار سر پر ہاتھ رکھ کر بخار دیکھتی ہے۔ دم درود جتنا کچھ آتا ہے پڑھتی جاتی ہیں۔ دو رکعت نفل پڑھ کر صحت یابی کے لیے دعا الگ سے کی۔ بار بار پوچھا جاتا ہے بیٹا کیا کھاؤ گے، کیا پسند ہے۔۔۔۔؟

حسین بچپن ایسا ہی ہوتا ہے، جب چاروں طرف محبتیں نچاور کی جارہی ہوں۔ ایک بار کراہنے پر صدقے، قربان کا شور اٹھے۔ ہمیں بھی دادا، دادی کی محبتیں یاد ہیں۔ آپ سب نے بھی یہی کچھ اپنے بچپن میں دیکھا ہوگا۔ زیر نظر سطور جب تحریر کی جارہی ہیں تو رات کا ایک پہر گزر چکا ہے۔ احمد میرے سامنے ایک نئے، نرم، گرم کورین کمبل میں لپٹا سویا ہے۔ کیک رس، دودھ اور کئی قسم کے سیرپ اس کے سرہانے پڑے ہیں۔ گیس ہیٹر جل رہا ہے۔

ماحول پر خواب کا سکوت طاری ہے۔ میرے چاروں طرف خاموشی ہے۔ بے چینی ہے تو صرف یہی کہ احمد کا بخار جلد ٹھیک ہو جائے۔ بچے کلیوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ہنستی مسکراتی، چٹکتی کلیاں۔ ان کی تکلیف کا احساس صرف وہی جان سکتا ہے جو ان کا والد ہے۔ واٹس اپ پر کسی نے ساہیوال واقعے کے متاثرہ بچوں کی تصویر بھیجی ہے۔ شاید اسی پٹرول پمپ کی ہے جہاں انہیں چھوڑا گیا ہے۔ چھوٹی بچی کے ہاتھ میں فیڈر ہے۔ ان بچوں کے کپڑوں پر خون لگا ہے۔ ایک بچہ زخمی ہے۔ کہتے ہیں تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ اس تصویر کے سامنے کروڑوں الفاظ عاجز ہیں۔ بچوں کی آنکھوں میں پھیلی مایوسی، دہشت، خوف اور تاریکیاں، غالب اور اقبال بھی شاید اس منظر کا دکھ لفظوں میں نہ اتار سکیں۔

ایسے بچے جن کے والدین ان کے سامنے مار دیے گئے۔ کوئی احمد فراز یا ناصر کاظمی بھی آ جائے تو کیا ان کی کیفیت کا اندازہ لگا سکتاہے؟ ایسے بے یار ومددگار پٹرول پمپ پر چھوڑے گئے بچے، جن کا حال تاریک اور مستقبل اندھیروں کی نذر، دیکھ کر فیض احمد فیض بھی شاید گنگ ہوجائیں۔ یہ کونپل سے بچے گھونسلے سے اتارے گئے چڑیا کے ان چوزوں کی طرح ہیں جن کا پیٹ صرف ان ذروں سے بھرتا تھا جو ان کی ماں لاکر دیتی تھی۔ پھر کسی سفاک شکاری کے ہاتھوں ان کی ماں نشانہ بنی۔ شکاری کے لیے تو یہ چند منٹوں کی تفریح تھی مگر اس قیامت کا اندازہ تو ان چوزوں سے پوچھوجن پر یہ گزری ہے۔

اب سرکار کہتی ہے انہیں تاوان دیں گے، سراج الحق کہتے ہیں ان کی پرورش الخدمت کرے گی۔ تلاش کریں تو کوئی اور بھی مل جائے گا ان کی پرورش کا ذمہ اٹھانے والا۔ مگر میں سوچتا ہوں کسی دن انہیں بھی موسمی بخار ہو گیا تو کون ہوگا جو ان کے سرہانے بیٹھ کر ان کی بلائیں لے گا۔ اس کی ایک کھانسی پر بے چین ہونے والی ماں کہاں ہوں گی۔ ہم میں سے ہر شخص رات بارہ بجے شدید سردی میں بھی نکل پڑتا ہے جب بچے کی دوائی یا دودھ ختم ہوجاتا ہے۔

کسی رات کو جب چھوٹی بچی کا فیڈر خالی ہوگا اور وہ بھوک سے بلبلائے گی تو کون ہوگا جو شدید سردی میں بھی اس کے لیے نکل پڑے۔ اداروں کے اہلکار جتنے بھی مخلص ہوجائیں، عزیز رشتہ دار جتنا بھی پیار دیں بخدا کبھی ماں باپ کا متبادل نہیں بن سکتے۔ اب بخدا یہ جی آئی ٹی علاقے کی ساری پولیس کو پھانسی دیدے، بچوں کو والدین کا متبادل نہیں مل سکتا۔ جن لوگوں نے ”فائر ٹو کل“ کا آرڈر دیا۔ جن لوگوں نے گنیں سیدھی کیں اور ٹریگر پر انگلی رکھ کر دبا دی۔

ایک لمحے کو انہیں کبھی اپنے بچوں کا خیال کیوں نہیں آیا؟ تحقیق کی جانی چاہیے ان کے سینوں میں دل دھڑکتے ہیں یا کالے سیاہ چٹان پڑے ہیں۔ کوئی انسان اتنا احساس سے عاری کیسے ہوجاتا ہے؟ ان کو اب بھی ان کے ناموں سے پکارا جاتا ہے؟ چیتا، بھیڑیا، ریچھ اور کتے ان کے نام کیوں نہیں رکھ لیے گئے؟ ان بچوں اور والدین کا ماضی کیا تھا، یہ تحقیق اب تک حکومت کرنے میں ناکام ہے، مگر یہ تحقیق ابھی حکومت کے ذمے قرض ہے۔

تضاد بیانیاں اور غلط بیانیاں بڑھائی جا رہی ہیں۔ مسئلے کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ اصل سفاکوں پر پردے ڈالے جارہے ہیں۔ یہ تو ماضی کا قصہ ہے۔ ان معصوموں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ سوال تو پورے سماج، ریاست اور نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ واقعہ ہوا ہی کیوں؟ سوال تو سب سے دکھی اور سب سے پریشان کن یہی ہے۔ آئندہ بھی یہ ہوتا رہے گا؟ اس کا صحیح جواب بھی کوئی نہیں دے سکتا۔ تصویر کو جتنا دیکھیں گے سوالات اتنے ہی ذہن میں بڑھتے جائیں گے۔

خوف اور دہشت ہمارے گرد سائیں سائیں کرنے لگی گی۔ اس تصویر میں نظر آنے والے چہروں کے جگہ کچھ دیر میں اپنے تین سالہ احمد اور ڈیڑھ سالہ بشری کو رکھ کر سوچتا ہوں، پھرکیا وہی کیفیت ہے میری جو اب تک تھی؟ اور سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا معلوم کل میرے احمد اور بشری بھی ایسے کسی پٹرول پمپ پر میڈیا کو مل جائیں؟ کیوں کہ میں بھی داڑھی والا ہوں۔

یہ تصویر ہے کہ سوالات کا لا متناہی سلسلہ۔ ایک ایک پہلو سے ہزار ہزار سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جتنا غور سے دیکھیں اتنا ہی سر چکرانے لگتا ہے۔ سوالات کا بہاؤ ہے اور جواب میں خاموشی، گھٹن، عذاب، درد، مایوسی اور لاچاری…


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).