(ہمارے حکمران اور ان کے روحانی مرشد (بقیہ حصہ


بھٹو کیس کے دوران جب بیگم بھٹو اور بے نظیر ہر طرف سے مایوس ہو گئیں تو مشیروں نے روحانی طاقتوں سے مدد کا مشورہ دیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو شاہ عبدا لطیف بھٹائی کے مزار پر گئیں جہاں ایک مجذوب نے ان سے کہا ”تمہارے سر کا سائیں نہ رہے تو بھی بادشاہت تمہارے گھر ہی رہے گی“ اس وقت ان کو یہ مذاق لگا مگر دس بارہ برس بعد بھٹو خاندان کی سیاست میں جگہ بننے لگی تو بے نظیر کو مجذوب کی بات میں وزن محسوس ہوا۔

مانسہرہ سے 45 کلو میٹر کے فاصلے پر ”لساں نواب“ نامی قصبے میں ”رحمت اللہ دیوانہ بابا“ کا آستانہ ہے۔ بابا جی کو عرفِ عام میں ”تنکہ“ بابا کہا جاتا ہے۔ 1991 ء میں بطور قائد حزب اختلاف بے نظیر بابے کے سامنے حاضر ہو گئیں۔ بابا جی نے انہیں دیکھا اور بٹھا لیا۔ بابا جی حاضر ہونے والے تمام زائرین کو حسبِ توفیق ”ڈنڈے“ مارتے تھے اور اسی ”ڈنڈے“ میں ساری ”کرامت“ تھی۔ بابا جی نے بے نظیر بھٹو کو تین عدد ڈنڈے لگاتے ہوئے کہا ”ہن تیری واری اے“ (اب تمہاری باری ہے ) ۔ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور 1993 ء میں بے نظیر نے اقتدار میں آتے ہی درگاہ تک پختہ سڑک کی تعمیر کا کام تیز کرنے کا حکم دے دیا۔

1993 ء کے انتخابات کے دوران فیصل آباد آمد پر بھی ایک سیاسی شخصیت نے بے نظیر کی ملاقات ایک نجومی سے کروائی۔ جس نے کہا آپ کا اقتدار صرف اڑھائی سال تک چلے گا۔ بے نطیر چونک پڑیں اور کہا مجھے ریحانہ (گوجر خان میں مقیم) نے بھی یہی کہا تھا۔

بے نظیر بھٹو چکوال سے چند کلو میٹر پیچھے جاتلی میں (مقیم) مجذوب ”سائیں ببلی“ سے بھی ملی تھیں ان کے ساتھ پرویز اشرف اور ناہید خان تھے۔ ”سائیں ببلی“ نے بے نظیر کو دشمنوں پر قابو پا لینے کی نوید سنائی اور وفد کو تھپکیاں دے کر رخصت کیا۔ دوبارہ اقتدار میں آنے پر مس ناہید نے ”سائیں ببلی“ کو ایک پلنگ تحفے میں دیا اور ہمیشہ رابطہ قائم رکھا۔

کراچی کے علاقے چاکیواڑہ میں ایک ویران اور شکستہ مزار پر ایک غیر مسلم خاکروب ہے، یہ سفلی علوم کا ماہر ہے۔ بے نظیر ان کے پاس بھی اکثر جایا کرتی تھیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے قید کے دوران مذہب کا مطالعہ کیا تو کسی ”اللہ والے“ سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ ان کے سیاسی دوستوں نے میانوالی کے نواب جہانگیر ابراہیم المعروف ”ابرا“ سے زرداری کی ملاقات کا اہتمام کیا۔ ”ابرا“ نے ملاقات میں زرداری کومستقبل قریب میں رونما ہونے والے چند واقعات کے اشارے دیے جو بعد ازاں سچے ثابت ہوئے۔ اس کے بعد زرداری کو ان سے عقیدت ہو گئی۔ پی پی کی حکومت بننے کے بعد ”ابرا“ کو وزیر اعظم ہاؤس میں بلا روک ٹوک آنے جانے کی اجازت تھی۔ یہاں تک کہ اہم میٹنگوں میں بھی وہ بغیر پیشگی اطلاع کے چلے جاتے تھے اور زرداری صاحب ان کا خوشی سے استقبال کرتے۔

1995 ء میں بے نظیر کے دورہ امریکہ کے دوران ”ابرا“ نے پہلی مرتبہ اخبارات میں طلوع ہو کر شہرت حاصل کی تھی۔ داتا دربار پر گھنٹوں بیٹھنے والے میا ں محمد نواز شریف بھی ”بابوں“ پر بڑا یقین رکھتے تھے۔ اسی یقین کے باعث وہ اکثر اہم اجلاس ہفتے کے آخری دنوں میں رکھتے تھے اور سیاسی زندگی میں ”2“ کے ہندسے کو اپنے لیے مبارک سمجھتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی ”رحمت اللہ دیوانہ بابا“ کے آستانہ پر حاضر ہو کر ”تین ڈنڈے“ کھائے، ساتھ ہی بابا جی نے کہا ”تو بادشاہ بنے گا“۔ بابا جی کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور نواز شریف 1990 ء میں وزیر اعظم بن گئے جس کے بعد نواز شریف نے درگاہ تک سڑک پختہ کروانے اور سامنے ہی ہیلی پیڈ بنانے کا حکم دیا۔

مسلم کمرشل بینک جہلم میں عرفان احمد نامی ملازم کو قدرت نے مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت دے رکھی تھی۔ نواز شریف (بطور وزیر اعلیٰ پنجاب) نے کسی شخص کو دو کروڑ دیے اور یہ رقم راجہ افضل تک پہنچانے کو کہا مگر وہ شخص رقم لے کر فرار ہو گیا۔ معاملہ حساس تھا اس لیے کسی دوسرے کو شریک نہ کیا گیا اور عرفان احمد سے رابطہ کیا گیا۔ عرفان احمد نے تاریخ کے ساتھ مقام بھی بتایا جہا ں یہ شخص ملے گا اور یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور شخص گرفتار ہو گیا۔ اس کے بعد نواز شریف اکثر عرفان احمد سے مدد لیتے رہے۔

فیصل آباد ڈجکوٹ روڈ پر دس کلو میٹر کے فاصلے پر ”وسواں آرائیاں“ نام کا گاؤں ہے جس کا صوفی برکت المعروف ”سالار صاحب“ کافی مشہور ہے۔ انہوں نے خود چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور کچھ نہ کچھ تحریر کرتے رہتے ہیں۔ فیصل آباد کے ایم این اے شیر علی نواز شریف کو ان کے پاس لے کر گئے جہاں ”سالار صاحب“ نے میاں صاحب کے لیے دعا کی۔ نواز شریف اور صدر اسحاق کے درمیاں جب آویزش طول پکڑ گئی تو نواز شریف مشورے کے لیے ”سالار صاحب“ کے پاس گئے مگر انہوں نے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کر دیا کہ ”یہ شخص اب ہمارے پاس زیادہ ہی آنے لگا ہے“۔

نواز شریف پیر علاؤ الدین سے بھی بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ پیر صاحب سے نواز شریف کو ڈاکٹر طاہر القادری نے ”اچھے“ دنوں میں متعارف کرایا تھا۔ جب بلوچستا ن میں میر ظفر اللہ خان جمالی کے لیے حالات ٹھیک نہیں تھے تو وہ بھی ”رحمت اللہ دیوانہ بابا“ کے حضور حاضر ہوئے اور ان سے خاصی عقیدت رکھتے ہیں۔ مئی 1990 ء میں غلام مصطفی جتوئی نے ”رحمت اللہ دیوانہ بابا“ سے ”ڈنڈے“ کھائے۔

ملکی سیاست کے جوڑ توڑ کے ماہر چودھری شجاعت کے پیر مولانا خان محمد ہیں، راجہ پرویز اشرف صوفی حمید کے مرید ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے پیر حسن خان تھے۔ میاں منظور احمد وٹو سید سرفراز شاہ سے وابستہ رہے جنہوں نے جنر ل جہانگیر اشرف قاضی کو عارضی آرمی چیف بننے اور جسٹس الیاس عبوری گورنر شپ کی نوید پہلے ہی سنا دی تھی۔

اقبال احمد خان، چودھری عبدالستار (ایم۔ این۔ اے ) اور ملک اللہ بخش ٹوانہ ہری پور کے بزرگ ڈاکٹر جان محمد وارثی کے معتقد ہیں۔ اقبال احمد خان نے تو پاکستان نظریاتی کونسل کی چیر مین شپ اس وقت تک قبول نہ کی جب تک وارثی صاحب نے اجازت نہ دی۔

دنیا میں موجود روحانی نظام سے انکار ممکن نہیں لیکن اس نظام کے ارباب بست و کشاد کون ہیں۔ ؟ کہاں ہوتے ہیں۔ ان تک کیسے پہنچا جائے۔ ؟ یہ تفصیل طلب اور متنازع موضوع ہے۔ البتہ عہد حاضر میں انسان کی فطری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ ”داڑھی“ والوں نے اپنا کاروبار بنا لیا ہے اس لیے انسان کو بس اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے کیوں کہ اگلے پانچ سالوں کو محفوظ بنانے کے لیے بزرگ کے ”وظیفہ“ پڑھنے والے لیاقت علی خان ایک ہفتے بعد قتل ہو جاتے ہیں۔

ایک رات بیگم کے ساتھ اقتدار کی مضبوطی کے لیے 45 سے زیادہ ”منتیں“ اور ”مرادیں“ ماننے والے سکندر مرزا کو 3 دن بعد اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے۔ جان کی حفاظت کے لیے ہمیشہ ”امام ضامن“ باندھنے والی بے نظیر بھٹو جس روز قتل ہوئیں ”امام ضامن“ تو اس دن بھی باندھا ہوا تھا۔ ان تمام باتوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ”شاید کسی عقل مند کو عقل ہی آ جائے“۔

نوٹ: تحریر کا زیاد ہ مواد جاوید چودھری کی کتاب ”گئے دِنوں کے سورج“ سے لیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).