ساہیوال: ہم اس تبدیلی سے بیزار ہیں


تازہ ترین خبروں کے مطابق وزیراعظم نے بھی رپورٹ طلب کر لی ہے، آئی جی پنجاب نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ یہ دکھاوے، یہ کہانیاں اور یہ شوبازیاں ہم پچھلے دس سالوں میں بے شمار مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ یہاں پولیس والوں کو معطل ہوتا بھی دیکھا ہے، پھر سے ترقی پا کر عہدوں پر بحال ہوتے بھی دیکھا ہے۔ ہلتی ہوئی انگلی بھی دیکھی ہے اور نوٹس پر نوٹس لینے والا عمل بھی دیکھا ہے اب ہم ان شوبازیوں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ اب ہم کو شوبازیاں نہیں بلکہ عمل چاہیے۔ عمل!

جے آئی ٹی اور انکوائری بٹھانا بالکل ٹھیک ہے لیکن اس سے پہلے سی ٹی ڈی کی آپریشن ٹیم کی گرفتاری ہونی چاہیے جنہوں نے دن دیہاڑے یہ قتل کیے۔ اگر وہ اس رپورٹ میں سرخرو ٹھہرتے ہیں تو ان کو چھوڑ دینا چاہیے اور دہشت گردوں کو بے نقاب کرنا چاہیے اور اگر یہ سب جھوٹ تھا اور دہشت گردی کے نام پر معصوم انسانوں کا قتلِ عام ہوا ہے تو پھر سی ٹی ڈی کی اس ٹیم اور متعلقہ ذمہ داران کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا تو پھر ہم اس تبدیلی سے بیزار ہیں۔

پہلے شہبازشریف کہتا تھا کہ مجھے ٹی وی دیکھ کر ماڈل ٹاؤن کا پتہ چلا۔ آج عثمان بزدار بھی ساہیوال واقعہ سے بے خبر نکللا۔

پہلے رانا ثناءاللہ کہتا تھا کہ ماڈل ٹاؤن میں مرنے والے دہشت گرد تھے اور آج فیاض الحسن چوہان اور فواد چوہدری بھی وہی باتیں دہرا رہے ہیں کہ مرنے والے دہشت گرد تھے۔ پولیس گردی اور ذمہ داران پہلے بھی آزاد تھے اور آج بھی آزاد ہیں دکھ درد اور کرب کو یکجا دیکھنا ہو تو اسی پولیس گردی کا شکار خلیل، اس کی بیوی اور کمسن بیٹی کی لاشوں کے ساتھ بچ جانے والی دوننھی بیٹیوں اور ایک بیٹے کو دیکھ لیں۔ چھوٹا سا بیٹا روتا ہوا کہتا ہے کہ پاپا نے پولیس کو کہا، ”پیسے لے لو گولی نہ مارو“ ؛ یہ فقرہ پوری داستان ہے! ایک عام آدمی کی پولیس کے بارے میں رائے! نزعی بیان کی طرح! دو ننھی بیٹیاں روتی ہوئی، خون کے چھینٹوں سے لت پت پریشان نظروں سے ادھر ادھر دیکھتیں! یہ دکھ الفاظ میں یہ بیان کرنا مشکل ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانی صدمے اور شاک میں ہیں اور زیادہ تر خوف میں کہ کل ہماری باری ہوسکتی ہے۔

غلطی کس کی ہے؟ انٹیلی جنس کی یا پولیس کی! انٹیلی جنس کو کس نے تباہ کیا؟ نواز شریف سے بڑھ کر زرداری نے۔ نواز شریف کی کرپشن زیادہ تر مالی تھی لیکن زرداری اور بینظیر اس سسٹم کی رگوں میں کینسر بھر گئے۔ بے نظیر کے دوسرے دور میں اس کینسر کی بنیاد رکھی گئی۔ ہائی کورٹ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے جیالے جج بھرتی کیے گئے ؛ جیالے کارکن ایسے ہائی کورٹ میں دندناتے پھرتے تھے جیسے ایم کیو ایم والے عشرت العباد کے گورنر ہاؤس میں۔

پیپلز پارٹی کے تحصیل عہدیداروں کو نواز نے کے لئے 1994 میں انٹیلی جنس، کسٹم، ایکسائز میں انسپکٹر پانچ سے سات لاکھ میں بھرتی کیے گئے۔ آج کل اگر کسی نے پلاٹ خریدنا ہو تو کہتا ہے ”یار اچھی ڈیل مل رہی ہے، دس لاکھ کم ہیں ادھار دے دو“، ان دنوں یہی حال تھا، ”یار تیرے بھتیجے نے انٹیلی جنس انسپکٹر لگنا ہے دو لاکھ کم ہیں، دے دو، وہ“ کما ”کر چند ماہ میں واپس کردے گا“! غضب خدا کا؛ اتنی اہم پوسٹیں، کریانہ کی دوکانوں پر بکیں گی تو ان میں ایسے ہی کھوتے دماغ آج پچیس سال بعد ڈائریکٹر انٹیلی جنس لگے ہوئے ہوں گے۔ نواز شریف نے آکر 1997 میں ان سب کو نکالا تو زرداری نے 2007 میں ان سب کو پچھلے دس سال کی تنخواہ کے ساتھ واپس رکھ لیا۔ یہ سانحہ تو اس ناسور کی محض ایک علامت ہے ؛ ورنہ پورا جسم جکڑا جا چکا ہے۔ ہم نے ووٹ تبدیلی کو دیا تھا۔ اس لیے ہم کو اب اس نظام کی تبدیلی چاہیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).