بے پردہ لڑکیاں اور ذہنی بیمار مرد


سپر مارکیٹ میں چند بے پردہ لڑکیاں نظر آئیں تو مجھے بے اختیار اکبر الہ آبادی یاد آ گئے جو ایسے ہی ایک موقعے پر ‘غیرتِ قومی’ سے زمین میں گڑ گئے تھے۔ خیر ہماری کیفیت ایسی ہرگز نہیں تھی ہم تو ان ہنستی، مسکراتی اور خوش گپیاں کرتی لڑکیوں کو دیکھ کر یہ سوچنے لگے کہ سرد موسم میں آئس کریم سے لطف اندوز ہوتی یہ لڑکیاں زندگی سے بھرپور ہیں۔ سپنوں سے بھری چشم ہائے نیم باز، چمکتے ہوئے عارض اور لب ہائے گلگوں اس ازلی حقیقت کی غمازی کر رہے تھے کہ تصویرِ کائنات میں رنگ صنفِ نازک کے وجود سے ہی ہے۔

ایسے میں ان لڑکیوں کا خیال بھی آیا جو بھاری پردوں اور برقعوں میں اگر باہر آئیں تو خود کو محفوظ سمجھتی ہے جبکہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ تاڑنے والے بھی قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں وہ چادر اور برقعے کی موجودگی میں بھی ‘ایکس رے اور الٹرا ساؤنڈ’ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جس معاشرے میں چار سالہ بچی محفوظ نہ ہو وہاں پردہ کیا کر سکتا ہے۔ ویسے بھی پردے کو عفت وپاکیزگی، نجابت و طہارت اور آبرو و پاکدامنی جیسے الفاظ کا مترادف قرار دے کر لڑکیوں پر مسلط کیا جاتا ہے۔

مقصد یہ ہوتا ہے کہ لڑکی اپنے آپ کو چھپا کر رکھے لیکن آخر کتنا چھپائے خود کو۔ اتنا تو ہمیں معلوم ہے کہ اسی پاک سرزمین پر خود کو منوں مٹی کی چادر میں چھپانے والی عورت کو بھی ہوس کے ماروں نے قبر سے نکال کر بے حرمت کیا ہے۔ چنانچہ ایسے واقعات اس مکتبہ فکر کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جو یہ کہتا ہے کہ عورت پردے سے باہر آ کر زیب و زینت، نمائش، بے باکی، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے۔

ان کا یہ موقف ناقابلِ فہم ہے کہ عورت باہر نکلے گی تو مردوں کے جذبات بھڑکیں گے پھر اگر وہ عورت کی عزت کو پامال کرتے ہیں تو یہ سرا سر عورت کا قصور ہے۔ یعنی سارا زور اس بات پر ہے کہ عورت مرد کو نظر آئے گی تو مرد اسے پامال کرنے پر مجبور ہوں گے اور اس میں غلطی بھی عورت ہی کی ہو گی۔ اس منطق کو سمجھنے کے لئے کسی ‘لال بھجکڑ’ کی سی دانش درکار ہے۔ ہم تو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ہماری رائے میں باپردہ یا بے پردہ لڑکیوں کو دیکھ کر کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی حرکت کرنے والے مرد ذہنی بیمار ہوتے ہیں۔ ان ذہنی بیمار مردوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عورت پردے میں ہے یا بے پردہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان ذہنی بیماروں کی تعداد جہاں زیادہ ہو گی وہاں ایسے واقعات بھی زیادہ ہوں گے۔

ہمارے بعض دانشور جنسی بے راہ روی اور ریپ جیسے واقعات کے حوالے سے پردے کی افادیت کا بڑا ڈھول پیٹتے ہیں کہ دیکھا ہمارے ہاں پردے کی پابندی زیادہ ہے اس لئے ایسے واقعات بھی کم ہیں فلاں سروے کے مطابق یورپ میں اتنے واقعات ہوئے اور امریکہ میں اتنے ہوئے وغیرہ وغیرہ۔

ایسے بیانات پر سر دھننے سے پہلے یہ بھی غور کر لینا چاہئیے کہ ہمارے ہاں عزت و غیرت کی خاطر منہ بند رکھنے کی روایت کی وجہ سے شاید ایک فی صد سے کم واقعات کی رپورٹ کی جاتی ہے جبکہ جن معاشروں کی مثالیں دی جاتی ہیں وہاں ننانوے فی صد تک واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی سروے پر خوش ہونے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانک لینا زیادہ مفید ہے۔ کم از کم حقیقت کا ادراک تو ہو پائے گا۔

لڑکیوں کو چادر اور چار دیواری میں قید رکھنے کے لئے یوں تو بہت سے دلائل دئیے جاتے ہیں لیکن سب سے زیادہ ہنسی اس بات پر آتی ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہر قیمتی چیز چھپی ہوئی ہوتی ہے اور چھپا کر رکھی جاتی ہے جیسے ہیرا بہت قیمتی ہوتا ہے اور بہت چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ عورت بہت قیمتی چیز ہے اس لئے ہم اسے چھپا کر رکھتے ہیں اور عورت کو خود بھی اپنے آپ کو سب سے چھپا کر رکھنا چاہئیے۔ ایسا کہنے والے عورت کو بھی ایک چیز ہی سمجھتے ہیں۔

عورت کو انسان تو کبھی سمجھا ہی نہیں۔ اگر انسان سمجھیں تو انہیں پتا چلے کہ اگر عورت کے باہر نکلنے پر مردوں کے جذبات بھڑکتے ہیں تو کیا مرد عورت کے جذبات نہیں بھڑکا رہے۔ ہاں عورت انسان تو ہے نہیں جس کے جذبات ہوں وہ تو ایک شے ہے ایک چیز ہے اس لئے جذبات کا اس سے کیا تعلق۔

براہِ کرم یہ مت سمجھیں کہ ہم لباس کی ضرورت و اہمیت سے بے بہرہ ہیں۔ لباس مردو زن دونوں اصناف کے لئے یکساں اہمیت و افادیت رکھتا ہے۔ جتنا لباس ضروری ہے وہ مردوں کو بھی پہننا چاہئیے اور عورتوں کو بھی لیکن غیر ضروری طور پر لڑکیوں کو بھاری برقعوں اور دیواروں میں قید کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بعض حضرات کا تو بس نہیں چلتا وگرنہ وہ عورتوں کو دیواروں میں قید کر کے نہ رکھیں بلکہ دیواروں میں چنوا دیں۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔

سارا فساد دماغ کا ہے۔ یہ ذہنی فتور ہے جو عورت پر بری نگاہ ڈالتا ہے۔ یہ ذہنی بیماری ہے جو عورت کو احترام نہیں دے سکتی۔ لہٰذا لڑکیوں کو پردہ کرانے کی بجائے ذہنی بیمار مردوں کا علاج کروائیے۔ یقین کیجئے اس طرح عورت زیادہ محفوظ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).