کسی کو ہم نہ ملے اور ہمیں تو نہ ملا


انتظار کی گھڑیاں ختم اب فیصلے کا وقت آپہنچا ہے، جب سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب گلگت بلتستان کے نجی دورے پہ آئے تھے، اس وقت وہ بہت متاثر ہوئے تھے اور جی بی کیس کے سماعت کے دوران انہوں نے کئی مواقع پر اس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ جی بی کے عوام پاکستان کے ساتھ وفادار ہیں، وہاں کے ہر پتھر پر پاکستان لکھا ہوا ہے، ایسے محب وطن پاکستانیوں کو مزید حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ اسی طرح کی اور بھی بہت ساری باتیں کہی تھی جس سے یہاں کے عوام سپریم کورٹ اور چیف جسٹس صاحب سے امید لگائے بیٹھے تھے، لیکن جب 7 جنوری کو سپریم کورٹ نے جی بی حقوق کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کیا تو اپنے ایک کالم کے ذریعے چند باتوں کی طرف اشارہ کیا تھا جس کا نتیجہ اب سامنے آیا ہے۔

جی بی کے عوام پر 2009 ء سے اب تک مسلسل مختلف نام اور مختلف انداز میں آرڈر پہ آرڈر جاری کرتے جا رہے ہیں۔ 2009 ء میں جاری کردہ نیم صوبائی سیٹ اپ کا خاتمہ اور جی بی آڈر 2018 ء جیسے قوانین کے اطلاق سے یہاں کے عوام میں کافی تشویش پائی جا رہی تھی، لیکن نئی حکومت کی جانب سے لگائے جانے والے تبدیلی کے بلند و بالا نعرے اور وزیراعظم عمران خان کے عبوری صوبہ بنانے کے اعلانات، ساتھ ہی سپریم کورٹ میں جی بی حقوق کے حوالے سے پے در پے سماعت سے عوام میں ایک خوشی دیکھنے کو مل رہی تھی اور اس امید کے ساتھ یہاں کے عوام اطمینان کا سانس لے رہے تھے کہ اب عمران خان کی حکومت ہی ہماری نجات دہندہ ہے اور یقیناً تبدیلی کے بلند بانگ نعرے بھی اپنے کام کر دکھائیں گے، لیکن جب کمیٹی پہ کمیٹی اور سماعت پہ سماعت کے بعد 7 جنوری کو فیصلہ محفوظ ہوا تو عوام میں شدت سے بے چینی پائی جارہی تھی، البتہ اللہ اللہ کرکے دس دن گزرگئے اور 17 جنوری کا دن آیا تو جس فیصلے کا شدت سے انتظار تھا وہ بھی کانوں سے ٹکرانے لگی کہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب جاتے جاتے ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے“ والی مثال قائم کر کے چلے گئے ہیں۔

نہ ہی ہمارے بنیادی حقوق کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کیا، نہ ہی ہماری شناخت کا باقاعدہ اعلان کیا بلکہ بہتر سال پہلے سے جی بی عوام جس انداز میں تھے اسی کی مبارک بادی کے ساتھ خود اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے، جبکہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ ذکر کرچکا ہوں کہ جب اقوام متحدہ کی قراداد کے مطابق جی بی پاکستان کا آئینی صوبہ نہیں بن سکتا تو ہر دفعہ نئی بوتل میں پرانی شراب پیش کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق اگر یہ خطہ متنازعہ ہے تو متنازعہ علاقہ کے حقوق اور قوانین نافذ ہونا چاہیئیں، تاکہ کم از کم یہاں کے عوام اپنی حقوق کی خود حفاظت کرسکیں، البتہ اس دفعہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اتنا مایوس کن بھی نہیں ہے جتنا کچھ لوگ اس کو مایوس کن بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

اس میں چند نکات قابل غور ہیں۔ اس حکم نامے کے مطابق بہتر سالوں کے بعد جی بی عوام کو سپریم کورٹ آف پاکستان تک رسائی تو مل گئی۔ سپریم کورٹ نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے تو اب ہمیں مزید آئینی صوبے کے کھوکھلے نعرے لگانے کے بجائے متنازعہ علاقے کے قوانین اور حقوق کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ جب ہم متنازعہ ہیں تو کیسے سی پیک جیسی راہداری اس متنازعہ خطے سے گزر رہی ہے؟ متنازعہ علاقے میں بھاشا ڈیم کی تعمیر کس قانون کے مطابق ہونے جارہی ہے؟ یہی متنازعہ علاقہ ہی ہے جو دنیا بھر میں امن اور سیاحت کے نام پہ ملک کا نام روشن کررہا ہے۔ ہمارے حکمران دنیا کی دوسری بلند چوٹی پر فخرکرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ وہ چوٹی بھی اسی متنازعہ علاقے میں ہی واقع ہے، لیکن جب ہمیں حقوق دینے کی بات آتی ہے تو متنازعہ حثیت یاد آ جاتی ہے۔

ہمارے آباؤ اجداد نے جب اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگروں سے آزاد کرا کر اس خطے کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا، تبھی تو آج تک ہمیں لٹکائے رکھا جا رہا ہے، اگر اس خطے کے حصول کیلے ریاست کو معمولی بھی زحمت کرنی پڑتی تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا جبکہ ہمارے اس خطے کی حصول کے لئے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں، لیکن ہمارے حکمران بے حسی کے آخری درجے پر ہیں اور ہم ہیں کہ بہتر سالوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہم پاکستانی بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).