نوماہ، تین بجٹ اور عوام


حکمران اتنے فاسٹ ہیں کہ نو ماہ میں تین ڈیلوریاں کردی پہلے بجٹ ڈیلوری اپریل میں 2018 / 2019 کے بجٹ کی صورت میں مسلم لیگ نون نے کی اس مہنگائی کے دور میں ابھی عوام اس نومولود کو سنبھالنے میں رات دن ایک کر رہے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ستمبر 2018 میں منی بجٹ کی صورت میں عوام کی گود میں ایک اور مہنگائی کا چننا ڈال دیا بات یہاں ختم ہو جاتی تو بھی خیر تھی 23 جنوری کو ایک نیا مننا آگیا اور اس کا نام ریفارمز پیکچ بھی رکھ دیا۔ خیر یہ اچھا ہے کہ نام خود ہی رکھ لیا ورنہ ایسی ان وانٹڈ کنڈیشنر کو عوام لعنت خباثت اور اور ۔ ۔ ۔  یار جانے دیں نا گفتنی ہے جیسے اعلی ناموں سے پکارتے ہیں۔

پاکستان کے لاکھوں عوام گذشتہ ستر برس سے ایسی قیادت کو ترس رہے ہیں جو ان کے مسائل کا مداوا کرسکے لیکن لگتا ہے کہ اب تک جو بھی تجربات ہوئے ہیں اس میں کبھی بھی غریب عوام اوران کے مسائل، ترجیحات میں شامل نہیں رہے ہیں فوجی ہو یا سویلین حکمران ان سب نے ہی کسی نہ کسی شکل میں عوام کو لوٹا ہے اور ایسی پالیسیاں بنائیں جس کے باعث ان کی زندگی جہنم سے قریب تر ہوتی جارہی ہے اوریوں ہر جانے والا حکمران پہلے سے بہتر دکھائی دینے لگتا ہے۔

لیکن غریبوں کے دن کبھی پھرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اب تبدیلی سرکار نے جس کا دعوی ہے کہ ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے دونوں بجٹ میں غریبوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ لیکن سرکار فقط اتنا بتادیں کہ پیٹرول کی قیمت میں لیوی ٹیکس اور جی ایس ٹی بڑھانے سے اثرات کس پر پڑیں گے؟ کیا پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کا کوئی تعلق نہیں؟

سب کے سب حکمران ایک ہی راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ جانے والے حکمرانوں نے خزانہ خالی کردیا ساتھ ہی وہ قرضے لے کر ادائیگی ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے بعد آنیوالی حکومت بھی ایسے ہی بیانات دے گی جیسے آج کل وزیر خزانہ اسد عمر دے رہے ہیں۔

یہ تلخ حقیقت سے تو ہم واقف ہی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور کرپشن کی وجہ سے زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے۔ آمدنی میں کمی اور اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت دگر گوں ہے اور پھر پی ٹی آئی کی یہ دہائی کہ مسلم لیگ نون نے جاتے ہوئے جو بجٹ عوام کودیا درحقیقت یہ بجٹ انھیں دینا ہی نہیں چاہیے تھا اس بجٹ کی آڑ میں الیکشن کمپین میں اربوں روپے خرچ کیے گئے اور عوام کو بھی بے پناہ سہولتوں سے نوازا گیا خیر ن لیگ کی حکومت جانتی تھی کہ جو بجٹ وہ دے رہے ہیں اس بجٹ کے ساتھ نئی آنے والی حکومت کو اپنا بجٹ خسارہ سنبھالنے میں عرصہ لگ جائے گا۔

سو پی ٹی آئی کی حکومت نے آتے ہی ایک منی بجٹ سامنے رکھا۔ پہلے ن لیگ کے دیے گئے بجٹ میں نقائص تھے تو اب اپنے دیے گئے بجٹ میں ہی کمی محسوس ہوئی۔ جب کہ ہم نے پہلے ہی اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ ستمبر میں دیے گئے بجٹ میں وزیرِ داخلہ کسی انقلابی تبدیلی کی طرف قدم بڑھانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح ملک کی تاریخ میں نو ماہ کے قلیل عرصے میں تیسرا بجٹ عوام کو دے گیا۔ وزیرِخزانہ اسد عمر اس پر کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کے اقدامات سے معیشت میں بہتری اور خسارے میں کمی آرہی ہے۔ تو جناب ایسا یقیناًہوگا آپ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ سارے اقدامات کررہے ہیں لیکن یہ بھی دیکھئے کہ پاکستان میں ایک عام فرد کے معاشی مسائل میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ نئی حکومت کے آتے ہی مہنگائی سے ہر شخص عاجزہے۔

ہرحکومت اپنے بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہتی ہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ عوام ایسے دوست سے اتنی عاجز ہے کہ ہاتھ جوڑ کر کہتی ہے کہ خدارا اسے اب نا لانا۔ کوئی بھی بجٹ ہو وہ عوام پر بلواسطہ محاصل عائد کرتا ہے اور کسی نا کسی صورت میں کم آمدنی والے شہریوں کو ہی اس کا بوجھ بھگتنا پڑتا ہے۔ جب کہ موجودہ بجٹ میں فائلرز کے لئے بیکنگ ٹرانزکشن پر ہولڈنگ ٹکس کے فوری خاتمے کا اعلان کیا گیا۔ خام مال پر درآمدی ڈیوٹی کم کردی گئی۔

شادی ہالوں پر ٹیکس کم کیا گیا۔ نان بینکنگ کمپنیز کا سپر ٹکس ختم کرنے کی پیشکش، 1800 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیاگیا، درآمد شدہ موبائل فون اور سیٹلائیٹ فونز پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے، نئے کارباری بروجیکٹس کے لئے پانچ سال کے لئے انکم ٹیکس پر چھوٹ دے دی گئی، ایکسپورٹر کو پرامزری نوٹ کے ذریعے بنک سے کیش قرض مل سکے گا، کسانوں کے لئے خاص طور پر مختلف مدمیں لئے جانے والی ڈیوٹی میں کمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

حزبِ اختلاف موجودہ حکومت کے اس دوسرے بجٹ کو معاشی میدان میں ناکامی قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ماہرِ معاشیات کے مطابق یہ بجٹ معاشی سمت میں ایک درست قدم ہے جس کے نتائج آنے والے وقت میں مثبت طور سے سامنے آئیں گے۔ اب یہ نعرہ تو روزِ اول سے پی ٹی آئی کی حکومت کرتی آئی ہے کہ ان کی حکومت اخراجات کو کم کرنے میں سنجیدہ ہے لیکن دوسرا منی بجٹ آنے کے بعد بھی وزراء اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہمارے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کے ٹھاٹھ باٹھ میں کوئی کمی کہیں سے نظر نہیں آتی۔

دوسری جانب ایک عام پاکستانی کا معیارِ زندگی روز بروز گرتا جارہا ہے۔ یہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسد عمرکی پیش کردہ معاشی تجاویز ستمبر کے بجٹ کی طرح سیاسی نوعیت کا ہونے کا بھی اعلان کرتی ہیں اس بجٹ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک خاص طبقے کو نوازنے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ مجبورا کسانوں کو ریلف دے کر عوام ہمدردی حاصل کرنے کا پورا سامنا رکھا گیاہے۔

بجٹ کا نام سن کر ہی عوام کے اندر ایک خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ اب مہنگائی کی ایک اور سل اُن کے سینے پر رکھنے کے لئے تیار ہے۔ ہوتا یہ کہ اگرحکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ اس نے یہ بجٹ خاص طور پر عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ ہٹانے کے لئے تیار کیا ہے تو روزمرہ زندگی میں ہمیں اس کے اثرات کہاں اور کس حد تک نظر آتے ہیں۔ اب اگر کسی بھی قسم کے اناج میں پیسے نہیں بڑھائے گئے لیکن بیجنے والا یہ کہہ کر پیسے زیادہ لے کہ جناب بجٹ آگیا ہے مہنگائی ہوگئی ہے تو عام فرد اس کو چیلنج نہیں کر سکتا وہ مہنگا اناج لینے پر مجبور ہے۔

ایسی صورتحال میں بجٹ آنے کے بعد متعلقہ اداروں کو فوری طور پر حرکت میں آکر اس بات کو یقنی بنانے کی ضرورت ہے کہ بلاوجہ بجٹ کی آڑ میں صارف کو لوٹنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ امراء کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ اگر ان کے ماہانہ اخراجات میں اچانک سے پانچ ہزار کا اضافہ ہوجائے لیکن ایک عام متوسط فرد کے لئے اس کے اخراجات میں مختلف مد میں پانچ ہزار کا اضافہ ہوجانا اس کے گھر کے معاشی حالات کے بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے۔

تحریک انصاف کے دعوی اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی معاشی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے چھ ماہ نے عوام کو بہت مایوس کیا ہے۔ ہمارے وزیرِ خزانہ پُرتعیش مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن اس وقت عوام کا حال تو یہ کہ انھیں بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔

اب حکومت یہ کہے کہ وہ عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ کم کررہی ہے یا حزب اختلاف کہے کہ موجودہ حکومت عوام پر مہنگائی کا عذاب ڈال رہی ہے۔ درحقیت ان دونوں کو ہی پاکستان کے عام شہری کے مسائل کا شعور نہیں۔ کیونکہ ان سیاست دانوں کا تعلق تو امرء طبقہ سے ہوتا ہے۔ سو عوام کے مسائل کو یہ کیونکر سمجھیں۔ کوئی ملک پر پانچ سال حکومت کرکے اپنا مال بنا کر ایک طرف ہوجاتا ہے اور کسی کو ملک کے مسائل سمجھنے میں ہی اتنا وقت گزر جاتا ہے کہ پانچ سال مکمل ہوجاتے ہیں اور اسی وقت کہ پہیے میں پاکستانی عوام کو کچلا جا رہا ہے۔

اس دوسرے منی بجٹ کو جلد بازی میں لانے کی بجائے اگر رواں سال جون میں آنے والے بجٹ پر مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جاتا تو یہ زیادہ بہتر تھا۔ لیکن ہمشہ کی طرح یہ حکومت جلد بازی کے فیصلوں پر زمینی حقایق سمجھے بغیر عمل درآمد کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ سو جون تک پھر دیکھ لیتے ہیں کہ کون سا بلا میرا مطلب ہے تیر مارا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).