خالی فیڈر، معصوم بچے اور راج محل کے کتے


میری بیٹی کی عمر تین سال تھی۔ بڑی پیاری معصوم سی گڑیا۔ سارا دن ہم میاں بیوی اس سے اپنا دل بہلاتے رہتے۔ معصوم شرارتیں ، توتلی باتیں اور اچھل کود ہر وقت۔ ایک دن شرارتوں ہی شرارتوں میں بیڈ پر اچھل رہی تھی۔سامنے ڈریسنگ تھا۔ بیڈ پر جمپ کھاتی اور آئینے میں خود کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوجاتی۔ ایک آدھ بار اس کی ماں نے منع بھی کیا لیکن اسے تو جیسے کل کائنات مل گئی ہو۔ اور وہ زبردست طریقے سے اس اچھل کود کو انجوائے کر ہے تھی۔ میں بھی اس وقت بیڈ روم میں آیا۔ شاید مجھے دیکھ کر زیادہ مچل گئی۔ بیڈ پر جمپ ذرا زور سے لگا دیااور واپس گدے پر گرنے کے بجائے اچھل کر بیڈ سے نیچے جا گری۔ دوڑ کر اسے اٹھا یا تو وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔ بظاہر کوئی زخم نہیں تھا لیکن نامعلوم کس نازک حصے پر چوٹ لگی تھی کہ بے ہوش ہوگئی ایک لفظ نہ بول سکی۔ میں بجلی کی سی تیزی سے اسے اٹھا کر ننگے پاؤں باہر ہسپتال کی طرف بھاگا۔ شکر خدا کا کہ گھر کے گیٹ سے باہر قدم رکھنے سے پہلے ہی اسے ہوش آ گیا۔

لیکن ان چند لمحات میں، میں نے اور میری بیگم نے جیسے دہائیوں کا سفر کر لیا ہو۔ بچوں کی تکلیف ماں باپ کو کیسے محسوس ہوتی ہے۔ کلیجہ پھٹ جانا کیا ہوتا ہے۔ کمر ٹوٹ جانا کسے کہتے ہیں۔ سب اسباق انہی چند لمحات میں در آئے تھے۔ آج اس واقعہ کو بارہ سال ہوگئے لیکن وہ لمحات جیسے ٹھہر ہو گئے ہوں۔ دماغ کے کسی خانے میں منجمد ہو گئے ہوں۔

خلیل پر بطور باپ اور نبیلہ پر بطور ماں وہ لمحات کیسے ہوں گے۔ بطور باپ اسے صرف سمجھا جا سکتا ہے تحریر نہیں کیا جا سکتا۔ جب ان کے ایک نہیں تین جگر گوشوں کو ان سے الگ کیا جا رہا تھا۔ جب وہ ماں اٹھ کر فیڈر پکڑے معصوم حدیبہ کو آخری بار اپنے ساتھ چمٹا کر اپنا سینہ ٹھنڈا نہیں کر سکتی تھی۔ باپ اپنے اکلوتے لخت جگر کو سینے سے نہیں لگا سکتا تھا۔ اریبہ اپنی چھوٹی بہنوں اور چھوٹے بھائی کو پیار نہیں کر سکتی تھی۔ بھائی بھی تین بہنوں کا ایک لاڈلا بھائی۔ ہر ماں اپنی بچیوں کو رخصت کرنے کے خواب دیکھتی ہے۔ لیکن اس ماں کو اپنی معصوم بچیوں کو بیچ سڑک اتار دینا پڑے گا۔ چوراہے میں بے یارو مدد گار چھوڑنا پڑے گا۔ معصوموں کو زمانے کے بے رحم تھپڑوں کے حوالے کر کے دونوں اکھٹے رخصت ہو جائیں گے۔ ایسی رخصتی تو کبھی کوئی ماں باپ تصور میں بھی لا نہیں سکتے۔ ایسا تصور بھی انسان کو پاتال تک ہلا کر رکھ دیتا ہے۔

میں اب تک عمیر ، منیبہ اور حدیبہ کی کوئی بھی ویڈیو پوری نہیں دیکھ پایا۔ ان کی وائرل ہوئی تصویر کو بھرپور طریقے سے دیکھنا ممکن نہیں۔ پٹرول پمپ پر کھڑے منتظر معصوم بچوں کی تصویر کو ہزاروں الفاظ میں بیان کرنا بھی ناممکنات میں سے لگتا ہے۔ وہ تصویر بولتی ہے۔ وہ سوال اٹھاتی ہے۔ وہ دلوں کو شق کر دینے والی تصویر ہے۔ وہ انصاف نہیں مانگتی وہ اپنے پیارے ماں باپ کی راہ تکتے بچوں کی تصویر ہے۔ وہ منتظر آنکھوں کی تصویر ہے اور منتظر آنکھیں بڑی کرب ناک ہوتی ہیں۔ ان بچوں کی تصویر سے آنکھیں ملانا ممکن نہیں۔ وہ تصویر کرپٹ اور فرسودہ نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ایسا طمانچہ جس کے نشانوں کو برسوں مٹایا اور بھلایا نہیں جا سکے گا۔

پتا نہیں کیوں مجھے انتظار حسین کا افسانہ ’’ واپس ‘‘ یاد آ رہا ہے۔ آئیے آپ بھی میرے ساتھ اس حقیقت افروز بیان سے گزریں۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ تب بدھ دیو جی نے ایک جاتک سنائی جو اس پرکار ہے کہ بنارس کے سندر نگر کے باہر ایک مرگھٹ تھا جہاں بہت سے کتے رہتے تھے۔ ان میں ایک کتا ان سب کا گرو تھا۔ سب کتے اس گرو کا بہت آدر کرتے تھے۔

ایک دن کی بات ہے کہ بنارس کا راجہ اپنے رتھ میں بیٹھ کے سیر کو نکلا۔ دن بھر سیر کرنے کے بعد شام کو لوٹا۔ چاکروں نے رتھ کا سامان باہر چھوڑ دیا۔ رات کے سمے ورشمائی ہوئی تو سارا سامان بھیگ گیا۔ اس سامان میں رتھ کے گدے بھی تھے جن پہ چمڑا منڈا ہوا تھا۔ یہ چمڑا بھیگ گیا۔ راج محل کے کتوں نے چمڑے کو گیلا پا کر دانتوں سے کاٹا اور کھا گئے۔

دوسرے دن راجہ تک بات پہنچی کہ کتے رتھ کے گدوں کا چمڑا کھا گئے۔ راجہ نے تاؤ کھایا اور منادی کر دی کہ کتے جہاں دکھائی دیں انہیں مار ڈالو۔ بس پھر کیا تھا، بنارس نگری کے کتے مارے جانے لگے۔ یہ سب وہی کتے تھے جو شمشان گھاٹ میں ٹھکانہ کرتے تھے۔ جب مرنے کٹنے لگے تو اپنے گرو کے پاس جا کے اپنی بپتا سنائی اور دہائی دی کہ گرو کیسا انیائے ہے کہ راج محل کے پاپی کتے نگر میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اور شمشان گھاٹ کے باسی بنا کارن مارے جاتے ہیں۔ گرو نے یہ بات سن کر راج محل کی راہ لی۔

راجہ کے شاگردوں نے اسے بہت دھتکارا مگر اس نے ایک نہ سنی اور سیدھا راجہ کے سامنے پہنچا اور کہا کہ ’’ ہے منش جاتی کے راجہ کتوں نے تیرا کیا بگاڑا ہے کہ تو ان کی جانوں کا بیری ہو گیا ہے۔‘‘

’’انہوں نے میری رتھ کے گدے کاٹ ڈالے۔ اس کا سارا چمڑہ چبا گئے۔ سو میں نے ڈونڈی پٹوا دی کہ نگر میں جو کتا دکھائی دے اسے مار ڈالو‘‘۔

’’ہے راجہ کیا یہ حکم راج محل کے کتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے ‘‘۔

’’نہیں وہ میرے شرن میں ہیں ‘‘۔

’’کیسا انیائے ہے کہ اپرادہی راجہ کے شرن میں ہیں۔ نردوشی مارے جاتے ہیں ‘‘۔

راج محل کے کتوں پر ہاتھ کون ڈالے گا۔ نردوشی کب تک مارے جاتے رہیں گے۔ کون کون ، کہاں کہاں ، کیسے کیسے مارا جائے گا۔ کبھی تیری باری تو کبھی میری۔ کسی کو نوحہ گر نصیب ہو گا تو کوئی بے نصیب تہمتوں اور ملامتوں کے ہمالیہ تلے دبا دیا جائے گا۔ سرد مہری اور بے حسی کی برف کے تودے گرتے رہیں گے۔ معصوم لاشے کھلی بے جان منجمد آنکھوں سے سوال پوچھتے رہیں گے۔

’’ اپرادہی کب تک راجہ کے شرن میں رہیں گے۔ نردوشی کب تک مارے جاتے رہیں گے۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).