لاندی، سردیاں اور اگلی نسلیں


باہر شدید سردی، گیلی مٹی، برف، بارش کا پانی اور شدید اندھیرا ہے۔ آپ آتشدان میں جلانے کی لکڑیاں ڈالے آگ تاپ رہے ہیں۔ آگ کے شعلے لپک رہے ہیں اور کمرے کی دیواروں پر روشنیاں ناچ رہی ہیں۔ ایسے میں کھانے کے دسترخوان پر”لاندی“ کا گوشت ہو تو بلوچستان کے لوگوں کو اور کیا چاہیے۔

کھانے ہماری ثقافت کا حصہ ہوتے ہیں۔ ثقافت زمانوں کی پرورش پا کر بڑھتی ہے۔ موسم اور سماجی حالات اسے تشکیل دیتے ہیں۔ تہذیب جس طرح آہستہ آہستہ پروان چڑھتی ہے، لباس، کھانے اور رہائش کی ثقافت بھی اسی طرح آگے بڑھتی ہے اور منظم شکل اختیار کرتی جاتی ہے۔ آج ہمارے سامنے یہ جس شکل میں ہے ممکن ہے آئندہ چند عشروں بعد یہ کسی اور صورت میں بدل چکی ہو۔

لاندی کا گوشت بلوچستان کی ثقافت ہے۔ یہ گوشت کا مخصوص فلیور ہے جسے پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے لوگ بھی اب شوق سے کھانے لگے ہیں۔ لاندی کیا ہے بس دنبے کا سوکھا گوشت ہے۔ یہ سردیوں میں کھائی جاتی ہے۔ قلعہ سیف اللہ، لورالائی، پشین، برشور اور کاریزات کے علاقے اس کا مولد و جائے پیدائش ہیں۔ پہلے لاندی کا گوشت صرف گھروں میں تیار ہوتا تھا۔ اب یہ بازار میں بھی دستیاب ہوتا ہے مگر یہ ادھورا ہوتا ہے۔ اسے پوری طرح تیار کرنے کے لیے گھر میں بہرحال محنت کرنی ہوتی ہے۔ اب وہ سردیاں نہیں رہیں جو کبھی بلوچستان کی خاصیت ہوا کرتی تھیں مگر لاندی اب ثقافت کے ساتھ فلیور بن چکا ہے۔ حالانکہ یہ سردیوں کے اس زمانے کی ایجاد ہے جب سردیاں موسم نہیں، آفت بن کر آتی تھیں۔

ہمارے بزرگوں کو آج بھی یا د ہے کہ جب برف باری اتنی ہوئی تھی کہ گھر وں کی دیواروں تک برف چڑھ آتی تھی۔ کئی کئی دن محصور ہو کر رہنا پڑا۔ اس سے کم گھٹنوں گھٹنوں کی برف تو ہر سال کئی بار برستی تھی۔ برف باری کے بعد چلنے والی ہواوں کے باعث جسم میں خون منجمد ہونے لگتا۔ لوگ کئی کئی دن محصور رہتے۔

ایسے موسموں کی تیاری بہت پہلے سے کرنی پڑتی۔ آٹا تو ویسے بھی گندم کٹائی کے سیزن میں سال بھر کا ذخیرہ رکھا جاتا تھا۔ گوشت کے حصول کے لیے موسم بہار کے آغاز سے ہی اچھے سے دنبے دیکھ بھال کر منتخب کیے جاتے اور سردیوں تک انہیں خوب فر بہ کر دیا جاتا تھا۔ خزاں کے آغاز پر انہیں کاٹ کر ان کی کھال نہیں اتاری جاتی بلکہ اس کی کھال سے بال یعنی اون اتارے جاتے۔ اون صاف کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ذبح کے فورا بعد جب اس کی سانس پوری طرح نکل جاتی تو گرم گرم جسم سے ہی اس کی اون کھینچی جاتی ہے۔ اور اس پر موجود رووں کو آگ پر تاپ کر صاف کیا جاتا ہے۔ یہ دنبہ بعد ازاں آلائشوں سے صاف کرکے چھ بڑے بڑے حصوں میں تقسیم کردیا جاتاہے۔ گوشت کے ان بڑے حصوں پر چھری سے بڑے بڑے دھار لگا کر اس میں تہیں بنائی جاتی ہیں اور ان تہوں میں نمک اور کسی قدر مرچ کا چھڑکاو کرکے اسے سوکھنے کے لٹکادیا جاتا ہے۔ نمک مرچ اسے مکھیوں اور کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور جلد سوکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ گوشت سوکھ جاتا ہے تو اسے محفوظ کردیا جاتا ہے۔

شدید سردیوں اور بارشوں میں جب کچے مکانوں کے چھجوں سے گز بھر کے برف لٹک رہے ہوتے تھے، طوفانی برفیلی ہوائیں چل رہی ہوتی تھیں۔ ہوا کے زور سے یہ برف ٹکرا کر گرتے اور تو گیلی جمی ہوئی زمین پر پھسلتے چلے جاتے۔ ایسی سردیوں میں لاندی کے خشک بڑے بڑے پارچے ہی ہوتے جو جسم کو طاقت اور حرارت فراہم کرتے۔ فربہ دنبوں کے چربی جسم کو سردیاں سہنے کے قابل بناتی۔ چربی پگھلا کر سواری کے لیے استعمال ہونے والے گدھے، گھوڑے اور خچروں کے چارے پر ڈال انہیں بھی کھلائی جاتی۔ زندگی کی ساری سرگرمیاں بند ہو جاتیں۔ لوگ سردیوں کا موسم کچے مکانوں کے مضبوط کمروں میں گذارتے۔

یہی لمبی راتیں ہوتی تھیں جنہیں کاٹنے کے لیے لوگ اپنے بزرگوں سے لوک کہانیاں سنتے۔ بزرگ اپنی بیتی زندگی کے واقعات سناتے۔ رشتوں کی پھیلی ہوئی ڈوریں سمجھاتے۔ بزرگوں سے یہ سب سن کر انہیں اگلی نسلوں تک پہنچانا ان نئی نسلوں کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ یو ں یہ نسلیں سردیوں کی شاموں میں ایک دوسرے کے بہت قریب ہوجاتیں۔ ایک دوسرے کو سمجھتیں، ایک دوسرے کو سمجھاتیں اور یوں سادگی کی زندگی بہت خوشی خوشی آگے بڑھتی۔ ان دنوں میں گھرسے نکلنا ویسے بھی اپنی موت کو دعوت دینا ہوتا تھا۔ سردی میں ٹھٹھر کر مرجانے سے بچ گئے تو سردی سے بے حال بھوکے بھیڑیوں کے غول سے واسطہ پڑ جاتا تھا۔ بھوک سے بے حال یہ درندے کسی بھی شکار کو ڈھونڈ کر چیر پھاڑ کر رکھ دیتے۔

اگر کوئی مسافر اچانک کہیں ایسے موسم پھنس جاتا تو وہ کسی گھر میں پناہ لیتا اور یوں وہ شخص اس گھر کے اسی ایک ہی کمرے میں گھر والوں کے ساتھ بعض اوقات ہفتہ اور دو ہفتے تک مہمان بن کر ٹھہرا رہتا۔ ایسے نووارد مہمان کی خدمت بڑے شوق سے کی جاتی تھی۔ اگر کسی کے گھر کا کوئی فرد باہر کسی اور گاوں گیا ہے اور اچانک ایسی سردی پڑگئی تو گھر والوں کو اس کی جان کی تشویش لاحق ہوجاتی۔ گھر کے مرد دو چار اور لوگوں کو ساتھ ملا کر اسلحہ لے کر گھوڑوں پر چل پڑتے اور پوچھتے پوچھتے اس تک پہنچ جاتے۔

اب بارشیں اور برف باری روٹھ گئی ہے۔ موسم میں کبھی وہ خنکی نہیں آئی جو اس دور میں ہوتی تھی۔ لوگ کبھی گھروں میں محصور نہیں ہوتے۔ دادا اور پوتا اب ساتھ نہیں بیٹھتے۔ یہ پاس بیٹھ کر گھنٹوں بات چیت نہیں کرتے۔ اسی لیے پھر ہم رشتے اور تعلق سے بھی اجنبی ہوئے جا رہے ہیں۔ لوک کہانیوں کی جگہ اب فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ بزرگ محو تماشا ہیں کہ اس نسل کو کیا ہو رہا ہے۔ بچے حیرت سے بزرگوں کو تک رہے ہیں کہ کیسی بور باتیں کر رہے ہیں یہ لوگ۔ اب وہ آتش دان ہیں نہ کچے مکان، مٹی کے تیل کی قندیلیں ہیں نہ انگھیٹیاں۔ بس ایک لاندی ہے جس کی خوشبو اب بھی مہکتی ہے۔ یہ کچے مکان والے دیہاتوں سے نکل کر خوبصورت ہوٹلوں تک آ پہنچی ہے۔ اگلی نسل کا یہ ایک ہی نمائندہ نشان ہے جو ابھی بقید حیات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).