سانحہ ساہیوال ’پولیس کلچر میں اصلاحات کا فیصلہ؟


وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اعلی سطحی اور کابینہ اجلاسوں میں سانحہ ساہیوال کے پیش نظر پنجاب پولیس میں فوری اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کا پنجاب پولیس کلچر میں اصلاحاتی ایجنڈے میں کے پی کے پولیس طرز کا ایکٹ لانے ’پہلے مرحلے میں سو ماڈل پولیس اسٹیشنز قائم کرنے اور اہلکاروں کی جدید خطوط پر تربیت کرنا شامل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات ہر گز قابل برداشت نہیں ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پولیس کے روایتی کلچر کو کس حد تک اپنے اصلاحاتی ایجنڈے میں ڈھال پاتی ہے سابقہ حکومتوں کی جانب سے پولیس کلچر میں اصلاحات لانے کے عمل سے عاری دعوے بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں بظاہر حکومتی اعلان کے باوجود یہ چیلنج جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پنجاب میں پولیس مقابلوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس محکمہ کی کارکردگی بے گناہوں کے خون سے تر بتر نظر آئے گی مشکوک مقابلے محکمہ پولیس کی کارکردگی کو گہناتے نظر آتے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں جنوری 2014 ء سے مئی 2018 ء تک جتنے پولیس مقابلے ہوئے ان میں 3345 افراد ہلاک ہوئے جو اوسطا سالانہ تعداد 669 افراد بنتی ہے جبکہ ان مقابلوں مین پانچ سال کے دوران 85 اہلکار جان بحق ہوئے۔ بد قسمتی سے عوام کی نظر میں پولیس کی شہرت اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ اصلی پولیس مقابلے بھی مشکوک نظر آتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں قانون کے رکھوالوں نے جو لاقانونیت کا کھیل کھیلا جس طرح بچوں کے سامنے ان کے والدین کے جسم لہو سے تر کیے گئے اس واقعہ نے ملک میں بسنے والے کروڑوں آنگنوں میں اداسی چن دی۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے محکمہ پولیس کی لاقانونیت کے سامنے اس ملک میں بسنے والے عوام ایک شکار بن چکے ہیں۔ سانحہ ساہیوال حکومت اور اداروں کی ناکامی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ناکامی ہے۔ سانحہ ساہیوال پر اپنی سیاست کے قد آور جھنڈے لہرانے والوں کی کارکردگی بھی کوئی قابل تحسین نہیں رہی وہ بھی اس محکمہ میں اصلاحات لانے میں ناکام رہے۔ اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں سانحہ ماڈل ٹاؤن ’اخروٹ آباد‘ نقیب اللہ محسود اور کراچی میں ہونے والے نوجوان سرفرازکے قتل پر نوٹس لے کر ایکشن لیتی تو آج سانحہ ساہیوال دکھ بھرے جذبات کے ساتھ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن کر بلیک ڈے کے نام سے یاد نہ کیا جاتا اور سہمے ہوئے بچوں کے والدین سر بازار پولیس کی لاقانونیت کی بربریت کا نشانہ نہ بنتے۔

معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے محکمہ پولیس ناگزیر ہے۔ پھر روایتی پولیس کلچر میں اصلاحات لانے کے لئے سابقہ حکومتوں نے دعوؤں کے باوجود مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیوں کیا؟ کیوں پولیس کو عوام دوست نہ بنا کر اس محکمہ اور عوام کے درمیان خلیج قائم کردی۔ پاکستان بائیس کروڑ آبادی رکھنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے پنجاب پولیس کے کندھوں پر صوبہ پنجاب میں بسنے والے والے سو ملین سے زائد باسیوں کے جان و مال کے حفاظت کی ذمہ داری ہے۔

جدید ٹیکنالوجی اور اختیارات سے لیس پولیس فورس کو عوام دوست بنانے میں کون سے محرکات حائل ہیں ’محکمہ پولیس کی استعداد کار میں مثبت اضافہ‘ فلاح و بہبود ’اصلاحات‘ امن عامہ قائم کرنے اور سائل کو بلا تعطل انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے ہر سال بجٹ میں خطیر رقم مختص کرنے کے باوجود عام آدمی عدم تحفظ سے دوچار کیوں ہے۔ بد قسمتی سے پولیس نے ہمیشہ حکومت کی بی ٹیم کے طور پر کام کیا جس کے باعث یہ ملک پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں اسکارٹ لینڈ یارڈ پولیس کی یہ روایت ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے کسی بھی مقدمہ اور کیس میں وہ کسی سیاسی دباؤ کا شکار نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی سیاسی دباؤ قبول کرتی ہے۔ مغرب کے پولیس نظام کو دیکھ لیں وہاں کا پولیس نظام مکمل طور پر غیر سیاسی ہے پولیس میں بھرتی کا عمل شفاف ہے اور حکمران پارٹی کے لئے کوئی کوٹہ مختص نہیں ہوتا لیکن اس کے برعکس پاکستان میں ہمیشہ اہلیت کو نظر انداز کر کے بھرتی کے عمل کی شفافیت کو گہنایا جاتا ہے۔

ہر حکومت نے اس محکمہ کی صلاحیتوں کو اپنے مفادات کے لئے تجربات کی نذر کیا اشرافیہ اور وی آئی پیز کی نگہداشت کے لئے ان کے اختیارات سمیٹ دیے گئے۔ 1997 ء میں پنجاب پولیس کے سابق انسپکڑ جنرل سردار محمد خاں مرحوم کی کتاب The Ultimate Crime شائع ہوئی وہ اس کتاب میں ایک جملہ لکھتے ہیں کہ اگر پولیس کی کارکردگی بہتر بنانی ہے تو پھر اسے اعتماد دینا ہوگا اس کا مورال بلند کرنا ہوگا۔ بد قسمتی سمجھ لیجیے سابقہ حکومتوں نے محکمہ پولیس میں اصلاحات کے نام پر ایسے اقدامات اٹھائے جن سے ان کی پبلسٹی مقصود تھی جس کی وجہ سے اس محکمہ کی کارکردگی صفر رہی عوام اور پولیس کے درمیان خلیج بد ستور قائم رہی۔

ہر حکمران کی یہ شدید خواہش ہی رہی کہ پولیس کلچر میں اصلاحات لائیں گے لیکن یہ ایک پر کشش اعلان سے آگے کی حدیں کراس نہ کر سکا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سنجیدگی کے ساتھ محکمہ پولیس میں اصلاحات کے حوالے سے اقدامات نہیں اٹھائے گئے پولیس آرڈر 2002 ء کا مقصد پولیس کو جوابدہ ’خودمختار‘ پیشہ ور اور سیاسی مداخلت سے پاک بنانا تھا لیکن یہ پولیس آرڈر بھی غیر مؤثر ہوگیا۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت پولیس کلچر میں اصلاحات لانے میں سنجیدہ ہے تو پھر وفاق کو چاہیے کہ وہ تما م صوبوں میں یکساں قانون اور حکمت عملی تیار کرے۔

سیاستدان پولیس کو احکامات دیں گے تو رول آف لاء کیسے قائم ہوگا محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے اگر پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیا جاتا تو سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش نہ آتا ’کراچی کے یہ حالات نہ ہوتے۔ حکومت کو چاہیے کہ جعلی پولیس مقابلوں کو نظر انداز نہ کرے بلکہ ایسے واقعات کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں تاکہ پولیس ریاستی آلہ کار کے طور پر استعمال نہ ہوپولیس اور سیاست کے ملاپ سے بے بس عوام متاثر ہوتے ہیں۔

اس وقت آبادی کے لحاظ سے پانچ سو سے زائد افراد پر ایک پولیس ملازم تعینات ہے محکمہ پولیس کو مزید فعال بنانے کے لئے اہلیت کی بنیاد پر نئی بھرتیاں عمل میں لانے کی اشد ضرورت ہے قانون سازی کے ذریعے نا اہل ’کرپٹ پولیس افسر ان اور اہلکاروں کو محکمہ سے فارغ کیا جائے تاکہ ذیشان کاظمی‘ عابد باکسر ’نوید سعید اور راؤ انوار جیسے کردار اس محکمہ میں دوبارہ جنم نہ لے سکیں۔ اکیسویں صدی کے لاء اینڈ آرڈر اور جرائم سے متعلقہ چیلنجز سے احسن اور بھر پور طریقہ سے نبرد آزما ہونے کے لئے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال نا گزیر ہے۔

جب تک پولیس کے واچ اینڈ وارڈ اور انویسٹی گیشن نظام کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جاتا تب تک معاشرے میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر موجودہ حکومت انگریز سے ورثہ میں ملے اس پولیس نظام میں اصلاحات کی اینٹ چننے میں کامیاب ہو گئی تو پھر معاشرے میں امن عامہ کا قیام ممکن ہے۔ ورنہ اقتداری ایوانوں سے پولیس کلچر میں اصلاحات کے بلند ہوتے عمل سے عاری دعوے اس کلچر کو تقویت دیتے رہیں گے۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).