16 دسمبر اور کمزور یادداشت


ایک چھوٹا سا تجربہ کیجئے۔ ذرا کچھ نوجوانوں، کچھ بچوں وغیرہ سے دریافت کیجئے کہ 16 دسمبر کو ہمارے وطن میں کیا ہوا تھا؟ جواب میں اکثریت آپ کو بتائے گی کہ 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تھا، جواب غلط تو نہیں ہے۔ مگر چلئے، سوال تھوڑا سا تبدیل کیجئے، سوال کریں کہ پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر کو کون سا سب سے بڑا سانحہ پیش آیا ہے، اگر سوال نوجوانوں، جوانوں بلکہ ادھیڑ عمر والوں سے بھی ہو گا تو امکانی طور پر بس سانحہ آرمی پبلک اسکول ہی سننے کو ملے گا۔ کچھ بوڑھے لوگ جن کی عمریں ساٹھ یا ستر سال کے درمیان ہوں گی، وہ شاید آرمی پبلک اسکول سے مختلف ایک جواب دیں، وہ جواب ہے سانحہ سقوط مشرقی پاکستان۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آرمی پبلک اسکول میں جو ہوا وہ بہت برا تھا۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ 1971 ء کے 16 دسمبر کو جو ہوا اور اس سے قبل جو کچھ ہوا جس نے اس سیاہ دن کو اس وطن کی تاریخ میں رقم کیا، وہ آرمی پبلک اسکول کے واقعے سے کروڑ گنا بڑی بات ہے۔ راقم کچھ قبل آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے ضمن میں یہ بھی لکھا پڑھا کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا سانحہ ہے، افسوس صد افسوس، پاکستان کی تاریخ ہمارے اذہان میں کتنی محدود ہے۔

1971 ء میں ہوا کیا تھا؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ملک پاکستان کے مشرقی بازو نے مغربی بازو سے علیحدگی حاصل کی تھی اور وہ مشرقی بازو پاکستان کا 55 فیصد تھا، سوچئے کہ پاکستان اس دن ٹوٹا تھا یا نظریہ پاکستان کو ناقابل تلافی شکست ہوئی تھی؟

پھر سوچنے کی بات یہ بھی تو ہے کہ پاکستان ٹوٹنے سے قبل بدترین فسادات ہوئے تھے جن میں صوبہ مشرقی پاکستان میں بسنے والے سارے ہی غیر بنگالی نشانہ بنے تھے، بڑی بہیمیت سے ہر اس شخص کو قتل کر دیا گیا تھا جو مغربی پاکستان سے تعلق رکھتا تھا یا جو 1947 ء میں صوبہ مشرقی بنگال ہجرت کرنے والا مہاجر تھا۔

پھر فوج نے آپریشن سرچ لائٹ کیا جس میں بڑی بہیمیت سے بنگالیوں کو قتل کیا گیا، تب شرپسندوں اور امن پسند بنگالیوں میں کوئی تفریق نہ برتی گئی، ڈھاکہ یونیورسٹی کے اساتذہ بھی فوج نے مار ڈالے۔ پھر بھارتی افواج مع اپنی تیار کردہ مکتی باہنی کے داخل ہوئی اور بالآخر 16 دسمبر 1971 ء کو صوبہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔

مگر یہ نفرت، یہ ٹکراؤ آخر مشرقی پاکستان میں پیدا کیوں ہوا؟ یہ تاریخ بڑی تلخ ہے، 1947 ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ملک کا دار الخلافہ مغربی پاکستان میں کراچی کو بنا دیا گیا، حالانکہ زیادہ آبای مشرقی پاکستان میں تھی۔ برطانوی ہند سے پاکستان کے حصے میں جو فوج آئی تھی اس کی کثیر تعداد کا تعلق مغربی پاکستان کے پنجاب اور سرحد سے تھا۔ تب مارشل ریس کا لایعنی تصور رائج تھا جس کی وجہ سے بنگالیوں کو افواج میں ان کا جائز حصہ نہ دیا گیا، قد کی حد بھی ایسی رکھی گئی کہ بنگالی فوج میں بھرتی نہ ہو پائے۔

پاکستان میں قومی زبان اردو کو بنایا گیا اور بنگلہ کو وہ توجہ نہ دی گئی کہ جس کی وہ مستحق تھی۔ بھارت میں ہندی کو سرکاری زبان بنایا گیا اور تمام علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ یہ پالیسی بھارت میں بہت کامیاب رہی مگر پاکستان میں اردو کو قومی زبان قرار دے دینے سے تمام ہی علاقائی زبانوں اور بولیوں کے حاملین میں احساس محرومی پیدا ہوا، ان کو لگا کہ ان کی علاقائی شناخت نظر انداز ہو رہی ہے۔ یہ احساس سب سے شدت سے مشرقی پاکستان میں تھا۔

جب ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو مشرقی پاکستان کے ساتھ رویہ صریحاً ویسا ہو گیا جیسا کہ نوآبادیات کے ساتھ یورپی طاقتوں کا تھا۔ اہل مشرقی پاکستان کے دل سے آمریت کی آمد کے بعد یہ خیال صریحاً ختم ہو گیا کہ ان کو کبھی پاکستان میں اقتدار مل سکے گا۔

مشرقی پاکستان میں لوگ بھوک سے مر رہے تھے اور ایوب خان کو اپنے گاؤں میں نیا دار الحکومت بسانے کے اللے تللے سوجھ رہے تھے۔ تب بے پناہ پیسے خرچ کر کے اسلام آباد تیار کیا گیا اور اہل مشرقی پاکستان کے دل میں یہ تاثر راسخ ہو گیا کہ ہمارے جوٹ سے کمائی گئی دولت مغربی پاکستان میں اڑائی جائے گی۔

ایوب ہٹا تو یحییٰ خان آیا۔ اس شخص نے انتخابات کرائے اور ان انتخابات میں بنگال کے شیخ مجیب الرحمن اکثریت حاصل کی اور مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والے بھٹو نے واویلہ شروع کر دیا کہ وہ مشرقی پاکستان سے بننے والی حکومت برداشت نہیں کرے گا۔ ”جو مشرقی پاکستان پارلیمنٹ کے اجلاس میں جائے ون وے ٹکٹ لے کر جائے“۔ ”ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دیں گے“۔ ”ادھر ہم، ادھر تم“۔ الغرض بھٹو ہر روز پاکستان توڑنے کی باتیں کر رہا تھا اور یحییٰ نے آپریشن مغربی پاکستان میں بھٹو اور اس کی پیپلز پارٹی کو جمہوریت کے فیصلے کو ماننے کے لئے نہیں کیا بلکہ مشرقی پاکستان میں آپریشن کیا اور وہی ہوا جو ہم مضمون کے شروع میں بیان کر چکے۔

لاکھوں افراد جانوں سے گئے، کروڑوں کا اعتماد پاکستان کی سالمیت سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا، مگر ہمارے وطن کے بے خبر لوگ 16 دسمبر 1971 ء کو اس طرح بھول گئے جیسے ایسا دن کبھی پاکستان کی تاریخ میں آیا ہی نہ تھا، جیسے پاکستان تو محض یہی مغربی پاکستان ہی تھا، مشرقی پاکستان تو کبھی وجود ہی نہ رکھتا تھا، جیسے 1947 ء کی ساری تحریک تو بس اسی مغربی پاکستان کے حصول کے لئے چلی تھی، جیسے 1971 ء تو کبھی گزرا ہی نہیں۔ 16 دسمبر کو تو بس آرمی پبلک اسکول پر ہی حملہ ہوا تھا۔ پاکستان تو ٹوٹا ہی نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).