لڑکیوں کو زیادہ پڑھانا کیوں درست نہیں؟


کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہو جائے نا تو لوگ اکثر خوش ہونے کی بجائے افسردہ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ کوئی پوچھے جناب اس فکرمندی کی وجہ کیا ہے تو بھولا سا منہ بنا کر کہیں گے ”ارے بیٹیاں کون سا راتوں کو اٹھ اٹھ کے کھاتی ہیں ڈر تو ان کے نصیب سے لگتا ہے“ کیا آپ بھی کسی کی ننھی بچی دیکھ کر ماشاءاللہ کے ساتھ یہ دعا دینے کے عادی ہیں کہ اللہ نصیب اچھے کرے؟ ایسا کیوں ہے کہ ہم ایسی دعاؤں سے لڑکیوں کے اچھے برے نصیب کی ذمہ داری براہِ راست خدا پر ڈال کر خود اس فرض سے چھٹکارا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بیٹوں کی تربیت اچھی کرنا پڑے گی؟

کیا آپ نے کبھی اس ماں کا کرب محسوس کرنے کی کوشیش کی ہے جس کی بیٹی پر پیدائش کے فوراً بعد خاندان کی بڑی بوڑھیاں تبصرے کرتی ہیں لو بھئی دیکھو اس کا تو رنگ پکا ہے کس پر چلی گئی یہ موٹے نین نقش والی؟ ناک تو دیکھو کیسی بے تکی ہے! خود جیسے محترمہ آڈر پر تیار کروائی گئیں تھیں۔ ایسے تبصرے اور کچھ کریں نہ کریں والدین کے دل میں یہ فکر ضرور ڈال دیتے ہیں ہماری بچی تو بدصورت ہے اب اسے بیاہے گا کون؟ کیا آپ لڑکیوں میں سے کسی کو کبھی اس بات پر ڈانٹ پڑی ہے کہ منہ پر نکلنے والے دانے کیوں چھیلے؟ یا کھیل کود میں لگنے والی چوٹ کے نتیجے میں منہ پر آنے والا زخم کا نشان ہمیشہ کے لیے رہ گیا تو آپ کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیونکہ ہمارے ہاں مانا جاتا ہے لڑکی صرف پیدا پی بیاہنے کے لیے ہوئی ہے اس کے علاؤہ اس کا کوئی مصرف نہیں۔

یہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ لڑکیاں پڑھائی میں لڑکوں سے کہیں بہتر پرفارم کر رہی ہیں۔ مگر پچاس فیصد لڑکیاں جب میٹرک میں اچھے نمبر لینے کے لیے جی توڑ محنت کر رہی ہوتی ہیں والدین رشتے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ جیسے جیسے بچی کلاسز پاس کرتی جاتی ہے والدین ساتھ ساتھ جہیز کے لیے ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں۔

انٹرمیڈیٹ، گریجویشن، ماسٹرز جیسے جیسے کلاسز کا لیول بڑھتا ہے بچیوں کا تعلیم پر سے حق گھٹتا چلا جاتا ہے۔ ممکن ہے شہری علاقوں کے باسی اس جملے سے اتفاق نہ کریں مگر میں صرف شہروں کی روداد نہیں سنا رہی۔ جب لڑکی پچیس سال تک پہنچتی ہے تو اکثر خاندانوں کی برداشت کا لیول جواب دینے لگتا ہے۔ ٹینشن ماؤں کی نیند کھا لیتی ہے۔ باپ کو بیٹی بوجھ لگنے لگتی ہے۔ وہی خاندان جس کو پہلے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اتنا پڑھ لکھ جائے گی تو برابر کا رشتہ کیسے ملے کا اس مقام پر آن کھڑا ہوتا ہے کہ جو ملے بسم اللّٰہ کیجئے! ایسے میں لڑکی احتجاج کرنے کی جسارت کرے تو اک کرارا تھپڑ اس کے گال پر رسید کر کے چلاتے ہوئے کہا جاتا ہے ”اپنی عمر دیکھی ہے؟ بوڑھی ہو رہی ہو۔ کون بیاہے کا تمہیں؟

ماں اکثر یہ کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو زیادہ پڑھانا نہیں چاہیے، بھائیوں کو بھی تاکید کرتی ہیں کہ اپنی بچیوں کو زیادہ پڑھانا مت۔ میں ان سے متفق ہوں اس معاشرے میں جہاں عورت آج بھی دوسرے درجے کی شہری ہے۔ اپنی زندگی بارے اہم فیصلے کرنے کے لیے بھی دوسروں کے رحم و کرم پر ہے، عورت کو بس گزارے لائق ہی پڑھنا چاہیے۔ چند جماعتیں جو اس کا دماغ نہ کھولیں، ورنہ زیادہ پڑھ گئی تو خواب دیکھنے لگے گی، آزادی کے، خودمختاری کے، برابری کے۔ سوال اٹھانے لگے گی جو ناقابل معافی جرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).