یہ سحر‌ تجھے مبارک جو ہے ظلمتوں کی ماری


ملک بھر میں ہر طرف یوم جمہوریہ کے ‌ موقع پر جشن خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ دیش بھکتی کے گیت گائے جا رہے ہیں۔ کہیں دیش بھکتی پر تقاریر کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ بھولے بھالے عوام جشن منانے میں مصروف ہیں انہیں جمہوریت سے کھلواڑ کے بارے میں کوئی کچھ پتہ نہیں۔ کہ کس طرح غیر‌محسوس طریقے سے جمہوریت کو دیمک کی طرح چاٹا جا رہا ہے یہ ملک کو کھوکھلا کرنے سازش ہے ایسے افراد ملک کے سسٹم پر قابض کر دیے گئے ہیں جو فرقہ پرست ذہنی عناصر کی پیروی کر رہے ہیں ان کا میشن ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرکے اس ملک‌کو ہندو راشٹر بنانا ہے۔

ان‌ فرقہ پرستوں کے نشانے پر اب ملک کے ایوان بھی آچکے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی نشانے پر ہ۔ے پچھلے دنوں سنگھی دہشت گردوں نے سوشل میڈیا پر کھلے عام یہ کہاں تھا کے ایک دھکا اور دو‌ سپریم کورٹ کو توڑ دو۔ ایسی منافرت اور تشدد برپا کرنے والی باتوں پر ایسے افرادکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ سپریم کورٹ کے ججز کو خطرہ لاحق ہوا اور انہوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے یہ بات سامنے لانے کی کوشش کی کہ ملک‌ کی جمہوریت خطرہ میں ہے۔ بالکل صحیح کہا انہوں نے۔

یہ آج کی بات‌ نہیں ہے۔ ملک کے آزاد ہونے کے بعد بھارت کا آئین نافذ کیا گیا۔ اس کے نفاذ کے فوراً بعد ہی 1950 میں آرٹیکل 341 کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا جس میں سے مسلمانوں اور‌ دیگر پسماندہ طبقات کو ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا۔ اس وقت سے ہی جمہوریت کو داغدار کرنے کا کام کیا جا رہا ہے جمہوری اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے جو آج بھی جاری ہے۔ ملک کے سسٹم میں ‌ کچھ سچے دیش پریمی جنہیں ملک سے حقیقی معنوں میں محبت ہے ایسے افراد کو سنگھی ذہنیت کے حامل سسٹم کے افراد نشانہ بنا رہے ہیں۔ جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہے انہیں راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے جیسے ہیمنت کرکرے، گوری لنکش، جسٹس‌لویا، وغیرہ۔ ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں جن کا انکاؤنٹر کر دیا گیا۔ بغیر کسی ثبوت کے انہیں قتل کر‌ دیا گیا۔ گزشتہ دنوں سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کی فیصلے پر دوبارہ انہیں عہدے پر بحال کیا گیا تھا لیکن وزیر اعظم نے اپنی رہائش گاہ پر میٹنگ کے اندر آلوک ورما کو عہدے سے برطرف کر دیا جب کہ آلوک ورما جلد ہی ریٹائر ہونے والے تھے۔ آخر کیوں ایسے فیصلے لے گئے یہ بات قابل غور ہے کیوں کہ وزیر اعظم کو یہ ڈر خوف ستا رہا تھا کہ آلوک ورما رافیل ڈیل کی جانچ کا حکم نہ دے، اسے لیے انہیں عہدے سے مستعفی کردیا گیا۔

اگر ملک میں جمہوریت قائم ہے تو پھر انصاف سڑکوں پر کیوں ہونے لگا ہے؟ عدالتیں کیوں بنائی گئی ہیں؟ بھارت کا آئین کیوں لکھا گیا ہے، ملک میں اقلیتی برادری کو‌ کیوں تشدد کا‌ نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ کیوں دیش میں خواتین کو تحفظ فراہم نہیں کیا جارہا؟ بچہ مزدوری پر روک ہونے کے باوجود بچے کیوں مزدوری کرتے دکھائی دیتے ہیں؟ ملک کے باشندوں کو برابری کے حقوق حاصل ہونے کے باوجود اقلیتی فرقہ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے؟ کیوں بے قصور نوجوانوں کو جیلوں کی زینت بنایا جا رہا ہے؟ کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ نہیں جمہوریت کا مقصد تو یہ ہے کہ عوام کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ ملک میں کوئی غریب بھوک سے نہ مرے، ملک میں کوئی بچہ بغیر تعلیم نا رہے، ملک میں ہر شخص کو بولنے لکھنے کی آزادی ہو، ہر مذہب کے ‌ پیروکاروں کو آزادی سے عمل کرنے کا حق حاصل ہو، خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے، غریبوں کو برابری کے حقوق فراہم کیے جائے، مذہبی منافرت کا خاتمہ کیا جائے، کوئی شہری اپنے آپ کو ملک کی فضا میں غیر محفوظ محسوس نہ‌ کرے تب جا کر اس ملک کو جمہوری ملک کہنے کا حق حاصل ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).