پاکستان رائٹرز گلڈ: صدر ایوب خان کے دور میں قائم ہونے والی ادیبوں کی تنظیم جو کئی تنازعات کا شکار رہی

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


ایوب خان
یہ ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ کے اگلے ہی روز کی بات ہو گی جب اُردو دنیا کی ممتاز ادیبہ قرۃ العین حیدر ایوب خان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کے ہاں پہنچیں۔ پہلی ہی نگاہ میں وہ پریشان دکھائی دیں۔

شہاب نے ان کہ کیفیت یوں بیان کی ہے: ’بال بکھرے ہوئے، چہرہ اداس اور آنکھیں پریشان۔‘

دفتر میں داخل ہوتے ہی انھوں نے سوال کیا: ’اب کیا ہوگا؟‘

’کس بات کا کیا ہو گا؟‘ قدرت اللہ شہاب نے وضاحت طلب کی۔

اس سوال پر عینی بیگم نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا اب ’ادبی چانڈو خانوں‘ میں بیٹھ کر گپیں ہانکنا (قرۃ العین حیدر نے لوز ٹاک کے الفاظ استعمال کیے تھے) بھی جرم تصور کیا جائے گا؟

اُن کا اشارہ مارشل لا کے ایک ضابطے کی طرف تھا جس کے تحت اخبارات پر سنسرشپ کا نفاذ کر دیا گیا تھا اور اسی ضابطے کے تحت ’افواہ سازی‘ کو بھی جرم قرار دیا گیا۔

بھونکنے کی آزادی کا احساس بھی تو ایک عیجب نعمت ہے

شہاب نے عینی بیگم کے اس سوال پر واضح کیا کہ ‘آپ کا اندازہ درست ہے۔ گپ شپ بڑی آسانی کے ساتھ افواہ سازی تصور کی جا سکتی ہے۔’ اس بات پر عینی دکھی ہوگئیں اور انھوں نے نہایت دکھ کے ساتھ سوال کیا: ’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘

شہاب کے مطابق یہ سوال کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

وہ مزید لکھتے ہیں: ’آنسو چھپانے کے لیے اُس نے مسکرانے کی کوشش کی اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کسی قدر لاپروائی سے کہا: ’ارے بھئی، روز روز کون بھونکنا چاہتا ہے لیکن بھونکنے کی آزادی کا احساس بھی تو ایک عیجب نعمت ہے۔‘‘

قدرت اللہ شہاب نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ قرۃ العین حیدر نے اسی روز پاکستان چھوڑنے کا ارادہ کر لیا ہوگا۔ ان کے خیال میں اُن کے معرکہ آرا ناول ’آگ کا دریا‘ کی تخلیق کی وجہ بھی یہی واقعہ بنا ہو گا۔

یہ واقعہ اور اِس میں ہونے والی گفتگو مارشل لا کے بارے میں ادیبوں کے انداز فکر کو ظاہر کرتی ہے۔ کیا مارشل لا کے بارے میں یہ جذبات پوری ادیب برادری کی نمائندگی کرتے تھے یا ادیب اور خود قرۃ العین حیدر اس سلسلے میں ذہنی انتشار کا شکار تھیں؟ قدرت اللہ شہاب ہی کے بیان کردہ ایک اور واقعے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔

پاکستان رائٹرز گِلڈ کی بنیاد

اس واقعے کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد قدرت اللہ شہاب کے دفتر میں ایک واقعہ اور رونما ہوا۔ ملک کے ممتاز، نمایاں اور نمائندہ ادیبوں نے اِن سے ملاقات کی۔

اِن ادیبوں کا کہنا تھا: ’فوجی حکومت زندگی کے ہر شعبے میں تطہیر و تعمیر، ترقی و بہبود کے نئے نئے اعلان کرتی جا رہی ہے۔ تو موقع ہے کہ اس بات کو آزما کر دیکھیں کہ حکومت کے بلند بانگ دعوؤں میں ادیبوں کی ویلفیئر کے لیے بھی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں؟‘

ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے مارشل لا انتظامیہ سے امید لگانے والے دیگر ادیب اپنے اپنے شعبے میں نہایت نمایاں اور ممتاز تھے۔ ان لوگوں میں قرۃ العین حیدر کے علاوہ شاعر اور دوہا نگار جمیل الدین عالی، افسانہ نگار غلام عباس، میجر ابن الحسن، ابن سعید اور عباس احمد عباسی شامل تھے۔

وہ کام جس کی ابتدا ادیبوں کی فلاح و بہبود کے بے ضرر سے ایجنڈے سے ہوئی تھی، آگے چل کر وہ ایک ملک گیر ادارے یعنی پاکستان رائٹرز گِلڈ کی صورت اختیار کر گیا۔

یہ ادارہ جتنی تیز رفتاری کے ساتھ وجود میں آیا، اسی تیزی کے ساتھ اس کی شہرت متنازع ہوتی چلی گئی۔ پاکستان رائٹرز گلڈ اپنے قیام کے فوراً ہی بعد متنازع کیوں ہو گیا؟ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ میں اس کی کچھ وجوہات کا کا تذکرہ کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ’کسی کو شبہ تھا کہ فوجی حکومت کے اشارے پر ایک نئے مافیا نے سر اٹھایا ہے تاکہ وہ دانشوری کے سب انڈوں کو ایک ٹوکری میں جمع کر کے مارشل لا کی ٹوکری میں ڈال دے۔ ان شکوک و شبہات کو تقویت اس وجہ سے ملتی تھی کہ میں اس زمانے میں صدر مملکت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا سیکریٹری بھی تھا۔‘

شہاب کے اس بیان کا پس منظر یہ ہے کہ رائٹرز گِلڈ نے اپنے قیام کے فوراً ہی بعد انھیں (شہاب کو) اپنا سیکریٹری جنرل منتخب کر لیا تھا۔ یوں فوجی حکمراں اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا سیکریٹری ہی رائٹرز گلڈ کا سیکریٹری جنرل بن گیا تو اس تنظیم کے بارے میں شکوک و شبہات کے دروازے بھی کھل گئے۔

شہاب نے گِلڈ کے متنازع ہونے کا تعلق اپنی ذات سے جوڑا ہے لیکن اس تنظیم کے متنازع ہونے کی کچھ وجوہات اس کے علاوہ بھی ہو سکتی ہیں۔ ان وجوہات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ گلڈ کے بارے میں فوری اور دیرپا اثرات رکھنے والا شبہ تو ایک ہی ہے، یعنی مارشل لا کی ٹوکری میں دانش وری کے انڈے اکٹھے کرنا۔

شہاب، صدر صاحب کس کنجر خانے میں پڑ گئے ہیں

اس کے علاوہ شہاب کے بقول گِلڈ کو خود حکومت کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا رہا۔ قدرت اللہ شہاب نے اس مخالفت کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے گورنر مغربی پاکستان یعنی نواب آف کالاباغ نواب امیر محمد خان کا حوالہ دیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ایک روز گورنر مغربی پاکستان نے ٹیلی فون پر ان سے بات کی۔ نواب صاحب نے چھوٹتے ہی ان سے کہا: ’بھائی شہاب، یہ ہمارے صدر صاحب کس کنجر خانے میں پڑ گئے ہیں؟‘

گورنر مغربی پاکستان کا یہ انداز گفتگو چکرا دینے والا تھا لیکن قدرت اللہ شہاب نے ان سے مزید تفصیلات حاصل کیں تو راز کھلا کہ اُن کا اشارہ ادیبوں کی سرگرمیوں سے ایوب خان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے تھا۔

انھوں نے مزید بتایا: ’یہ جو ’اداس نسلیں‘ (مصنف عبداللہ حسین) نام کی لچر بکواس ہے، اسے فحاشی کے الزام پر ضبط کر کے مقدمہ دائر کرنے کی تیاری مکمل تھی۔ اب جناب صدر نے اپنے دست مبارک سے اسے انعام دے مارا ہے تو اب ہم کریں تو کیا کریں؟‘

نواب آف کالا باغ کا اشارہ ’آدم جی‘ ادبی ایوارڈ کی طرف تھا۔ یہ ایوارڈ رائٹرز گِلڈ کی ایما پر ہی شروع ہوا تھا۔ ایوب خان کے ہاتھوں سے ادیبوں کو ایوارڈ کیسے دلوائے گئے، یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔

ایک بار کراچی کے ایوان صدر میں اعزازات دینے کی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب وزرا، اعلیٰ حکام اور غیر ملکی سفیروں سمیت اہم شخصیات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اعزازات کی تقسیم مکمل ہو گئی تو تقریب کے منتظم اور میزبان کی حیثیت سے قدرت اللہ شہاب نے ایک اعلان کر کے حاضرین کو ششدر کر دیا۔

انھوں نے اعلان کیا ’مسٹر پریزیڈنٹ سر، سرکاری اعزازات کی فہرست مکمل ہو گئی۔ اب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ براہِ مہربانی پاکستان رائٹرز گِلڈ کے ادبی پرائز جیتنے والے ادیبوں میں انعامات تقسیم فرمائیں۔‘

’تم نے دیکھا؟ فوج میں بھی کتنے پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں’

شہاب نے لکھا ہے کہ ایوب خان نے مسکرا کر اس کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد انھوں نے میزبان کی حیثیت سے داؤد اور آدم جی انعام حاصل کرنے والے ادیبوں کے نام باری باری پکارے جنھیں پہلے ایوان صدر میں مدعو کر کے خاص نشستوں پر بٹھا دیا گیا تھا۔ شہاب کے بقول انھوں نے یہ کارروائی ایوب خان کی خصوصی اجازت سے کی تھی۔

یہ واقعہ اس نرم گوشے کی نشان دہی کرتا ہے جو گِلڈ کے لیے ایوب خان کے دل میں تھا لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں۔ پہلی بار سرکاری اعزازات کے دوران ایوب خان سے انعامات دینے کا حوصلہ پا کر دوسری تقریب ایوان صدر راولپنڈی میں منعقد کی گئی۔ یہ کہنا اضافی ہو گا کہ اس بار بھی ایوب خان نے یہ اعزازات خود اپنے ہاتھوں سے عطا کیے۔

ایسی ہی ایک تقریب میں بڑا دلچسپ واقعہ رونما ہوا۔

گِلڈ کی طرف سے نامور شاعر جعفر طاہر کو ایوارڈ دیا گیا۔ جعفر طاہر فوج کے نان کمیشنڈ افسر تھے۔ وہ ایوارڈ وصول کرنے آئے تو اس وقت وہ فوجی یونیفارم میں ملبوس تھے۔ ایوب خان یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انھوں نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شہاب کو مخاطب کیا اور کہا: ’تم نے دیکھا؟ فوج میں بھی کتنے پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔‘

یہ سن کر جعفر طاہر نے دھیمی آواز میں کہا: ’جی ہاں، حضور۔ نان کمیشنڈ رینک تک ہی رہتے ہیں۔‘

گِلڈ کے لیے ایوب خان کی ایک اور مہربانی ان کے لیے خصوصی فنڈ کا قیام تھا۔

ایوب خان، قدرت اللہ شہاب

ایوب خان (فائل فوٹو)

صدر مملکت کا خصوصی فنڈ

شہاب نے لکھا ہے کہ مارشل لا کے ابتدائی زمانے میں حکومت نے آٹھ لاکھ روپے کی رقم ضبط کی۔ شہاب کے مطابق یہ رقم بعض سیاست دانوں نے انتخابی مقاصد کے لیے کچھ خفیہ اکاؤنٹس میں جمع کروا رکھی تھی۔

شہاب کی درخواست پر ایوب خان نے (اس زمانے کے لحاظ سے اس خطیر) رقم میں سے ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے دو لاکھ روپے کا فنڈ قائم کر دیا۔ اسے ادیبوں کے لیے صدر مملکت کے خصوصی فنڈ کا نام دیا گیا۔ اس فنڈ سے بیمار ادیبوں کا علاج معالجہ کروایا جاتا اور وفات پا جانے والے ادیبوں کے لواحقین کی مدد کی جاتی تھی۔

لاہور کے گِلڈ ہاؤس کا شمار ان متروکہ عمارات میں ہوتا ہے جس کا تعلق پاکستان چھوڑ کر جانے والوں سے تھا۔ یہ بہت قیمتی جائیداد تھی جسے محکمہ بحالیات کے ذریعے گِلڈ کے نام منتقل کروا لیا گیا۔

شہاب لکھتے ہیں کہ یہ مشکل کام تھا جو جمیل الدین عالی اور ان (شہاب) کی تگ و دو کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا۔ قدرت اللہ شہاب کا اس معاملے میں دلچسپی لینا اس اعتبار سے تو فطری تھا کہ وہ گِلڈ کے سیکریٹری جنرل تھے لیکن اتنا بڑا کام ان کے منصب کے اثر و رسوخ اور ایوب خان کے علم میں آئے بغیر کیسے ہوا ہو گا؟

پاکستان رائٹرز گِلڈ کو حکومت پاکستان کی طرف سے گرانٹ کی شکل میں رقم بھی ملا کرتی تھی۔ قدرت اللہ شہاب سمیت کسی دوسرے ادیب نے اپنی کسی تحریر یا انٹرویو میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ گلڈ کے موضوع پر ڈاکٹر طاہر مسعود کو جمیل الدین عالی کے ایک انٹرویو پر گِلڈ ہی کے ایک سابق سیکریٹری معروف ادبی جریدے ’نقوش‘ میں محمد طفیل نے ایک خط لکھا۔

اس خط میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ گِلڈ کو حکومت کی طرف سے مالی امداد ملا کرتی تھی۔ سنہ 1979 میں یہ امداد ڈیڑھ لاکھ روپے تھی۔ ایوب خان کے زمانے میں اس کی مالیت کیا رہی ہوگی، اس کا ذکر نہیں ملتا۔

ایوب خان کی ذاتی دلچسپی

یہ تمام واقعات ایسے ہیں جو پاکستان رائٹرز گِلڈ کی ساکھ میں اضافے کے علاوہ اس کے استحکام کا باعث بنے۔ لیکن یہ ساکھ کیسے بنی اور ملک بڑے مالیاتی ادارے اس کے ساتھ تعاون پر کیسے آمادہ ہوئے، اس سلسلے میں بھی ایوب خان کی ذاتی دلچسپی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ 31 جنوری 1959 کی بات ہے جب ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے پاکستان رائٹرز گِلڈ کے تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے۔ یہ اجلاس دو روز قبل یعنی 29 جنوری 1959 کو شروع ہوا تھا۔

گِلڈ نے قدرت اللہ شہاب پر ذمے داری عائد کی کہ وہ اجلاس کے آخری روز ایوب خان کی شرکت کو یقینی بنائیں۔ شہاب نے لکھا ہے کہ بیوروکریسی اور ایوب خان کے ملٹری سیکریٹری نہیں چاہتے تھے کہ فیلڈ مارشل اجلاس میں شریک ہوں۔ آخری روز تو وہ بخار میں بھی مبتلا ہو گئے لیکن اس کے باوجود انھوں نے اجلاس میں شرکت ضروری سمجھی۔

ایوب خان پنڈال میں داخل ہوئے تو اپنی عادت کے مطابق سٹیج کی طرف بڑھے۔ اس موقع پر انھیں بتایا گیا کہ ان کی نشست سٹیج پر نہیں بلکہ حاضرین کی پہلی صف میں ہے۔ یہ سن کر ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار پیدا ہوئے۔ شہاب کے مطابق انھوں نے اس موقع پر کان سرخ ہوتے ہوئے بھی دیکھے۔

ابتدائی ناگواری کے بعد ایوب خان پوری دلچسپی کے ساتھ اجلاس میں موجود رہے۔ اجلاس کے خاتمے سے قبل انھیں خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تو انھوں نے بڑی خوش دلی کے ساتھ تقریر کی۔

اس موقع پر انھوں نے ذاتی حیثیت میں گِلڈ کے لیے 10 ہزار روپے کی مالی اعانت کا اعلان کیا۔ یہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ یہی مالی عطیہ تھا جس نے ملک کے بڑے صنعت کاروں کی توجہ گِلڈ کی طرف مبذول کروائی اور انھوں نے ادیبوں کے لیے ادبی انعامات کا سلسلہ شروع کیا۔

یہ انعامات رائٹرز گِلڈ کے پلیٹ فارم سے ہی دیے جاتے تھے اور ان تقاریب میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ایوب خان شرکت کیا کرتے تھے۔

ایوب خان، قدرت اللہ شہاب

فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کراچی میں پاکستان رائٹرز گِلڈ کے تاسیسی اجلاس کے تیسرے روز ادیبوں سے خطاب کر رہے ہیں، انھوں نے یہ تقریر فی البدیہہ کی۔ اس پیچھے گِلڈ کے پہلے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب بیٹھے ہیں

ادیبوں کے سماجی مرتبے میں اضافہ

پاکستان رائٹرز گِلڈ کے قیام کے مقاصد کیا تھے؟ اس سلسلے میں اسی مؤقف کو تسلیم کیا جانا چاہیے جو اس ادارے کے سیکریٹری کی حیثیت سے قدرت اللہ شہاب نے بیان کیا ہے۔ یعنی ادیبوں کی فلاح و بہبود، ان کے مسائل کا خاتمہ اور ان کے سماجی مرتبے میں اضافہ۔

ادیبوں کے سماجی مرتبے میں اضافہ کیسے ہوا؟ شہاب لکھتے ہیں کہ گِلڈ کے قیام کے بعد اقتدار کے ایوانوں اور اعلیٰ ترین سرکاری تقریبات کے دروازے ادیبوں پر کھل گئے۔

ان کے مطابق ادیبوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اہل اقتدار اور بیوروکریٹ بدمزہ ہوئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ طبقہ نہ آدابِ مجلس کا خیال رکھتا تھا اور نہ ان کا لباس اور چال ڈھال ایسی ہوتی تھی کہ وہ ایسی تقریبات میں شرکت کر سکیں۔ گِلڈ کی وجہ سے ادیبوں کو ایک اور آسانی حاصل ہوئی۔

شہاب نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں بعض ادیبوں کی آزادی ان پڑھ پولیس افسروں اور نیم خواندہ مجسٹریٹوں کے رحم و کرم پر ہوا کرتی تھی۔ انھیں فرضی روزنامچوں کی بنیاد پر پکڑ لیا جاتا اور بغیر مقدمہ چلائے انھیں طویل عرصے تک قید و بند کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی۔ گِلڈ کے سرگرم عمل ہونے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔

اس کے علاوہ گِلڈ اشاعت گھر کے قیام، نیشنل بک فاؤنڈیشن کے پیش رو ادارے نیشنل بک کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ ’ہم قلم‘ کے نام سے ایک ادبی مجلے کے اجرا کے علاوہ کاپی رائٹ ایکٹ کی منظوری کو بھی گِلڈ اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔ جمیل الدین عالی کے مطابق بنگالی اور مرکزی اردو بورڈز کا قیام بھی گِلڈ ہی وجہ سے عمل میں آیا۔

ادبی تنظیم کے سیاسی مقصد؟

یہ ادبی تنظیم شکوک و شبہات کی شکار کیوں ہوئی؟ اس کی طرف ایک اشارہ تو خود قدرت اللہ شہاب نے کیا ہے یعنی مارشل لا کی حمایت لیکن شہاب کے علاوہ اس کے بعض دیگر ذمہ داران بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے: ’اس (کے قیام کے) جذبے میں کسی وقت بھی ایسی کوئی مقصدیت شامل نہیں جو ادب اور ادیب کی شرافت اور شان کے منافی ہو۔‘

انھوں نے چیلنج کے انداز میں کہا ہے کہ گِلڈ کا ریکارڈ کھلی دستاویز ہے، اگر اس نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اسے کوئی ثابت کر دکھائے۔ قدرت اللہ شہاب کے بعد گِلڈ کے ایک اور اہم ذمہ دار جمیل الدین عالی بھی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر مسعود نے ایک انٹرویو میں جمیل الدین عالی سے اس سلسلے میں سوال کیا تو انھوں نے بھی اس تاثر کی تردید کی۔ انھوں نے کہا: ’اس الزام میں کوئی صداقت نہیں تھی اور سوائے کمیونسٹ ممالک کے ادیبوں کو حکومت کے زیر اثر لانا ویسے بھی ناممکن ہوتا ہے۔‘

گِلڈ کے قیام کے سلسلے میں جس ابتدائی دستاویز پر جن آٹھ ادیبوں نے دستخط کیے تھے، میجر ابن الحسن بھی ان میں سے ایک تھے۔ میجر ابن الحسن نے اس تنظیم کے کسی سیاسی مقصد کی تردید کی ہے۔

ڈاکٹر طاہر مسعود کے اس سوال پر کہ ادیبوں کو مارشل لا حکومت کے زیر اثر لانے کے لیے اس تنظیم کے قیام کے ضمن میں حکومت نے آسانیاں فراہم کیں۔ انھوں نے کہا: ’ہم میں سے کوئی بھی مارشل لا کی حمایت میں نہیں تھا۔ میں خود مارشل لا کا حصہ تھا لیکن مارشل لا کے خلاف تھا۔ گِلڈ کے قیام کے سلسلے میں حکومت سے کوئی ہدایت موصول نہیں ہوئی تھی۔‘

پھر گِلڈ بناتے وقت آپ لوگوں کے پیش نظر کیا مقاصد تھے؟

میجر ابن الحسن نے ڈاکٹر طاہر مسعود کے اس سوال کا دلچسپ جواب دیا: ’گِلڈ بنانے کے سلسلے میں ہمارے کوئی مقاصد نہیں تھے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک غیر سنجیدہ چیز تھی۔ کم از کم میری حد تک کوئی مقاصد نہیں تھے۔‘

گِلڈ کے ان ذمے داروں کا یہ مؤقف اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اسی سلسلے میں قدرت اللہ شہاب نے ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جس سے شکوک و شبہات کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

ایوب خان کے ’گوئیبلز‘

مارشل لا کی حمایت میں ادیبوں کی خدمات کی تردید کے بعد انھوں نے اس زمانے کی مارشل لا انتظامیہ کے ایک اہم عہدے دار بریگیڈیئر ایف آر خان کا ذکر کیا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ بریگیڈیئر ایف آر خان خود کو ایوب خان کا ’گوئیبلز‘ (ہٹلر کا وزیر برائے پروپیگنڈا) سمجھتے تھے۔ وزارت اطلاعات کے سیکریٹری کی حیثیت سے ان کی حیثیت غیر معمولی تھی۔ وہ وزیروں اور گورنروں وغیرہ پر بھی دھونس جما لیا کرتے تھے۔

اپنے محمکے میں انھوں نے نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کا مقصد قوم کی سوچ کو حکومت کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھا۔

شہاب نے لکھا ہے کہ گِلڈ قائم ہوا تو بریگیڈیئر ایف آر خان نے یہی سمجھا کہ میں (شہاب) نے ان کے نہلے پر دہلا مار دیا ہے۔ شہاب ہی کے مطابق بریگیڈیئر خان نے گِلڈ سے فائدہ اٹھایا۔ وہ گِلڈ کے دفاتر سے ادیبوں کی فہرستیں حاصل کر لیا کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

غلام محمد: ’ماتحت افسروں کے منہ پر فائلیں مارنا یا کمرے سے نکال دینا، معمولی بات تھی‘

طالبعلم عبدالحمید کا خون جس نے صدر ایوب کی قسمت کا ستارہ ڈبو دیا

ایوب خان: اہم مواقع پر ہمیشہ منظر سے غائب ہو جانے والے ڈکٹیٹر

ادیبوں کی برادری میں بکاؤ مال

ان فہرستوں سے وہ کیا فائدہ اٹھاتے تھے، شہاب نے لکھا ہے: ’بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن کے نمائندے ایسے ادیبوں کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے جو معاوضہ لے کر حکومت کی مرضی کے مطابق کچھ مضامین یا پمفلٹ اردو، بنگالی، انگریزی اور دوسری علاقائی زبانوں میں لکھنے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔‘

شہاب نے تسلیم کیا ہے کہ ’ان عناصر نے بریگیڈیئر ایف آر خان سے معاوضہ لے کر خاصا کام کیا۔ یہ عناصر نہ گِلڈ نے پیدا کیے تھے، نہ گِلڈ کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے، ادیبوں کی برادری میں ایسا بکاؤ مال ہمیشہ موجود رہا ہے اور موجود رہے گا۔‘

کیا مارشل لا کی حمایت کا کام صرف بے ضمیر ادیبوں نے ہی کیا یا حقائق اس سے مختلف بھی ہیں؟ اس سلسلے میں سائنٹیفک سوسائٹی آف پاکستان کے صدر میجر آفتاب حسن نے اپنے ایک خط میں دلچسپ انکشاف کیا ہے۔

قدرت اللہ شہاب کے انٹرویو پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا: ’مولوی (عبدالحق) صاحب کو قدرت اللہ شہاب صاحب نے صدر ایوب سے ملوایا مگر مولوی صاحب کو اس کی بڑی قیمت دینی پڑی۔ وہ یہ کہ انھیں صدر ایوب کی حکومت، ان کی بنیادی جمہوریت سب کی تعریف کرنی پڑی اور اخبارات میں بیان دینے پڑے۔‘

آپ نے مارشل لا کیوں اٹھایا؟

ممتاز محقق اور خامہ بگوش کے قلمی نام سے اردو دنیا کا مقبول ترین ادبی کالم لکھنے والے مشفق خواجہ نے بھی اس سلسلے میں ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ابن انشا انھیں یہ کہہ کر ایوان صدر کی ایک تقریب میں لے گئے تھے کہ آؤ تمھیں ایک تماشا دکھاتے ہیں۔

اس تماشے میں کیا ہوا، انھوں نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو بتایا: ’ایوب خان نے جب دستور نافذ کیا تو اس کی تائید میں مضمون لکھوانے کے لیے ادیبوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ہر ادیب نے بڑھ چڑھ کر اپنی قیمت لگائی اور حکومت کے مطلوبہ مقاصد کے لیے کام کیا۔ جب مضامین کے انبار در انبار شائع ہو گئے تو ایوب خان نے ایوان صدر میں ان ادیبوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے چائے پر مدعو کیا۔‘

اس تقریب میں کئی بڑے صحافی بھی مدعو تھے۔ مشفق خواجہ کے مطابق ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر نے اس موقع پر ایوب خان سے کہا کہ ابھی قوم کو مارشل کی ضرورت تھی، آپ نے مارشل لا کیوں اٹھایا؟

مارشل لا حکومت کی حمایت کا سلسلہ صرف مضمون نگاری تک محدود نہیں رہا۔ سینیئر ادیب اور دانشور اس سلسلے میں کچھ اور واقعات کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

ممتاز دانشور اور کالم نگار عطاالحق قاسمی نے مجھے بتایا کہ ایوب خان نے جب بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا تو اسے عوام میں متعارف کروانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔

ان میں ایک قدم بنیادی جمہوریت ٹرین کا بھی تھا۔ یہ ٹرین ملک کے ہر اُس حصے تک پہنچی جہاں تک ریلوے لائن جاتی تھی۔ اِس ٹرین کے نمایاں مسافر وہی تھے جنھیں رائٹرز گِلڈ قائم کر کے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا تھا۔

ممتاز محقق اور مجلس ترقی ادب کے سابق سربراہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے بھی اس سلسلے میں اپنا ایک مشاہدہ بیان کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ جس زمانے میں بنیادی جمہوریت ٹرین چلائی گئی، اسی زمانے ’بنیادی جمہوریت‘ کے نام سے ایک سرکاری مجلّہ بھی جاری کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان کے پہلے فوجی حکمران کی حکومت مہنگی چینی کی وجہ سے گری؟

ایوب خان کا دور ترقی کی علامت یا ناہمواری کی نشانی؟

’فائلیں جرم ثابت کریں یا نہ کریں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ ان کے ضمیر مجرم ہیں‘

اس مجلّے کا دفتر اسی جگہ قائم کیا گیا جہاں سے ’ماہ نو‘ شائع ہوتا تھا۔ ماہِ نو حکومت پاکستان کے زیر اہتمام شائع ہونے والا انتہائی معیاری اور تاریخی ادبی مجلّہ تھا۔ یہ ’بنیادی جمہوریت‘ نامی مجلّے کو اعتماد دینے اور اسے دانش ورانہ اور فنی امداد مہیا کرنے کا ایک طریقہ تھا۔

ماہِ نو کی سابق ایڈیٹر اور ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے مجھے بتایا کہ ’بنیادی جمہوریت‘ نامی پرچے کے عملے اور مدیران کا تعلق ادیب برادری سے تھا۔ انھوں نے تصدیق کی کہ اس پرچے کا دفتر بھی ماہِ نو کے دفتر ہی میں قائم کیا گیا تھا۔

اپنے سیاسی مقاصد کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایوب خان کے عزائم جب کھل کر سامنے آ گئے تو اس مرحلے پر کئی ادیبوں نے رائٹرز گِلڈ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ان میں ایک نمایاں نام ممتاز شاعر منیر نیازی کا ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو بتایا تھا کہ اُنھوں نے فاطمہ جناح کے الیکشن کے زمانے میں رائٹرز گِلڈ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ ’میں نے علیحدگی کے اعلان میں کہا تھا کہ جیسے میں ظالموں کے شہر سے نکل آیا ہوں’۔

قرۃ العین حیدر نے تو بدلے ہوئے حالات میں ’بھونکنے‘ پر پابندی کا خدشہ محسوس کیا تھا مگر منیر نیازی کا تجربہ مختلف تھا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ’کاٹ کھائے جانے‘ کے ثبوت پیش کیے اور بتایا کہ رائٹرز گِلڈ کے لوگ اپنے پسندیدہ لوگوں کی سرپرستی کرتے اور ناپسندیدہ لوگوں کا ناطقہ بند کر دیتے تھے۔ اس مقصد کے لیے دھن، دھونس، دھاندلی سب چلتا تھا۔

قرۃ العین حیدر

قرۃ العین حیدر نے اپنی خود نوشت ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں لکھا ہے کہ میجر ابن الحسن اور جمیل الدین عالی گِلڈ کا اعلامیہ لے کر اُن کے پاس پہنچے اور انھوں سرسری طور پر دیکھ کر اس پر دستخط کر دیے۔ بعد میں جب یہ اعلامیہ اخبار میں شائع ہوا تو اس پر انھیں پشیمانی ہوئی۔

قدرت اللہ شہاب نے کہا تھا کہ بھونکنے پر پابندی کے تصور نے انھیں پریشان کر دیا ہو گا اور انھوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہوگا۔ اگر یہ درست ہے تو اس واقعے نے ان کے ارادے کو مزید پختہ کر دیا ہو گا۔

رائٹرز گِلڈ جیسا ادارہ قائم کر کے جہاں دانش وروں کے طبقے کو رجھانے کی کامیاب کوشش ہوئی، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ ایسے ادیبوں میں لاہور سے مولانا صلاح الدین احمد اور کراچی سے حسن عسکری اور سلیم احمد نمایاں تھے۔

ڈاکٹر طاہر مسعود نے لکھا ہے کہ حسن عسکری نے یہ کہہ کر گِلڈ میں شمولیت اختیار کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ کیا کبھی ’پیغمبروں‘ نے بھی گِلڈ بنائے ہیں؟

پاکستان رائٹرز گِلڈ کے ذریعے مارشل لا حکومت کی حمایت

اس زمانے میں جہاں ادیبوں اور دانش وروں نے مارشل لا حکومت کی حمایت سے کنی کترانے کی کوشش کی، اسی زمانے میں بعض ادیبوں نے اعلیٰ مناصب بھی قبول کیے۔

عطاالحق قاسمی نے مجھے بتایا کہ قدرت اللہ شہاب سے دوستی اور قربت رکھنے والے کئی ادیبوں کو اس زمانے میں اچھے اداروں میں پرکشش مشاہروں پر رکھا گیا۔ ان میں اشفاق حسین، ابن انشا اور ممتاز مفتی سمیت کئی دیگر ادیب اور خاص طور پر ان کے دوست شامل تھے۔

ایوب خان کے زمانے میں پاکستان رائٹرز گِلڈ کے ذریعے مارشل لا حکومت کی حمایت کے حصول کا طریقہ کچھ ایسا نیا بھی نہیں تھا۔

یوسف کمبل پوش سر سید احمد خان کے زمانے کے ایک سیاح تھے۔ انھیں اردو کا اوّلین سفرنامہ نگار بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اسّی کی دہائی میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے ان کا سفرنامہ ’عجائبات فرنگ‘ مرتب کر کے شائع کیا۔

سفرنامے کی ابتدا میں انھوں نے ایک طویل مقدمہ بھی سپرد قلم کیا ہے۔ اس مقدمے میں انھوں نے اُس زمانے کے ادب اور سفرنامے کی صنف کے علاوہ ادیبوں کے سیاسی رجحانات، خاص طور پر تحریروں سے اخذ کیے جانے والے پیغامات کا بھی جائزہ لیا ہے۔

خود یوسف کمبل پوش کے سفرنامے کے بارے میں ان کی رائے یہی ہے کہ یہ کتاب بھی برِّ صغیر کے نئے حکمرانوں کے عظمت اور ہیبت کا سکہ جمانے کے لیے لکھی گئی ہوگی۔ اس کتاب میں کئی ایسے واقعات موجود ہیں جن سے انگریزوں کی علمی، فنّی، معاشرتی اور تہذیبی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔

سفرنامے کے پہلے ہی باب میں یوسف کمبل پوش کا ایک سادہ سا جملہ ہے جس میں انھوں نے کمال مہارت سے انگریز حکمرانوں کے رہائشی علاقے کی دل کشی کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’جہاز ہمارا چل نکلا۔ دونوں طرف گنگا کے کنارے سبزہ آب دار لہلہا رہا تھا۔ جا بجا مکان صاحبانِ انگریز کا بنا ہوا نادر اور زیبا۔ جہازِ رواں پر عجیب سماں تھا، بیان میں نہیں سماتا۔‘

ایک اور جگہ لکھا ہے: ’میوزیم اس مقام کو کہتے ہیں کہ انگریزوں نے عجائبات وہاں رکھے ہیں۔ چنانچہ ہر طرح کے بیتار وحشیوں کے اور جنگلی آدمیوں کے رکھے، مردہ جانور روغن ملے ہوئے کھڑے، عجب روغن تھا کہ اس کے ملنے سے جسم جانوروں، مُردوں کا نہ سڑا بلکہ زندہ معلوم ہوتا ہے۔‘

تحسین فراقی نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں یہ معاملہ صرف یوسف کمبل پوش تک ہی محدود نہ تھا بلکہ ادیبوں کی ایک بہت بڑی جماعت موجود تھی جو اپنے اپنے انداز میں یہی کام کر رہی تھی۔

ان ادیبوں میں سر سید احمد خان، خواجہ الطاف حسین حالی اور بہت سے دیگر ادیب شامل تھے۔ اسی طرح بعض اقلیتی مذہبی شخصیات کی بعض ایسی تحریریں بھی ملتی ہیں جنھوں نے انگریزی حکومت کی تائید و حمایت کو اللہ کی خوش نودی کے لیے لازمی قرار دیا۔

سر سید احمد خان

پاکستان رائٹرز گِلڈ جنرل ضیاالحق کے دور میں

پاکستان رائٹرز گِلڈ کو اگر پہلے ملک گیر مارشل لا کی حمایت کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا تو اس کے بعد کی حکومتیں بھی پیچھے نہیں رہیں۔ جنرل ضیاالحق نے پاکستان رائٹرز گِلڈ کے جانشین ادارے اکادمی ادبیات پاکستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ادیبوں کی سالانہ کانفرنس کی روایت اسی دور میں پڑی۔ اس کانفرنس میں ملک بھر سے ادیبوں کو سرکاری خرچ پر مدعو کیا جاتا اور ان کے ناز نخرے اٹھائے جاتے۔

جنرل ضیاالحق کے زمانے میں اس روایت کو کیسے آگے بڑھایا گیا، اس سلسلے میں کشور ناہید نے مجھے بتایا: ’ضیا الحق نے تو اتنی زیادتیاں کیں، چار تاریخ کو اُنھوں نے بھٹو صاحب کو پھانسی دی اور 11 تاریخ کو ادیبوں اور دانشوروں کا جلسہ کر دیا۔ اس میں (احمد ندیم) قاسمی صاحب اور دیگر ادیبوں نے مضامین پڑھے۔ روحی بانو کی فلموں کے ٹوٹے دکھائے۔ ہم اس کانفرنس میں نہیں گئے تھے۔ ہم بتانا چاہتے تھے کہ اتنی ظالمانہ حرکت کرنے کے بعد رائٹرز کو کیا کہنا چاہتے ہو؟ کیوں بلایا ہے؟ اصل میں احتجاج کیا تھا ہم لوگوں نے۔ باقی تو اللہ کے فضل سے سب آئے۔ اور یہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں تو کسی بھی کانفرنس میں نہیں گئی ہوں۔‘

آپ کے خیال میں وہ کیا مقاصد رہے ہوں گے جن کی وجہ سے جنرل ضیاالحق نے وہ کانفرنس منعقد کی ہوگی؟

میرے اس سوال پر کشور ناہید نے بتایا: ’صاف بات ہے، وہ قوم کو بتانا چاہتا تھا کہ عام لوگ میرے ساتھ ہیں، ادیب بھی میرے ساتھ ہیں۔ یہ کام سبھی کرتے رہے ہیں، مشرف نے بھی کیے، دوسروں نے بھی کیے، اب بھی یہی ہو رہا ہے۔‘

ایک زمانہ تھا جب لوگوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے لیے گِلڈ بنائے گئے، کانفرنسیں منعقد کی گئیں، پلاٹ دیے گئے لیکن بعد کے زمانوں میں حالات بدل گئے۔

بدلے ہوئے حالات میں ادیبوں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ شخصیات کو نوازنے کے لیے رائٹرز گِلڈ، اکادمی ادبیات اور اس جیسے اداروں میں رکھوانے اور نوازنے کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن اس کے ساتھ ہی ایوب عہد کا ایک اور تجربہ زیادہ بڑے انداز میں دہرایا گیا۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے مجھے بتایا کہ اکیسویں صدی میں برقی ذرائع ابلاغ زیادہ اہمیت اختیار کر گئے۔ اس زمانے میں حیران کن حد تک بڑی تنخواہوں اور مراعات پر لوگوں کو رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ رائے عامہ پر بڑے پیمانے پر اثر انداز ہونے کی کوشش تھی۔

’اصل بات یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے لیکن حکمرانوں کے طور طریقے نہیں بدلے، بس ٹیکنالوجی تبدیل ہوئی جیسے کتاب کی جگہ پہلے ٹیلی ویژن نے لی، اب یہ کام ویب سائٹ اور سوشل میڈیا سے ہوتا ہے اور لوگوں کو اتنی بڑی بڑی تنخواہیں دلائی جاتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر طاہر مسعود نے اپنی بات مکمل کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں رائٹرز گِلڈ نے جس روایت کا آغاز کا تھا، بدلے ہوئے حالات میں بدلے ہوئے طریقوں کے مطابق یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32609 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments